اس وقت جب میں کالم لکھ رہا ہوں، امریکہ میں صدارتی الیکشن مہم کی سرگرمیاں ختم ہو چکی ہیں اور ووٹنگ کا عمل شروع ہو رہا ہے۔ امریکی اخبارات کا مطالعہ کرکے اور ذمہ دار امریکی صحافیوں کے تبصرے سن کر میں یہ بات قدرے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ امریکی عوام کی اکثریت ہلری کلنٹن کو امریکہ کا 45واں صدر دیکھنا چاہتی ہے، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ناتجربہ کار ہیں، اور مسلمانوں کے متعلق ان کی رائے مناسب و معقول نہیں‘ نیز وہ (ڈونلڈ ٹرمپ) کھل کر امریکہ کے سیاسی نظام کو بُرا بھلا کہہ رہا ہے، سیاست دانوں اور میڈیا کو وہ خصوصیت کے ساتھ کرپٹ قرار دے رہا ہے۔ امریکہ کے سیاسی نظام کو کرپٹ قرار دینے کے باوجود ٹرمپ اسی نظام کے تحت الیکشن لڑا۔ اس کے Migrants کے بارے میں خیالات بھی امریکہ کی روایتی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ ٹرمپ کی نگاہ میں امریکہ کا کرپٹ نظام ہلری کو کامیاب کرانے کے لئے کام کر رہا ہے۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ ہلری اگر کامیاب ہو گئیں تو امریکہ کی معیشت ترقی نہیں کر سکے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر ہار گیا تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو گی کہ وہ کھل کر روس کے صدر پیوٹن کی تعریف کرتا رہا‘ اور عندیہ دیتا رہا کہ اگر وہ امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا تو روس کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لے کر اس میں بہتر ی لانے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ کے پالیسی سازوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کی روس کے ساتھ مفاہمت سے متعلق خیالات شدید ناپسند ہیں، کیونکہ اگر اس وقت کسی ملک نے امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ میں پریشان کر رکھا ہے تو وہ روس ہی ہے، جو بشارالاسد کی حکومت کو بچانے کے لئے اسد مخالف فوجیوں کے خلاف میدان جنگ میں اتر چکا ہے۔ ٹرمپ کا ٹیکس ادا کرنے کے سلسلے میں ریکارڈ بھی امریکی عوام میں زیر تنقید ہے۔ لیکن ٹرمپ کی بیباکی کی تعریف کرنا پڑے گی‘ کیونکہ ماضی میں امریکی صدارت کے کسی بھی امیدوار نے اس طرح کھل کر امریکہ کے سیاسی نظام پر تنقید نہیں کی۔ ان کی جانب سے اس تنقید کو امریکہ کے نوجوانوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔
دوسری طرف ہلری کلنٹن اپنے سابق تجربے کی روشنی میں ٹرمپ کے خلاف غیر پارلیمانی جملے ادا نہیں کئے، البتہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ اگر ٹرمپ کامیاب ہو گئے تو امریکہ غیر مخفوظ ہو جائے گا، اور یہ کہ صحت عامہ سے متعلق جو پالیسیاں بارک اوباما نے تشکیل دیں‘ وہ بھی غیر موثر ہو جائیں گی۔ ہلری کلنٹن پر ایک الزام جو انتخابی مہم کے دوران تسلسل کے ساتھ لگتا رہا، وہ ان کی ای میلز کے حوالے سے تھا‘ جو زیادہ تر نجی تھیں لیکن ان نجی ای میلز میں انہوں نے امریکہ کی خارجہ پالیسیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ٹرمپ نے ان ای میلز کی بنیاد پر ہلری کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، لیکن بعد میں ایف بی آئی نے یہ کہہ کر ہلری کلنٹن کو کلیئر کر دیا کہ ان ای میلز میں ایسی کوئی بات نہیں‘ جس کی بنا پر انہیں انتخابی مہم سے روکا جا سکے یا پھر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ بہرحال امریکہ میں کئے گئے مختلف سرویز سے یہ حقیقت ظاہر ہو رہی ہے کہ ہلری کلنٹن کو آئندہ امریکہ کا صدر منتخب کر لیا جائے گا۔ ویسے بھی امریکہ کی ورکنگ ویمن کی تنظیموں کی یہ خواہش ہے کہ ہلری کو امریکہ کا صدر منتخب کیا جائے، کیونکہ امریکہ میں پہلی مرتبہ کسی خاتون کو امریکہ کا صدر بننے کا اعزاز حاصل ہو گا، جس طرح امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی کالے یعنی بارک اوباما کو امریکہ کا صدر منتخب کیا گیا تھا؛ تاہم جو بھی امریکہ کا نیا صدر منتخب ہو گا، اس کے سامنے مندرجہ ذیل ایشوز بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے، جس پر نئے صدر کو توجہ دینا ہو گی:
1۔ مشرق وسطیٰ کی جنگ۔
2۔ پاک بھارت تعلقات۔
3۔ افغانستان کی جنگ۔
4۔ سائوتھ چائنا سی۔
5۔ مشرق بعید میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی اور چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ۔
مندرجہ بالا ایشوز کا تعلق امریکہ کی خارجہ پالیسی سے ہے‘ جبکہ داخلی پالیسیاں درج ذیل نکات پر مبنی ہو سکتی ہیں:
1۔ امریکہ میں پُرتشدد واقعات روکنا۔
2۔ گن کلچر پر کنٹرول۔
3۔ نئی آسامیاں پیدا کرنا۔ اس وقت امریکہ میں بہت زیادہ بے روزگاری پھیلی ہوئی ہے۔
4۔ امریکہ میں گورے اور کالوں کے درمیان ابھرتے ہوئے نسلی امتیاز کو کم کرنا‘ یا پھر مکمل طور پر ختم کرنا۔
5۔ صحت اور تعلیم کے شعبے میں عوام کو زیادہ بہتر سہولتیں فراہم کرنا۔
6۔ خواتین کے لئے محفوظ روزگار کا ماحول پیدا کرنا وغیرہ۔
امریکہ کو اگر اپنا عالمی سٹیٹس برقرار رکھنا ہے تو اسے سب سے پہلے اندورن ملک مسائل پر توجہ دینا ہو گی‘ کیونکہ ایک طاقتور اور مضبوط امریکہ ہی دوسرے ممالک میں اپنا وقار، رعب اور دبدبہ برقرار رکھ سکتا ہے۔