سینیٹ کے چیئرمین جناب رضا ربانی نے موجودہ ''جمہوریت‘‘ اور انتخابات کے طریق کار پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں، اور اس غیر منصفانہ استحصالی نظام کو اکھاڑ پھینکیں، جس نے گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے، اس ''کار خیر‘‘ میں عیار اور چالاک سیاست دان ہی ذمہ دار نہیں ہیں، بلکہ نوکر شاہی اور اشرافیہ باہم مل کر معاشرے میں جبر و استحصال کو رائج کرکے مضبوطی سے اقتدار پر قابض ہیں۔ انہوںنے ان خیالات کا اظہار انتخابی اصلاحات سے متعلق ایک سیمینار میں کیا۔ ان کے خیالات حقائق کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ اس وقت تاجروں کا ایک طبقہ اپنی ناجائز دولت کے سہارے ''جمہوریت‘‘ کی راگنی الاپ کر حکومت کر رہا ہے، صرف اپنے لئے، اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے لئے۔ اس بے ہنگم اور بے ثمر ''جمہوریت‘‘ نے عوام میں شدید مایوسی کا احساس پیدا کیا ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں تبدیلی چاہتے ہیں، لیکن یہ مفلوک الحال لوگ کس طرح تبدیلی لا سکتے ہیں؟ ان کے سامنے کوئی رہنما نہیں ہے، بلکہ ہر رہنما نے انہیں دھوکہ دیا ہے، اور اب بھی دے رہے ہیں، کبھی جمہوریت کے نام پر اور کبھی مذہب کے نام پر، حالانکہ معاشرے کا باشعور طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت نہ تو جمہوریت اور نہ ہی قانون کی عمل داری ہے بلکہ ذاتی
مفادات اور ناجائز طریقے سے دولت حاصل کرنے کی ایک لمبی کہانی ہے، اور اس بہتی گنگا میں جسے موقع ملتا ہے ہاتھ دھو رہا ہے؛ چنانچہ جب عوام کے سامنے کوئی قابل اعتماد اور قابل بھروسہ رہنما نہیں ہے تو وہ کیوں سڑکوں پر آئیںگے، اور کس کے لئے قربانیاں دیں گے؟ ملک اور معاشرے میں حقیقی رہنما نہ ہونے کے سبب ایک سکوت اور مایوسی ہے جو کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس طوفان کو پیدا کرنے کے لئے کسی رہنما کی ضرورت ہوتی ہے، جو فی الوقت نہیں ہے۔ رہا سوال فوج کا، تو فوج اقتدار میں نہیں آئے گی کیونکہ حکومتوں کی ناقص اور بے سمت کارکردگی نے اداروں کو تباہ کر دیا ہے۔ اوپر سے کرپشن نے ملک کو مالی طور پر کھوکھلا کر دیا ہے۔ کرپشن کے سلسلے میں حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ ناجائز اور حرام کمائی ہوئی دولت کا کچھ حصہ نیب کے ''افسران‘‘ کو دے دیں تو آپ ''صاف شفاف‘‘ ہو جائیں گے، کوئی آپ کو جیل کی یاترا نہیں کرائے گا۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ کرپٹ شخص دوبارہ وہی دھندا کرے گا جس کی اس کو ایک طویل عرصہ سے عادت پڑ چکی ہے کہ ''چور چوری سے جاتا ہے پر ہیرا پھیری سے نہیں‘‘۔ اس ضمن میں حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کے تمام باشعور افراد پلی بارگینگ کے اس طریقہ کار پر سخت ناراض اور
دل گرفتہ ہیں لیکن کسی میں ان کے طریقہء کار کو بدلنے کی ہمت اور حوصلہ نہیں ہے، ڈرائنگ روم اور سیمیناروں میں اس موضوع پر باتیں کرکے دل کی بھڑاس نکالی جا رہی ہے لیکن اس افسوسناک طریقہ کار کو بدلنے کی کوئی تدبیر یا صورت نظر نہیں آرہی۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ آہستہ آہستہ اخلاقی ساکھ کھوتا جا رہا ہے۔
ایک اور افسوسناک صورتحال ملازمتوں سے متعلق ہے۔ ایک عام پڑھے لکھے شخص کے لئے نوکری حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سفارش کے ساتھ رشوت دینے کے لئے پیسہ بھی لازمی شرط ہے، اگر سفارش ہے لیکن پاس پیسہ نہیں ہے تو پھر نوکری کا حصول اور اس کی کوشش لاحاصل ہے؛ چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان کا نوجوان طبقہ بڑی تعداد میں ملک چھوڑ کر جا رہا ہے، اور ہمارا ملک بہترین دماغوں سے محروم ہو رہا ہے، لیکن حکومت کرنے والوں کو اس صورتحال پر نہ تو کسی قسم کی تشویش ہے اور نہ ہی فکرمندی! میرٹ کی بنیاد پر ملازمتوں کے حصول کو نہ تو آسان بنانا چاہتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں کوئی سو چ بھی نہیں ہے؛ چنانچہ غیر ہنر مند اور پڑھے لکھے دونوں میں بے روزگاری پھیل رہی ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان جرائم کو وقتی طور پر تو پولیس اور رینجرز کی طاقت سے روکا جا سکتا ہے، لیکن یہ مسئلے کا دیرپا حل نہیں ہے، حقیقی حل معاشی ترقی کے پس منظر میں انصاف اور میرٹ کی بنیاد پر ملازمتوں کا حصول ہے، جو اس وقت ناممکن نظر آ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کون پاکستان کی اس افسوسناک، اذیت ناک اور تباہ کن صورتحال کو بدلنے کی کوشش کرے گا؟ دولت اور طاقت اور خوف کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومتوں سے خیر یا اچھائی کی توقع عبث ہے بلکہ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عیار سیاست دان، اشرافیہ اور نوکر شاہی اس نظام کو بدلنا ہی نہیں چاہتے، بلکہ اسے قائم رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ نہ تو معاشرے میں تبدیلی کے آثار پیدا ہو سکیں، اور نہ ہی عوام کو انصاف، قانون اور آئین کی روشنی میں ان کے حقوق مل سکیں۔ مزید برآں عیار سیاست دانوں‘ جن میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے بھی شامل ہیں، نے معاشرے کو سیاسی، مسلکی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔ اس افسوسناک تقسیم کو ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت کیا گیا ہے، بلکہ کیا جا رہا ہے تاکہ عوام متحد نہ ہو سکیں، بلکہ ٹکڑوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہیں اور اجتماعی طاقت حاصل نہ کر سکیں، تاکہ موجودہ فرسودہ استحصالی اور جابرانہ نظام جاری و ساری رہ سکے۔
رہا سوال الیکشن کمیشن میں اصلاحات کا تو اس سلسلے میں قائم ہونے والی کمیٹی نے اسحاق ڈار کی سربراہی میں کئی اجلاس کئے‘ لیکن بے سود، ان اجلاس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا اور نہ نکلے گا، کیونکہ موجودہ حکومت اور اس کی بی ٹیم پی پی پی کو موجودہ انتخابی سسٹم سوٹ کرتا ہے، وہ اسی کے ذریعہ اقتدار میں آئے ہیں اور جمہوریت کے نام پر عوام کو دھوکہ دیتے اور لوٹ مار کے ذریعہ اپنی دولت میں اضافہ کرتے ہیں اور ملک کا قرضہ، قرضہ لے کر اتارتے ہیں۔ بھلا ان حالات میں تبدیلی کیسے آ سکتی ہے، مفلوک الحال عوام ان حالات کے سامنے مجبور ہیں وہ کچھ کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے، کیونکہ ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ مایوسی، مجبوری اور محرومی نے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، لیکن کب تک؟ آخر قدرت کا بھی ایک نظام ہے اگر وہ چل گیا جس کی جلد امید نظر آرہی ہے، تو پھر اشرافیہ، نوکر شاہی اور حکومت کرنے والوں کو بھاگنے کا موقعہ بھی نہیں ملے گا۔