سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک بار پھر حکومت سے کہا ہے کہ فوری طور پر ملک میں مردم شماری کرانے کے لئے حتمی تاریخ کا اعلان کیا جائے اور اگر حکومت نے اس اہم مسئلہ پر ٹال مٹول سے کام لیا تو سپریم کورٹ وزیراعظم کو عدالت میں طلب کرکے حقائق معلوم کرے گی کہ مردم شماری کرانے میں کیا رکاوٹیں در پیش ہیں اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں کیا مجبوریاں ہیں؟
یاد رہے کہ آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی۔ پہلی مردم شماری قیام پاکستان کے بعد 1951ئکرائی گئی تھی۔ یہ شہید ملت لیاقت علی خان کی حکومت کا آخری دور تھا، اس کے بعد پاکستان میںچار مرتبہ مردم شماری کا اہتمام کیا گیا جس کی بنیاد پر ملک میں انتخابات ہوتے رہے اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم بھی عمل میں آتی رہی۔ 1998ء کے بعد 2008ء میں مردم شماری ہونا لازمی تھا، لیکن سابق صدر آصف علی زرداری کی حکومت نے اس میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا، اس طرح بات ٹل گئی۔ پاکستان میں اس وقت کسی کو بھی حتمی طورپر یہ نہیں معلوم کہ پاکستان کی آبادی کتنی ہے؟ خواتین کی تعداد کیا ہے؟ ووٹ کا حق رکھنے والے بالغ افراد کتنے ہیں؟ بچوں کی تعداد کتنی ہے؟ جب تک صاف اور شفاف مردم شماری نہیں کرائی جائے گی نہ تو صحیح معنوں میں آئندہ انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیاں ہو سکیں گی اور نہ ہی الیکشن کمیشن میں مجوزہ اصلاحات کا عمل ممکن ہو سکے گا۔
پاکستان کی چالاک اور مفاد پرست اشرافیہ، کرپٹ بیورو کریسی جس کی ہمہ وقت مدد اور رہنمائی کرتی رہتی ہے، نہیں چاہتی کہ مردم شماری ہو کیونکہ جب حقیقی معنوں میں مردم شماری ہوگی تو آبادی کے لحاظ سے نئی حلقہ بندیاں معرض وجود میں آئیں گی اور ووٹروں کی صحیح تعداد معلوم ہوگی، صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی ہو سکے گی اور یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ اتنے عرصے میں پاکستان میں کتنی آبادی بڑھی ہے؟ موجودہ حکومت مردم شماری کے لئے تیار نظر نہیں آ رہی کیونکہ اس کے ارکان پارلیمنٹ پرانی حلقہ بندیوں کو بر قرار رکھ کر آئندہ انتخابات میں حصہ لینا اور جیتنا بھی چاہتے ہیں۔ اگر مردم شماری کا آغاز دسمبر کے آخر میں ہو جاتا ہے تو اس کو مکمل ہونے میں تقریباً تین چار ماہ لگیں گے؛ چنانچہ سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ بالکل صحیح ہے کہ موجودہ حکومت کی مردم شماری کرانے کی نیت ہی نہیں ہے۔ پالیسیاں ہوا میں من مانے طریقے سے بن رہی ہیں۔ مردم شماری نہ کرانے کی وجہ سے صوبوں کے درمیان تعلقات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے ہر صوبے میں گزشتہ 18سال کے دوران آبادی تیزی سے بڑھی ہے،کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی آبادی ڈھائی کروڑ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔ اگر مردم شماری آئین و قانون اور سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی روشنی میں رواں مہینے کے دوران ہی شروع کردی جاتی ہے تو ان اس سے ملک کی معیشت اور معاشرت پر اچھے اثرات مرتب ہوںگے۔ اس کے علاوہ آئندہ انتخابات میں نئے چہروں کی کھیپ اسمبلیوں میں بیٹھی نظر آئے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اقتدار پر قابض اشرافیہ اور ان کے حمایتی مردم شمار ی کرانے سے مسلسل اجتناب برت رہے ہیں تاکہ نئی انتخابی حلقہ بندیاں نہ ہوسکیں اور وہ پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر دھن، دھونس اور دھاندلی کے ذریعے انتخابات جیتے جا سکیں۔ سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ بھی بالکل بجا اور بر وقت ہے کہ مردم شماری کا براہ راست تعلق جمہوری نظام سے ہے، اگر جلد مردم شماری نہ ہوئی تو آئندہ انتخابات بھی مشکوک ہوں گے۔
مردم شماری کے سلسلے میں حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی مردم شماری میں دلچسپی نہیں لے رہی ہیں، بلکہ انہیں پاکستان میں مردم شماری نہ کرانا سوٹ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے حکومت پر مردم شماری کرانے کے سلسلے میں دبائو نہ ہونے کے برابر ہے۔ چنانچہ حکومت بھی مردم شماری کرانے سے لعیت ولعل سے کام لے رہی ہے۔ سپریم کورٹ کو حکومت ایسی رپورٹ پیش کرتی ہے جس کو پڑھ کر حکومت کی بد نیتی کا احساس ہوتا ہے، اس لئے سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔
مردم شماری کا براہ راست تعلق الیکشن کمیشن سے بھی ہے، اگر الیکشن کمیشن کے پاس ملک کی آباد کے بارے میں صحیح اعداد و شمار موجود نہیں ہوں گے تو پھر نئی حلقہ بندیوں کے سلسلے میں کمیشن اصلاحات کا عمل بھی جاری نہیں رکھ پائے گا۔ اب تک الیکشن کمیشن میں جو اصلاحات نہیںہو سکی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ مردم شماری کا نہ ہونا بھی ہے۔ دراصل پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام اپنی طاقت و توانائی کھو چکا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ حکومت کرنے والوں کی بدنیتی کے علاوہ مالی کرپشن اور انتخابی کرپشن ہے۔ جاگیردار اور سرمایہ دار کے مابین گٹھ جوڑ نے پورے معاشرے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ چالاک اور عیار بیوروکریسی نے بھی اس فرسودہ نظام کی استحصالی قوتوںکا ساتھ دے کر عوام کو ان کے بنیادی معاشی ومعاشرتی حقوق سے عرصہ دراز سے محروم کررکھا ہے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ پاکستان اس خطے میں واقع دیگر ممالک کے مقابلے میںاقتصادی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ جب تک صادق اور امین قسم کے لوگ اقتدار میں نہیں آئیں گے، موجودہ صورت حال میں کسی قسم کی تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوسکے گی۔ عوام کا یونہی جذباتی، ذہنی ومعاشی استحصال ہوتا رہے گا۔ چالاک سیاست دان انہیں بے ہودہ نعروں کی دھند میں اندھا کرکے اپنا الو سیدھا کرتے رہیں گے۔ تبدیلی کی آرزو اور خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا اور خلق خدا کی اکثریت کسی مسیحا کی آمد کا انتظار کرتے کرتے اس دنیائے فانی سے کوچ کرجائے گی۔ سپریم کورٹ مردم شماری کے سلسلے میں نہ صرف سنجیدہ ہے، بلکہ اس نے اس ضمن میں ازخود نوٹس لیا ہے، اس لئے مردم شماری کرانا حکومت کے لئے ناگزیر ہوچکاہے۔ موجودہ حکومت اس اہم فریضہ سے کسی بھی طرح بچ نہیں سکتی اور اگر سپریم کورٹ کے واضح احکامات اور آئین کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مردم شماری نہ کرائی گی تو آئندہ انتخابات کا انعقاد بے معنی ہوجائے گا جبکہ الیکشن کمیشن میں اصلاحات سے متعلق تمام تجاویز کی بھی کوئی حیثیت نہیںہوگی۔ اس لئے حکومت کے علاوہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ مردم شماری کرانے کے سلسلے میں سپریم کورٹ کا ساتھ دے کر آئندہ انتخابات کو بامعنی بنانے کی کوشش کریں اور لنگڑی لولی جمہوریت کا سفر جاری رکھیں ورنہ انارکی اس ملک کو مزید ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کرے گی۔