پاکستانی قوم نے بڑی عقیدت واحترام سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا 140واں یوم پیدائش منایا۔ کراچی میں مزار قائد پر مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے حاضری دی اور سورہ فاتحہ پڑھ کر اللہ سے ان کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کی۔ مزار قائد پر حاضری دینے والوں میں پی پی پی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ کراچی اور سندھ کے شہریوں کی بڑی تعداد نے مزار قائد پر آکر ان سے اپنی محبت اور عقیدت کا والہانہ اظہار کیا۔ اسکول اور کالج کے بچوں، بچیوں کی بڑی تعداد نے مزار قائد پر آکر ان سے اپنی بے لوث محبت، خلوص اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ملک کو مضبوط اور خوشحال بنانے کا عزم ظاہر کیا۔ کراچی کے عوام نے بھی مزار قائد پر گارڈ کی تبدیلی کا خوبصورت منظر دیکھا۔ یقیناً قائد اعظم کی روح پاکستان کے عوام کی جانب سے ان کے لئے بے پناہ محبت اور عقیدت کے اظہار سے ضرور خوش ہوئی ہوگی۔ قائد اعظم مسلم دنیا کے واحد سیاسی رہنما تھے، جنہوںنے تین بڑی طاقتوں کا بڑی جوانمردی ، ہمت اور استقلال کے ساتھ مقابلہ کیا، ان میں ہندو کانگریس، کانگریس میں شامل مسلمان علماء اور برطانیہ کی حکومت شامل تھیں۔ اُس وقت کی ان تینوں طاقتوں کا باہم اشتراک، قیام پاکستان کی تحریک اور مسلمانوں کے جذبۂ آزادی کو شکست نہ دے سکا اور نہ ہی قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے خوف کی بنیاد پر ان طاقتوں سے متاثر ہوکر مفاہمت یا مصالحت کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ خود کانگریسی رہنا مثلاً سردار پٹیل اور پنڈت نہرو نے 1946ء میں برملا یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ پاکستان کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد تحریک پاکستان اور قائد اعظم کے خلاف تھے۔ غالباً جیتنی مخالفت، مولانا ابوالکلام آزاد نے قیام پاکستان اور قائد اعظم کی کی اتنی مخالفت تو مہا سبھا اور آر ایس ایس نے بھی نہیں کی تھی۔
مولانا کا خیال تھا کہ ہندوستان میں صرف ایک قوم بستی ہے یعنی صرف ہندو جن کی نمائندہ جماعت کانگریس ہے، جبکہ قائد اعظم کا خیال مختلف تھا کہ بر صغیر میں دو قومیں بستی ہیں یعنی ہندو اور مسلمان، اسی بنیاد پر قائد اعظم نے تحریک پاکستان کا اور ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کا آغاز کیا؛ تاہم مولانا ابوالکلام آزاد کو اس وقت سخت دھچکہ لگا جب کانگریس کے صف اوّل کے رہنما سردار پٹیل (جو گاندھی کے سب سے زیادہ قریب تھے) نے اپنے ایک بیان میں اور بعد میں مولانا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا:There are two nations in India, Muslim & Hindu, they could not be united as one nation (India wins freedom, page 201) سردار پٹیل نے مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا سے کہا: If two brothers cannot stay together they decide to separate (page 201)
مولانا اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں: I was surprised that Patel was now even greater supporter of the two nation theory than Jinnah, Jinnah may have raised the flag of two nation and partition of India but now the real flag bearer of two nation was Patel, مولانا آزاد مزید افسردگی، تاصف اور برہمی کے انداز میںگاندھی جی پر تنقیدکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گاندھی جی نے سے متعدد بار ملاقات کی تھی کہ بھارت تقسیم نہیں ہو سکتا اور اگر ایسا ہو گیا تو وہ میری موت کی صورت میں ہوگا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد جب انہوںنے لارڈ مائونٹ بیٹن سے ملاقات کے بعد مولانا سے کہا کہ Partition of India is Inevitable تو مولانا نے کہاکہ مجھے نہیں معلوم کہ گاندھی جی نے یہ قلا بازی کیوں کھائی؟ گاندھی جی نے لارڈ مائونٹ بیٹن سے اپنی تین ملاقاتوں میں کیا راز ونیازکی باتیں کیں، اس کے بارے میں مولانا کو کچھ پتا نہیں، لیکن انہیں گاندھی جی کے اس رویے پر سخت افسوس اور غصہ تھا۔ انہیں پنڈت نہرو کے رویے پر بھی بہت تعجب تھا، جو گاندھی جی اور سردار پٹیل کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے؛ حالانکہ پنڈت نہرو بھی دوقومی نظریے کے خلاف تھے، لیکن بعد میں انہوں نے اپنا سیاسی موقف بدل کر جناح صاحب کے خیالات سے اتفاق کرلیا تھا۔ مولانا مزید لکھتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب محمد علی جناح نے کیبنٹ مشن پلان سے اتفاق کرلیا تھا اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم ہند کے مطالبے سے دستبردار ہوتے نظر آرہے تھے۔ میں بھی کیبنٹ مشن پلان کی حمایت کر رہا تھا، ابتدا میں کانگریس نے بھی اس پلان کی حمایت کی تھی لیکن پنڈت نہرو نے بعد میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کو ناقابل عمل قرار دیا تھا؛ چنانچہ مسلم لیگ نے بھی بعد میں اس کو مسترد کردیا۔ اس طرح تقسیم ہند کی راہ ہموار ہوگئی۔
در اصل قائد اعظم محمد علی نے ہر قدم پر کانگریس کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اختیار کی تھی، وہ تیرہ سال تک کانگریس کے پلیٹ فارم سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی علامت کے طور پرکام کرتے رہے تھے، لیکن انتہا پسند ہندئوں نے ان کی کاوشوں کو ناکام اور بے ثمر بنا دیا تھا، یہاںتک کہ سردار پٹیل، نہرو اور گاندھی جی نے باہم مل کر دو قومی نظریے کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان کے قیام کو ناگزیر قرار دے دیا تھا۔ دراصل مولانا ابوالکلام آزاد تاریخ کے ایک مقام پر خود برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں کے رہنما بننا چاہتے تھے، لیکن انہیں اس میں کامیابی نہیںہوئی؛ تاہم ان کی کتاب میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ پاکستان کچھ عرصے کے بعد ٹوٹ جائے گا، جیسا کہ بعد میں پروپیگنڈا کیاگیا تھا، بلکہ جب دہلی میںسکھوں اور ہندوئوں کی مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ کارروائیاں شروع ہوئیں تو مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کی طرف ہجرت کرنے لگی۔ اس موقع پر مولانا نے جامع مسجد دہلی میں نماز سے قبل اپنے ایک خطبہ میں یہ ضرور کہا تھا کہ اپنے آبائو اجداد کی قبروںکو چھوڑ کر کہاں جارہے ہو؟ مت جائو، وہاں کے کلچر میں تم ضم نہیں ہوسکو گے۔ لیکن ان کا یہ خطبہ دہلی میں نہ تو مسلمانوں کے قتل عام کو روک سکا اور نہ ہی مسلمانوں کی پاکستان کی طرف ہجرت کرنے سے! در اصل پاکستان کے قیام کے چند سال بعد مملکت خدا داد میں جو برائیاں اور بدعنوانیاں ابھریں ( جن میں لسانی اورصوبائی تعصب سب سے زیادہ نمایاں تھا) اس کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ ہم نے قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد سے انحراف کیا تو بھارت نے اس کا بھر پور فائد اٹھا کر ہمارے مشرقی حصے کو ہم سے علیحدہ کردیا۔ قائد اعظم نے ایک جری سپاہی اور مومن کی طرح قیام پاکستان کے لئے بے تیغ جد و جہد کی تھی اور خدا کی نصرت وحمایت سے 27 رمضان المبارک کو برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نیا ملک عطا ہو گیا، جس میں ہم آزاد ہیں جبکہ بھارت کے اندر رہنے والے مسلمان انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ قائد اعظم تیرا احسان ہے اور ان کا بھی جو پاکستان کی محبت میں اپنا سب کچھ لٹا کر راہ وفا میں شہید ہوگئے۔