آخر کار امریکہ کو تسلیم کرنا ہی پڑا!

امریکہ کے سینٹرل کمانڈ (سینٹ کوم) کے سربراہ جنرل جوزف وٹیل نے کہا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس کا زور اس بات پر صرف ہورہاہے کہ کسی طرح پاکستان کو تنہا کردیا جائے، جو کہ ناممکن نظر آرہا ہے۔ جنرل جوزف یو ایس آرمڈ فورسز کمیٹی کے سامنے اپنا بیان دے رہے تھے۔ انہوںنے کہا کہ چونکہ اس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان موثر رابطہ نہیں ہے، بلکہ بھارت کی جانب سے رابطے بحال کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جارہی ہے، اس لئے ممکن ہے کہ آئندہ یہ دونوں ایٹمی طاقتیں جنگ کی صورت میںایک دوسرے کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال نہ کربیٹھیں۔
غالباً یہ پہلی مرتبہ کسی ذمہ دار امریکہ جنرل نے جنوبی ایشیا سے متعلق بھارت کے منفی کردار کو بے نقاب کیا ہے۔ نریندرمودی کے اقتدار میں آنے سے قبل بھارت اور پاکستان کے درمیان اتنی تلخی وکشیدگی نہ تھی جتنی آج ہے، بلکہ ایسا معلوم ہورہا ہے کہ نریندرمودی صرف ایک ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئے ہیں کہ کسی طرح پاکستان کو مزید نقصان پہنچایا جائے، چاہے اس کے لئے جنگ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ نریندرمودی کا پاکستان کے خلاف یہ ایجنڈا ان کی ہرتقریر میں سنائی دیتاہے۔ حا ل ہی میں مشرقی پنجاب اور یوپی میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں ان کی تقریر صرف اور صرف پاکستان پر مختلف الزامات لگانے پر مبنی تھی ، جس میں دہشت گردی کا الزام سر فہرست تھا۔ یہاں تک کہ موصوف نے مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کے حق میں نہتے اور مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد کو بھی دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے اس میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام عائد کر دیا‘ حالانکہ اب بھارت کی سول سوسائٹی کے علاوہ ساری دنیا اس حقیقت کو تسلیم کررہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام بھارتی حکومت اور بھارت کی قابض فوج کی جانب سے روارکھے گئے ظلم وبربریت کے خلاف اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ غیر مسلح جدوجہد کررہے ہیں۔ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا‘ بھارت اور پاکستان کے درمیان حقیقی امن کے قیام کی تمام امیدیں نقش برآب ثابت ہوں گی۔ مزید برآں بھارتی حکومت نے عدالت کے حکم پر سمجھوتہ ایکسپریس کے ایک مرکزی کردار سوامی آسم آنند کو رہا کردیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ سمجھوتہ ایکسپریس کا معاملہ سردخانے میںڈال دیا جائے گا۔ بھارت اس پر آئندہ بات کرنے پر تیار نہیںہوگا، حالانکہ یہ شخص سمجھوتہ ایکسپریس (جس میں 75پاکستانی شہید ہوئے تھے) 
میںہونے والی دہشت گردی کے علاوہ اپنے چند انتہا پسند بد نام تین ساتھیوں کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا کے عظیم صوفی بزرگ معین الدین چشتی کے مزار پر حملے کا بھی مرتکب ہوا تھا‘ جس میں کچھ زائرین شہید ہوئے تھے۔ ان کے خلاف اجمیر شریف میں مسلمانوں کے وقف کی جانب سے عدالت
میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں آنندکو رہاکردیا‘جبکہ اس کے باقی دو ساتھیوں کو معمولی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ ان ساری تبدیلیوں سے یہ ظاہر ہورہاہے کہ بھارت کے پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف آئندہ کیا عزائم ہوسکتے ہیں؟ دوسری طرف بھارت اندرونی طورپر خود بے پناہ معاشی وسماجی مسائل سے دوچار ہے۔ بھارتی عوام نریندرمودی کی انداز حکمرانی سے سخت نالاں اور ناراض ہیں۔ مشرقی پنجاب میں بی جے پی کو عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑاہے، اور وہاں دس سال حکومت کرنے کے باوجود اس کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی۔ عوام نے انتخابات میں اس کو ووٹ کے ذریعہ شکست سے دوچار کرکے اپنا غصہ نکال لیا ہے۔ اپنے نفس مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے ، اب یہ امریکہ بہادر کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں سیاسی حالات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے، جس میںکشمیر کا تنازعہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات میںبہتری پیدا ہونے کے امکانات زیادہ روشن نہیںہیں۔ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہے بلکہ پاکستان نے ہمیشہ سب سے پہلے بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کی، لیکن بھارت نے اس ضمن میں کسی قسم کی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا، الٹا پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر مذاکرات کی تجویز کو سرد خانے میں ڈالنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف نریندرمودی کا سارا زور اس بات پر مرتکز ہے کہ کسی طرح پاکستان کو عالمی سطح پر Isolateکردیا جائے، جس میں نہ تواس کو کامیابی حاصل ہوئی ہے اور نہ آئندہ ہوسکے گی۔ پاکستان پر الزامات عائد کرکے بھارت کا وزیراعظم اپنے ملک میںانتہا پسندی کو فروغ دے رہاہے۔ مسلمانوںکے علاوہ کرسچیئن اور چھوٹی ذات کے ہندوئوں (دلت) کے لئے عرصہ حیات تنگ کررہاہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت کی جانب سے کئے جانے والے یہ سارے نامناسب ،غیر انسانی اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ بھارت خود اپنے سماج کے اندر گڑبڑ پیدا کرنے کے علاوہ اس خطے میں قیام امن کا خواہاں بھی نہیں ہے۔ سارک تنظیم کو توڑنے اور اس کو غیر موثر بنانے سے متعلق بھارت کی کارستانی نا قابل تردید ثبوت فراہم کررہی ہے کہ بھارت اس خطے میں کشیدگی اور دشمنی کو بڑھا رہاہے، جو خود اس کے لئے آئندہ دنوں میں خاصی مشکلات وپریشانیوں کا باعث بن سکتی ہیں۔ امریکہ کو سنجیدگی سے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہئے، اور بھارت کو مذاکرات کی میز پرلانے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلے کو بھی پر امن طریقہ سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں