آزاد کشمیر کے صدر جناب مسعود خان تین دن کے دورے پرکراچی آئے تھے، کراچی میں قیام کے دوران انہوں نے پاکستان نیوی کے تحت ہونے والے سیمینارMaritime Security میں شرکت کی اور بحرب عرب اور بحر ہند میںسکیورٹی سے متعلق چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے استدعا کی کہ پاکستان نیوی کے بجٹ میںاضافہ کرنا چاہئے تاکہ اس خطے میں پیش آنے والے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے، او ر اپنی استعداد میں بھی اضافہ کرسکے۔ انہوںنے اس امر پر اپنی گہری مسرت کا اعلان کیا کہ پاکستان نیوی بتدریج اس خطے کی اہم ترین نیوی بنتی جارہی ہے، 36ممالک کی نیوز کی بحرعرب میںموجودگی اور جنگی مشقوں میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی نیوی تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا نہ صرف گہرا ادراک رکھتی ہے بلکہ دیگر ممالک کی نیوز کے ساتھ مل کر بحیرہ عرب اور بحر ہند میں اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہتی ہے۔ آزاد کشمیر کے صدر نے اس خیال کی سختی سے نفی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تنہا ہوتا جارہاہے، اس کے برعکس پاکستان پرانے دوستوں کے علاوہ نئے دوست بھی بنا رہاہے، جس میں روس بھی شامل ہے، اگر پاکستان تنہا ہوتا تو اتنی بڑی تعداد میں غیر ممالک کی نیویز یہاں جنگی مشقوں میں حصہ نہ لے رہی ہوتیں۔ سی پیک کا ذکر کرتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ یہ حقیقی معنوں میں پاکستان کے لئے گیم چینجر ہے جس کے معاشی وسماجی اثرات اس خطے کے دیگر ممالک پر بھی پڑیں گے، ان کی تقریر کو غیر ملکی مندوبین نے بہت سراہا ۔
دوسرے دن مسعود خان نے آرٹس کونسل کے زیر اہتمام مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق ایک سیمینار میں شرکت کرتے ہوئے صدارتی خطبے میں کہا کہ 1947ء سے لے کر اب تک آٹھ لاکھ کشمیریوں نے اپنی آزادی کی خاطر اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیس کیاہے اور اب بھی بھارت کی سات لاکھ سے زیادہ قابض فوج کا بڑی دلیری سے مقابلہ کررہے ہیں، انہوںنے کہا کہ یہ تاثر انتہائی لغو اور بے بنیاد ہے کہ کشمیر کا مسئلہ سکیورٹی کونسل کی لسٹ سے ہٹادیا گیا ہے، انہوںنے کہا یہ مسئلہ ہنوز موجود ہے اور آئندہ بھی رہے گا، جب تک کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتاہے، آزاد کشمیر کے صدر نے بڑی وضاحت سے کہا کہ کشمیر کے مسئلہ کے تین فریق ہیں، پہلا بھارت ، دوسرا پاکستان اور تیسرا مقبوضہ کشمیر کے عوام جو بھارت کے ظلم اور بربریت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اپنے حقوق کے لئے مثالی جدوجہد کررہے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت نے مقبوضہ کشمیر میںآزادی کی نئی لہر پیدا کی ہے، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مستحکم ہورہی ہے، اور دنیا کی توجہ اپنی طرف مرکوز کررہی ہے، یورپی یونین کے علاوہ بعض ایشیائی ممالک بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم کی مذمت کررہے ہیں، اور ان کے حق خودارادیت کی حمایت بھی کررہے ہیں، یہ ایک بڑی تبدیلی ہے، اس کے علاوہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک نے بھارتی فوج کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر پیلٹ گن کے استعمال کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اس سلسلے میں غیر جانبدار تحقیقات کا بھی مطالبہ کیاہے، نہتے انسانوں پر پیلٹ گن کا استعمال اقوام متحدہ کی رو سے قابل مذمت ہے، بلکہ اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، اب تک پیلٹ گن کے استعمال کی وجہ سے ایک ہزار سے زائد نوجوان، بچے ، بزرگ اور خواتین اپنی بینائی کھو چکے ہیں، یہ انتہائی انسانیت سوز المیہ ہے اور بھارت کے چہرے پر سیاہ داغ بھی۔
چند ماہ قبل مقبوضہ کشمیر میں ا نسانی حقوق کی مقامی تنظیم انٹر نیشنل فورم فار جسٹس وہیومن رائٹس نے پیلٹ گن سے متاثر ہونے والے افراد کے بارے میں رونگٹے کھڑے کردینے والی رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق وادی کشمیر میں پیلٹ گن کی وجہ سے 2008ء سے گزشتہ برس31مارچ تک 569افراد زندگی بھر کیلئے معذور ہوگئے ۔رپورٹ میں کہا گیا کہ متاثرین میں73افراد آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئے جبکہ 174افراد کے بازو ناکارہ اور100افرادکی ٹانگیں بے کارہوگئی ہیں جبکہ222افراد جسم کے دیگر اعضاء سے محروم ہوگئے ہیں،ضلع سرینگر میں مجموعی طورپر 109افراد پیلٹ گن کی فائرنگ سے متاثر ہوئے جن میں23افراد آنکھوں کی بینائی، 37بازوئوں ،13ٹانگوں اور31جسم کے دیگر اعضاء سے محروم ہوگئے ،گاندربل میں مجموعی طور27نوجوان ،بانڈی پورہ میں 29، بارہمولہ میں 84افراد، کپواڑہ میں 18،پلوامہ میں67 ،شوپیان میں49، کولگام میں 48اورضلع اسلام آباد میں مجموعی طور پر95افراد پیلٹ گن سے متاثر ہوئے۔ اب بھی اس کابے تحاشا استعمال جاری ہے ،متاثرین کو30سے 35ہزار روپے امداد دی جاتی ہے اور یوں قابض حکمرانوں نے انسانی جسم کے اعضاء کی قیمت مقرر کرکے بھارتی پولیس کو کشمیری نوجوانوں کو جسمانی طور معذوربنانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔
آزاد کشمیر کے صدر مسعودخان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بیدار ہورہی ہیں اور کھل کر بھارت کے ظلم وبربریت کی مذمت کررہی ہیں۔پاکستان روز اول ہی سے کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے، اور ہر سطح پر ان کی مدد کرتا رہے گا، اور ان کے حق خودارادیت کے لئے آواز بلند کرتا رہے گا، انہوں نے کراچی میں مقیم کشمیریوں کو نصیحت کی کہ وہ ہر اہم موقع پر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی فوج کی جانب سے ہونے والے ظلم کو بے نقاب کرتے رہیں تاکہ دنیا کو یہ احساس ہوسکے کہ ظلم وبربریت کے ذریعہ کشمیریوں کے جذبہ آزادی اور حریت کو دبایا نہیں جاسکتا ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے بھارت پر زور دے رہا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر بامعنی بات چیت کاآغاز کرے، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں ڈیڈلاک موجود ہے، خصوصیت ساتھ جب سے موجودہ وزیراعظم نریندرمودی اقتدار میں آیا ہے اس نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند کردیے ہیں یہاں تک کہ اس نے اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس
کو بھی سبوتاژ کیاہے جس کی وجہ سے سارک ممالک کے مابین تعلقات کودھچکا لگاہے؛ تاہم بھارت کو ان ہتھکنڈوں سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، اور نہ ہی اس طرح اس خطے میں امن قائم ہوسکتاہے، آزاد کشمیر کے صدر کی کراچی میں آمد اور ان کی مختلف شعبوں کے با اثر اور ذمہ دار افراد سے ملاقاتوں کی وجہ سے کراچی میں رہنے والے کشمیریوں کو بڑی تقویت ملی ہے، نیز مقبوضہ کشمیر سے متعلق ان کے خیالات سے جہاں حقائق سے آگہی ہوئی ہے وہیں کشمیریوں کے مابین اتحاد واخوت کا مضبوط رشتہ بھی قائم ہوا ہے، مسعود خان نے کراچی کے سرمایہ کاروں سے استدعا کی کہ وہ آزاد کشمیر میں سرمایہ کاری کریں جہاں انہیں ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔انہوںنے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیاکہ کراچی کے بہت سے سرمایہ داروں نے آزاد کشمیر میں سرمایہ کاری کا وعدہ کیاہے، اس موقع پر ایک معروف صنعت کار جناب سردار اشرف نے اپنی تقریر میں کہاکہ کشمیر کبھی بھی غلام نہیںرہاہے، ان کی ماضی کی اور موجودہ جدوجہد اس بات کی غماز ہے کہ وہ بھارت کے تمام تر ظلم وجور کے باوجود آزاد رہنا چاہتے ہیں، سردار اشرف نے کہا کہ سی پیک کا منصوبہ مسعود خان کی ذہنی اختراع ہے، جب وہ بیجنگ میں پاکستان کے سفیر تھے، ان ہی کی وجہ سے چینی قیادت نے اس اہم منصوبے پر پیش رفت کرتے ہوئے اس اقتصادی منصوبے کو پاکستان ، چین دوستی کا فلیگ شپ بنا دیاہے۔
پوری دنیا کو کشمیر میں بھارتی مظالم نظر آ رہے ہیں اور اگر نہیں دکھائی دے رہے تو اقوام متحدہ کو جو اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ بھارت عشروں سے کشمیر میں جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیر کو بھارتی چنگل سے آزاد کرانے کے لئے ہر ممکن توانائیاں استعمال کی جائیں۔