سازشی عناصر پھر سرگرم

عرصے بعد ایک بار پھرحسین حقانی خبروں کی ''زینت ‘‘اور'' رونق‘‘ بنے ہیں۔ اس سے قبل وہ میموگیٹ کی وجہ سے خاصے متنازع بن چکے تھے، بلکہ اس دوران انہیں خاصابرا بھلا بھی کہاگیا تھا، اس دوران ان پر ہونے والی تنقید اور تبصروں سے یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ پاکستان دشمن رویہ اور روش چھوڑ کر پاکستان کی طرف واپس آجائیں گے، جس نے انہیں ترقی دی اور ان کی شہرت اور حیثیت کو بام عروج تک پہنچایا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا اب انہوںنے پاکستان کی سیاست میں مزید ہلچل پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، انہوںنے اپنے نئے کالم میں سابق صدر جناب آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ امریکی بلیک واٹرز اور جاسوسوں کو جو ویزے دیئے گئے تھے وہ وزیراعظم کے ایما پر دئیے گئے تھے، جبکہ حسین حقانی نے صرف ان کے حکم کی تعمیل کی تھی، دوسری طرف سینیٹ میں وزیراعظم کے مشیر جناب سرتاج عزیز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سابق صدر کی ہدایت پر امریکی اہل کاروں کو ویزے جاری کئے گئے تھے اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے، تاہم پی پی کے رہنمائوں نے حسین حقانی کے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے بلکہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما جناب خورشید شاہ نے انہیں غدار قرار دیا اور کہا ہے کہ حسین حقانی کی باتوں پر توجہ نہیں دینی چاہئے تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر حسین حقانی کو ماضی کی گم شدہ داستان کو نئے انداز میں پیش کرنے کی کیا ضرورت پڑی تھی؟ جبکہ اس وقت کسی بھی لمحہ پاناماکیس کا فیصلہ آنے والا ہے، پوری قوم انتظار میں ہے، بعض سیاستدانوں کا یہ استدلال ہے کہ حسین حقانی نے کسی کے ''اکسانے‘‘پر اور پاناما کیس سے توجہ ہٹانے کے لئے اپنے کالم میں جناب آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی پر امریکیوں کو ویزے دینے سے متعلق اپنے کالم میں الزام عائد کیا ہے ، یقینا کسی حد تک تھوڑی بہت پاکستانی سیاست دانوں کی توجہ سے پانا ما کیس کے فیصلے سے متعلق ہٹ گئی ہے، لیکن کلی طورپر ایسا نہیں ہے ، ایک بات طے شدہ ہے کہ حسین حقانی اپنی دانشوری میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ انہیں پاکستان سے متعلق ہر چیز بری معلوم ہوتی ہے، دوسری طرف ان کا بس نہیں چلتا ہے کہ کسی طرح سیاسی وعسکری قیادت کے مابین ایسا تصادم کرادیا جائے جو بعد میںپاکستان کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکے، ان کی اس منفی سوچ نے انہیں '' گھر‘‘ سے بے گھر کردیاہے، اب انہیں امریکی اور بھارت بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں، خود پاکستان میں ذمہ دار امریکیوں کا کہنا ہے کہ اس وقت گزری ہوئی باتوں پر لکھنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ پاکستا نیوں کی اکثریت ماضی کی ان تلخ باتوں کو فراموش کرچکی ہے؟ اس وقت عسکری قیادت کی تمام تر توجہ دہشت گردی کے خلاف مرکوز ہے، نیز پاکستان حالات جنگ میں ہے۔
کراچی میں ان کے بعض ساتھیوں کا یہ خیال ہے کہ وہ غیر معمولی نرگسیت کا شکار ہیں، انہوں نے اب اپنے خلاف ٹی وی کے بعض تبصروں میں کھل کر کہا ہے کہ اگر تھوڑا سا اور بد نام ہوئے تو کیا فرق پڑتاہے، ان کے اس مائنڈ سیٹ کے بارے میں تو ماہر ڈاکٹر ہی کچھ تبصرہ کرسکتے ہیں، لیکن حقیقت یہ
ہے کہ وہ پاکستان کو ہر سطح پر بد نام کرنے میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ شاید اب واپسی ممکن نہ ہوسکے، نیز اب انہیں پاکستان سے وہ مراعات یا اعلیٰ عہدے بھی نہیں مل سکیں گے، جو ان کو ماضی میں مل چکے ہیں، دراصل آصف علی زرداری نے انہیں امریکہ میں پاکستان کا سفیر بناکر پہاڑ جیسی غلطی کا ارتکاب کیا تھا، لیکن آصف علی زرداری کی یہ مجبوری تھی یا پھر انہیں شاید کسی نے یہ گوش گزار کردیا تھا کہ حسین حقانی ہی ان کیلئے امریکہ میں ان کے لئے اور ان کی حکومت کے لئے لابی کے لئے موزوں ترین شخص ہیں، چنانچہ انہوں نے حسین حقانی کو امریکہ میں سفیر مقرر کردیا بلکہ ان کی وہاں سے ہر تجویز اور مشورے پر ہاں میںہاں ملانے کی کوشش کی تھی تاکہ وہ اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کرسکیں، لیکن اپنی مدد پوری کرنے کے بعد حسین حقانی آصف علی زرداری کی نگاہوں میں بے توقیر ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی پی پی نے ان کے ساتھ اپنے تمام تعلقات سے بھی لاتعلقی کا اعلان کیاہے، تاہم حسین حقانی نے اپنے کالم میں آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی پر امریکی جاسوسوں کوویزے دینے سے متعلق جو الزامات عائد کئے ہیں ، امید ہے مذکورہ کمیٹی اس کی جانچ پڑتال کرے گی، آصف علی زرداری سے متعلق ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ''مقاصد ‘‘کو حاصل کرنے کے لئے سب کچھ کرسکتے ہیں، امریکی جاسوسوں کو ویزے جاری کرنے سے متعلق مجھے یہ بھی معلوم ہواہے کہ ان امریکیوں کو ایک اور ذمہ داری ، یہ بھی سونپی گئی تھی کہ وہ یہ معلوم کریں کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار کس جگہ محفوظ مقامات پر رکھے گئے ہیں؟دراصل امریکی جاسوس پاکستان میں دو اہم کام کرنے میں مامور کئے گئے تھے، پہلا اسامہ بن لادن کا پتہ لگانا اور دوسرا پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا سراغ لگانا!
پاکستان اپنے قیام کے روز اول ہی سے سازشوں کا شکار رہاہے، اب ظاہر اور باطن میں ایسے عناصر پاکستان کے اندر اورباہر بدرجہ اتم موجود ہیں جو پاکستان کو مزید دولخت کرنے کی ناپاک قابل مذمت حرکتوں میںملوث ہیں، ان میںالطاف حسین اور حسین حقانی بھی شامل ہیں جو پاکستان کے خلاف سوچ کے حامل ہیں، اور باہر بیٹھ کر ایسے مضامین لکھ رہے اور بیانات دے رہے ہیں، جو پاکستانیوں میں ذہنی الجھنوں کے ساتھ ساتھ تشویش کا باعث بن رہے ہیں، کاش یہ دونوں اپنے اس تخلیقی ذہن کو پاکستان کے استحکام اور عوام کی خوشحالی کے لئے استعمال کرتے، لیکن ڈالر کی چمک نے ان سے جہاں حب الوطنی کے احساسات وجذبات خرید لئے ہیں وہیں وہ اب اپنے لئے بھی ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں، آیاوہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا پھر پاکستان کے خلاف کام کرنے والے گروہ کے ایک رکن؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں