جن افرادنے بڑی محنت اور ریاضت سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں میرٹ کی بنیاد پر نوکریاں حاصل کی تھیں، موجودہ حالات کے پیش نظر وہ اپنی ملازمتوں سے بیزار نظر آ رہے ہیں۔ اگر ان کے مالی معاملات اچھے ہوتے تو وہ فوراً نوکری چھوڑکرکوئی اور ذریعہ معاش تلاش کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے۔ ادھیڑ عمر میں نجی شعبے میں نوکری کا حصول ناممکن ہے۔ باضمیر افراد میں یہ بیزاری سرکاری محکموں میں کرپشن اور بد دیانتی کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے، جس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ کھلے بندوں کرپٹ عناصر کی مدد کی جاری ہے تاکہ اس لوٹ میں انہیں بھی کچھ حصہ مل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ترقی کی رفتار انتہائی سست ہے، بلکہ بعض شعبے ترقی معکوس کی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت کے بالائی اداروں میں کرپٹ عناصر حکمرانوں کی حمایت سے برا جمان ہیں اور کرپشن پھیلا رہے ہیں۔ بڑے بڑے پروجیکٹس میں وزیر اعظم سمیت نوکر شاہی اور ان کے ذیلی افسران مبینہ طور پر بدعنوانیوں کے ذریعے راتوں رات ارب پتی بن رہے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ سمیت تمام متعلقہ ادارے ان معاملات سے اچھی طرح واقف ہیں، لیکن وہ بعض وجوہ کی بنا پر بدعنوانی کا سد باب نہیں کر پاتے۔
ہر سطح پر ہونے والی کرپشن کی وجہ سے مملکت کا نظم ونسق غیر ذمہ دار عناصر کے ہاتھوں میں آ چکا ہے۔ حیرت ہے کہ حکمران خاندان کی مبینہ کرپشن کی حمایت میں حکومت کے تمام ارکان ان کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس خاندان کی ''نیک نامی‘‘ کو بچانے کے لئے سر دھڑکی بازی لگا نے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، بلکہ ''جنگ‘‘کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ ہمارے ملک کا المیہ اور افسوسناک منظر ہے۔ ہر حساس فرد اس صورت حال پر نہ صرف دل گرفتہ ہے بلکہ خون کے آنسو رو رہا ہے۔ وہ صمیم قلب سے اس صورت حال کو بدلنا چاہتے ہیں، لیکن مجبور ہیں۔ طاقتور اشرافیہ کے بدنام زمانہ عناصر ایسے افرادکو ''سبق سکھانے‘‘ کے لئے ہر وقت تیار نظر آتے ہیں۔ اس کیفیت سے راہ نجات کیسے ممکن ہے؟ کیا مملکت کا کاروبار اسی ڈھپ اور ڈھنگ سے چلتا رہے گا؟ کیا کرپشن کے خلاف خلق خدا کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی رہے گی؟ مجھے تو کچھ ایسا ہی نظر آرہا ہے، کرپشن اور بغیر محنت کے حاصل ہونے والے پیسے سے کچھ افراد کچھ دنوں کے لئے تو فیض یاب ہوسکتے ہیں لیکن بعد میں یہی ناجائز اور حرام کی دولت ان کے لئے سوہان روح بن سکتی ہے، جیسا کہ ماضی میں ایسے عناصر کے خلاف قدرت کی بے آواز لاٹھی کے ہاتھوں ہوا ہے۔ کرپشن کی وجہ سے سیاست بدنام ہوئی اور سیاست دانوں کی عوام کی نگاہوں میں عزت بری طرح مجروح ہوئی۔ تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ عوام ان عناصر کو ووٹ کیوں دیتے ہیں؟ ایک بریانی کی مفت پلیٹ اور تین سو روپے یا پھر اس سے بھی کم کے عوض۔ برادری اور لسانی سوچ بھی سامنے آ جاتی ہے اور کچھ محلے داری، رشتہ داری اور باہمی تعلقات۔ یہ تمام عوامل مل کر سیاسی رہنمائوں کو اقتدار کی مسند تک لے جاتے ہیں۔ بعد میں انتخابات میں لگایا جانے والا سرمایہ اقتدار میں آنے کے بعد کرپشن کے ذریعے نہ صرف پورا کرلیا جاتا ہے بلکہ کچھ اتنا زیادہ پورا ہوجاتا ہے کہ بیرون ملک آف شورکمپنیوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ ہے ہمارے ملک کی معاشی دہشت گردی کا پس منظر اور پیش منظر جو ملک کی مجموعی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی راہ میں سنگ گراں بن چکا ہے۔
اشرافیہ میںشرم نہ ہونے کے ساتھ ساتھ، حیرت کی بات یہ ہے کہ طاقتور عناصر کرپشن کو قانونی جواز فراہم کرکے کرپٹ عناصر کو بچانے کی راہ فراہم کرتے ہیں۔ شاید ہی کسی ملک میں لوٹ کھوسٹ کا اس قدر مکروہ منظر دیکھنے میں آتا ہو جیسا مملکت خدا داد میں روز روشن کی طرح نظر آ رہا ہے۔
پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے جس کا میں نے بالائی سطور میں تذکرہ کیا ہے، یعنی اس تباہ کن صورت حال سے نجات کیسے ممکن ہے؟ کون مرد آہن یا مسیحا کرپشن کی ان اندھیری راتوںکو دن کے اجالوں میں تبدیل کرسکتا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جو ایک عام آدمی پوچھتا رہتا ہے، ہر چند کہ اس کا جواب موجود ہے اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھکنے کا طریقہ کار بھی آئین اور قانون میں موجود ہے، لیکن اس پر عملدرآمد کون کرائے گا۔ جب رہبر ہی ڈکیتی میںملوث ہو، ہر رہ گزر پر اس کے سفاک اور بے رحم کارندے کھڑے ہوں، تو قانون اور آئین کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟ یہی وہ اسباب ہیں جن کے باعث پاکستان میں تبدیلی کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت روکا جا رہا ہے۔ ایک ناقص، فرسودہ، بے ثمر، بے جان نظام کو بچانے کے لئے حکومت کے علاوہ پارلیمنٹ اور سینیٹ کی اکثریت اس میں شامل ہے، بالفا ظ دیگر یہی مفاہمت ہے۔ اخبارات میں حکومت کی ناقص کارکردگی اور کرپشن سے متعلق مذمتی بیانات داغ کر یا ٹی وی پر ہلکے پھلکے اندازمیں تنقید کرکے عوام کو دھوکہ تو دیا جاسکتا ہے لیکن حقائق اپنی جگہ موجود رہتے ہیں، جو حساس ذہنوں میں اذیت کا باعث بن کر حیات کے تقاضوں کو روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ دوسری طرف شعوری طور پر کرپشن کرکے مفاہمت کے ذریعے یہ ''بازی گر‘‘ چولا بدل کر دوبارہ میدان سیاست میں نمودارہوجاتے ہیں تاکہ مملکت میں تھوڑی بہت جو معاشی توانائی باقی رہ گئی ہے اس کو بھی ہڑپ کرکے سونامی آنے سے پہلے ملک سے فرار ہوجائیں۔
کسی نے صحیح کہا ہے کہ ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستان کیا ہوگا؟ انجام نظر آ رہا ہے اور محسوس بھی ہو رہا ہے۔ یہی حالات حساس افراد کو دیمک کی طرح کھائے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف لیٹرے اور ڈاکو مملکت کو چیر پھاڑ کرکے اپنا اپنا حصہ طلب کر رہے ہیں جبکہ عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔