ابھی سی پیک پوری طرح فعال نہیںہوا کہ ملک کے اندر بعض نا فہم او ر منفی سوچ کے حامل عناصر اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور کچھ اس قسم کا تاثر دے رہے ہیںکہ خدانخواستہ اس عظیم اقتصادی منصوبے سے پاکستان کو کم اور چین کو زیادہ فائدہ پہنچ رہاہے۔ اس قسم کی بے بنیاد اور لغوباتوں اور بیانات کا مقصد ماسوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں ابہام پیدا کرکے پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کو نقصان پہنچایا جائے، اس ضمن میں بھارت کا کردار سب پر واضح ہے، اس نے ایک کثیر رقم سی پیک منصوبے کو پاکستانی قوم کے ذہنوں میں متنازعہ بنانے کے لئے اپنے ایجنٹوں میں تقسیم کی ہے، جس میں بعض سیاست دان بھی شامل ہیں ، چنانچہ یہی عناصر وقتاً فوقتاً اس کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں، تاکہ کسی طرح یہ مکمل نہ ہونے پائے، حالانکہ یہ نادان اور گمراہ عناصر کو یہ ادراک نہیں ہے کہ یہ منصوبہ چین نے شروع کیاہے، سارا غیر ملکی زرمبادلہ بھی چین ادا کررہاہے، (کم از کم55بلین ڈالر) جبکہ زرمبادلہ کی صورت میں پاکستان کو کچھ بھی ادا نہیں کرنا پڑرہاہے، یقینا اس منصوبے سے چین کو بھی فائدہ پہنچے گا، اور چین کے مغربی صوبے سنگیانگ کو غیر معمولی ترقی کے امکانات پیدا ہوسکیں گے، چین بھی یہی چاہتا ہے، کہ اس کا مغربی صوبہ جو ترقی کے میدان میں پیچھے رہ گیاہے، اس صوبے کے بعض حصوں میں دہشت گردی بھی دیکھنے میں آئی تھی، لیکن اقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد ایسا نہیں ہوسکے گااور یہ صوبہ ترقی کے منازل طے کرسکے گا۔
پاکستان بھی سی پیک سے مستفید ہو رہا ہے، بلکہ اس کی کمزوروناتواںمعیشت کو اس منصوبے سے گہری تقویت مل رہی ہے، چین کی قیادت خود بھی چاہتی ہے کہ پاکستان کو اقتصادی طورپر مضبوط ہونا چاہئے تاکہ پاکستانی عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں مل سکیں، اس عظیم اقتصادی منصوبے کا محور اور مرکز بلوچستان ہے یہاں ماضی کی حکومتوں نے اس کی مجموعی ترقی کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے تھے، جس کی وجہ سے اس صوبے میں پسماندگی اور محرومی جگہ جگہ نظر آرہی ہے۔ نیز اس صوبے میں اکثر وبیشتر غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت نے بھی یہاں ترقی کے امکانات کو کاری ضرب لگائی ہے، جس میں بھارت کے علاوہ ہمارے کچھ پڑوسی ممالک بھی شامل رہے ہیں جن کو پاک چین اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ قابل قبول نہیںہے۔بعض نادان لوگوں کو پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کا عملی درس ان ہی قوتوں نے دیا ہے، تاکہ ان کو استعمال کرکے اپنے نا پاک مقاصد پورے کئے جاسکیں، لیکن اب صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، بلوچستان کے عوام کو اب یہ احساس ہو چلا ہے کہ سب سے زیادہ فائدہ اس اقتصادی راہداری سے بلوچستان کے عوام کو ہی ملے گا، بلکہ اس کی ابتدا بھی ہوچکی ہے، دیگر صوبے مثلاً سندھ ، کے پی ، پنجاب بھی اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں، بلکہ حقیقی معنوں میں یہ منصوبہ سارے پاکستان کے لئے گیم چینجرز ثابت ہورہاہے، گلگت و بلتستان سمیت آزاد کشمیر بھی اس راہداری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے، دراصل ماضی میں کسی بھی ملک نے پاکستان کی ترقی کے لئے اتنا بڑا منصوبہ پیش نہیں کیاہے، جتنا چین نے کیاہے، چین ہی کی مالی مدد سے گوادر پورٹ تعمیر کیا گیا ہے جس کا کریڈٹ سابق صدرمشرف صاحب کو جاتاہے، اگر گوادر پورٹ تعمیر نہیں ہوتا تو یہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکتا تھا، لیکن اب گوادر پورٹ نہ صرف فعال ہوچکاہے بلکہ پہلا تجارتی جہاز یہاں سے سامان لے کر افریقہ
اور مشرق وسطیٰ کی طرف روانہ بھی ہوگیاہے، پاکستان کی بری فوج اور پاکستان نیوی چین کے ماہرین کی مدد سے اس پورٹ کو مزید ترقی دے رہے ہیں تاکہ پورٹ پر نئی برتھ کا اضافہ کیا جاسکے ، نیز دہشت گردوں کی مذموم کارروائیوں کو روکنے کی غرض سے ٹاسک 88بھی تشکیل دی گئی ہے، جو نوجوان کمانڈوز پر مشتمل ہے، جو پورٹ کی حفاظت کے لئے ہر وقت چوکس اور تیار رہتے ہیں، سی پیک کے خلاف بھارت کے علاوہ پاکستان کے اندر بھارتی ایجنٹوں کا یہ پروپیگنڈا ہے کہ گوادر پورٹ کے ذریعہ بحر عرب اور بحرہند میں چین کی نیوی کا عمل دخل بڑھ جائے گا، حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ بحرہند میں کسی ملک کی اجارہ داری نہیں ہے، یہاں کئی ملکوں کی نیویز جس میں پاکستان کی نیوی بھی شامل ہے ‘مسلسل گشت کرتی رہتی ہیں بلکہ پاکستان کی نیوی اپنے سمندری حدود میں رہتے ہوئے اپنے معاشی منصوبوں کو بھی مکمل کررہی ہے، چنانچہ بھارت سمیت کسی ملک کو چین کی گوادر پورٹ پر موجودگی پر نہ تو اعتراض ہونا چاہئے اور نہ ہی یہ سوچنا چاہئے کہ بحرہند میں چین کا کوئی جنگی کردار ہوسکتاہے، ویسے بھی چین کی کمیونسٹ پارٹی کی تمام تر توجہ اپنے ملک کو معاشی طورپر مضبوط بنانے پر مرتکز ہے تاکہ چینی عوام کو زیادہ سے زیادہ سماجی سہولتیں دستیاب ہوسکیں، ویسے بھی چین اپنے آپ کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے کا خواہش مند ہے، پاکستان بھی چین کی اس سوچ سے اتفاق کرتا ہے کہ جب تک کوئی ملک اقتصادی طورپرمستحکم یا طاقتورنہیں ہوگا، وہاں سماجی اور سیاسی افراتفری موجود رہے گی۔
سی پیک پر وسوسے پھیلانے کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان کو ترقی کی منازل طے کرنے سے روکا جا سکے۔ ایک عرصے بعد پاکستان میں ایک بڑے پیمانے کا منصوبہ شروع ہوا ہے جو خطے میں کئی ممالک کے لئے فائدہ مند ہو گا۔ پاکستان کو اس کے خاطر خواہ فوائد ہوں گے ۔ اقتصادی راہ داری سے پاکستان کی معیشت مستحکم ہو گی۔ پاک چین دوستی جو پہلے ہی شہد سے میٹھی اور سمندر سے گہری ہے اس کی دوستی کی بنیادیں مزید گہری اور مضبوط ہو جائیں گے۔ اس سے ظاہر ہے ان لوگوں کو ہی نقصان ہو گا جو اس ملک کے خلاف صف آرا رہتے ہیں۔ یہ لوگ یا تو نادان ہیں یا پھر جان بوجھ کر دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ حالانکہ اس ملک میں رہتے ہوئے انہیں اپنے وطن کے مفادات کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ آپ اس ملک کا کھائیں اور اس سے فوائد بھی حاصل کریں لیکن جب بات ملکی مفادات کی ہو تو آپ افواہیں پھیلا کر ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ اگر یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ اگر ہم اس ملک کو خود کمزور کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر اس میں ہمیں بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ ہم اس ملک کا کھاتے ہیں تو ہمیں اس کا وفادار بھی ہونا چاہیے۔ سی پیک پر اگر کسی کو خدشات ہیں تو اسے چاہیے کہ پہلے اس کا مکمل طور پر مطالعہ کرے اورا س کے بعد اس پر تنقید کرے۔ یہ منصوبہ پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کی علامت ہے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاکستان اور چین دونوں کے لئے بے حد سود مند ثابت ہورہاہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس منصوبے سے اس خطے کے دیگر ملکوں کو بھی بے پناہ فوائد حاصل ہوسکیںگے، اس لئے اس خطے کے تمام ملکوں کو اس منصوبے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہوکر اس کی مکمل اور بھر پور فعالیت کے لئے مدد کرنی چاہئے، نہ کہ اس کے خلاف مذموم منصوبے بناکر اس کو ناکام بنانے کی حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کی جائے۔ چین کی حکومت نے پاکستانی قوم پر پہلے ہی یہ واضح کردیا ہے کہ چین پاکستان کی اقتصادی مدد کرنا چاہتا ہے یہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ اس ہی کی جانب ایک اہم اور نا قابل واپسی قدم ہے، جس پر پاکستان کے عوام کوخوش ہونا چاہئے اور چین کا شکریہ ادا بھی کرنا چاہئے، جو عناصر بھارت کے اشارے پر اس منصوبے پر طرح طرح کے اعتراض کررہے ہیں وہ دراصل پاکستان کو اقتصادی طورپر مضبوط ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے اور خواہش مند ہیں کہ پاکستان کے عوام پسماندہ رہیں‘ وہ جدید ٹیکنالوجی حاصل نہ کرسکیںاور بھارت کے تسلط میں رہ کر اپنی آزادی کو دائو پر لگا دیں، ایسے تمام عناصر پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی اور بہبود کے دشمن ہیں، جو ایک دن شکست کھائیں گے، انشاء اللہ ۔