ابھی امریکہ اور بھارت کے درمیان سویلین نیوکلیئر معاہدے سے متعلق سیاسی خشک نہیں ہوئی تھی کہ جاپان بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر ڈیل کے لئے تیار ہوگیاہے، اس سلسلے میں ان دونوں ملکوں کے درمیان بڑی گرم جوشی سے بات چیت چل رہی ہے، سفارتی ذرائع کے مطابق کہا جارہا ہے کہ جلد ہی بھارت اور جاپان کے درمیان سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ ہوجائے گا، بھارت آئندہ چند سالوں میںکم از کم 18 نیو کلیئرری ایکٹر تعمیر کرنا چاہتاہے، ان نیوکلیئرری ایکٹر کی تعمیر میں امریکہ کے علاوہ جاپان بھی حصہ دارہے ، تاہم اس سلسلے میں حیرت کی بات یہ ہے کہ جاپان نے ہمیشہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے پھیلائو سے متعلق اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے، بلکہ 1998ء میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا تو جاپان ان ملکوں میں سب سے پہلے پہلا ملک تھا جس نے بھارت کے ایٹمی دھماکے کی مذمت کی تھی، اسکے ساتھ ہی اس نے امریکہ کے ساتھ مل کر بھارت پر معاشی پابندیاں بھی عائد کرائی تھیں، اور بھارت پر دبائو ڈالا تھا کہ وہ NPTپر دستخط کردے لیکن آج جاپان بدل چکا ہے، اب نیوکلیئر ہتھیاروں کے پھیلائو سے متعلق اسکو کوئی تشویش نہیںہے، بلکہ وہ بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ کررہاہے، حالانکہ جاپان کے عوام میں ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق سخت تحفظات پائے جاتے ہیں، ایک عام باشعور اور پڑھا لکھا جاپانی ہیرو شیما اور ناگاساکی پر 1945ء میں امریکہ کی جانب سے پھینکے جانے والے نیوکلیئر بم کی ہولناک تباہیوں کونہیں بھولا ، اس نے مجموعی طور پر جاپان میں نیوکلیئر ہتھیاروں کو بنانے یا پھر اس کو کسی دوسرے ملک میں فروخت کو ہمیشہ مخالفت کی ہے، لیکن اب یہ سب کچھ ماضی کا حصہ ہے ، جاپان کی معیشت روبہ زوال ہے، جبکہ اس کے مقابلے اس کے روائتی حریف چین کی معیشت ترقی کرتے کرتے دوسرے نمبر پر آچکی ہے، امریکہ کو چیلنج بھی کررہی ہے، اس لئے اب جاپان اپنی معیشت کی شرح نمو بڑھانے اور ترقی دینے کے سلسلے میں نیو کلیئر ٹیکنالوجی کی فروخت کو ترجیح دے رہا ہے، اسی پس منظر میں اب وہ بھارت کے ساتھ سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی کررہاہے، تاہم اگر جاپان بھارت کے ساتھ یہ معاہدہ کررہاہے، تو اس نے پاکستان کو کیوں نظر انداز کردیاہے؟ پاکستان نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک ذمہ دار ملک ہے ، ساری دنیا بشمول اقوام متحدہ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے ، پاکستان بھی جاپان کے ساتھ سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی معاہدے کا خواہش مند ہے اور اس کی جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا چاہتاہے، تاکہ اس کے پر امن استعمال کے ذریعہ پاکستان کی معیشت کو ترقی دی جاسکے، پاکستان جاپان کا قابل اعتماد دوست رہا ہے، اور ہے۔ اس نے ہر موقع پر جاپان کی بے لوث مدد کی ہے، خصوصیت کے ساتھ50ء کی دہائی میں جب جاپان کو غذائی قلت کا سامنا تھا، پاکستان نے ہزاروں ٹن چاول جاپان کو مفت فراہم کئے تھے، جب جاپان میں سونامی آیا تھا ، ہر طرف تباہی پھیل گئی تھی تو پاکستان ان ممالک میں سرفہرست تھا جس نے جاپان کی مدد کی تھی، آج بھی جاپان اور پاکستان کے درمیان اچھے معاشی تعلقات قائم ہیں جن میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے۔
بھارت چین کے ہاتھوں1962ء میں شکست کھا چکا ہے، اس لئے بھارت بھی اس معاہدے میں شریک ہونا چاہتاہے، جو چین کے خلاف تشکیل دیا جارہاہے ، پاکستان اور چین کے مابین ہونے والے 46بلین ڈالر سی پیک کا معاہدہ بھی بھارت کو سخت ناگوار گزررہاہے، نریندرمودی نے سی پیک کو غیر موثر اور ناکام بنانے کے لئے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ بلوچستان میں توڑ پھوڑ اور قتل وغارت گری کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے، بھارت کے سی پیک سے متعلق مکروہ عزائم سے چین بخوبی واقف ہے، اور اس نے تہیہ کرلیا ہے کہ یہ اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ ضرور پائے تکمیل تک پہنچے گا۔ پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت اس منصوبے کی مکمل حمایت کررہی ہے، پاکستان آرمی کے 15 ہزارسے زائد نوجوان اس منصوبے کی حفاظت پر مامور ہیں ، تو دوسری طرف یہ منصوبہ بلوچستان سمیت پاکستان کے لئے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔
جاپان اور بھارت کے درمیان سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے ضمن میں ہونے والی ڈیل سے مجھے بہت حیرت ہوئی ہے، کیونکہ پانچ سال قبل جب میں جاپان حکومت کی دعوت پر وہاں گیا تھا تو وہاں مجھے سرکاری سطح پر یہ بتایا گیا تھا کہ جاپان نیو کلیئرہتھیاروں کے بنانے اور اس کی فروخت کے سخت خلاف ہے۔دوران گفتگو انہوںنے پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام سے متعلق بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا، ہیروشیما میںاپنے ایک لیکچر کے دوران مجھے بعض جاپانیوں نے یہ سوال کیا تھاکہ بھارت اور پاکستان دونوں کو اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاریاں روک دینی چاہئے، تاکہ جنوبی ایشیا کو ان مہلک ہتھیاروں سے محفوظ کیا جاسکے، میںنے اس کا سادہ سا جواب دیا تھا کہ پہل بھارت کو کرنی چاہئے جو پاکستان کے خلاف روز اول سے اس کی تباہی کے منصوبے بنارہاہے، امن کی تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ میں نے کہا کہ جاپان اس سلسلے میں دونوں ملکوں کی مددکرسکتاہے، لیکن اب 2016ء میں جاپان بھارت کوسول نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں خود کفیل بنانے کی کوشش کر رہا ہے، کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے؟ ۔