پی پی پی، پنجاب اور الیکشن؟

مستند ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پی پی پی پارلیمنٹرین کے صدر جناب آصف علی زرداری نے اپنے مخلص دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد یہ ''خفیہ اعلان‘‘ کیا ہے کہ پی پی پی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو چیلنج نہیںکریگی، بلکہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف اخباری بیانات کے ذریعے اور کچھ جلسے کرکے اپنی موجودگی کااحساس ضرور دلاتی رہے گی، ویسے بھی پنجاب کی موجودہ صورتحال میں صرف دو جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف عوام میں کشش رکھتی ہیں، پی پی پی کا پنجاب سے اس لئے صفایا ہوا کہ پی پی پی کے جیالے آصف علی زرداری کی پانچ سالہ حکمرانی سے ناخوش تھے، پیپلز پارٹی کے اس پانچ سالہ دور میں ملک کی معیشت تقریباً تباہ ہوچکی تھی، (شرح نمو صرف 3فیصد تھی) جبکہ دیگر حکومتی ادارے بھی ناقص کارکردگی کی وجہ سے عوام کی نظروں میں بے توقیر ہوچکے تھے، اسکے برعکس مسلم لیگ(ن) نے یقینا کچھ اچھے کام کئے ہیں جسکی تعریف کرنی چاہئے، لیکن اس پارٹی پر بھی کرپشن کے بے تحاشا الزامات ہیں ، پاناما لیکس کی وجہ سے شریف خاندان نہ صرف ملکی سطح پر بدنام ہوا بلکہ عالمی سطح پر بھی! ان تمام الزامات کے باوجود مسلم لیگ (ن) سینٹرل پنجاب میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے، تحریک انصاف پنجاب کے علاوہ ملک کے دیگر صوبوں میں نوجوانوں اور خواتین کی مقبول ترین پارٹی بن کر ابھری ہے، عمران خان نے پاناما پیپرز کے پس منظر میں شریف خاندان کو جو چیلنج کیا ہے اس کی وجہ سے انہیں عوام میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے، چنانچہ اگر اس سال انتخابات ہوتے ہیں جیساکہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اقبال احسن نے اشارہ دیا ہے تو مسلم لیگ(ن)کو اس معرکہ میں سب سے بڑا چیلنج تحریک انصاف کی جانب سے پیش ہوگا، بلکہ ان دونوں کے مابین گھمسان کارن پڑے گا۔ 
اس پس منظر میں پی پی پی پنجاب میں کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے، جناب آصف علی زرداری پنجاب میں اپنی پارٹی کے ''گم‘‘ ہوجانے کی اصل وجوہات سے بخوبی واقف ہیں اور اس کا اپنے اندرونی حلقوں میں اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، اب وہ چاہتے ہیں کہ اندورن سندھ میں اپنا ووٹ بینک نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ ا اس کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کریں، وہ کراچی اور حیدرآباد میں بھی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی کچھ نشستیں جیتنے کے خواہش مند ہیں، اس لئے وہ کراچی میں سڑکوں کی تعمیر پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، ایم کیو ایم تین دھڑوں میں بٹ چکی ہے، ان کا وہ ووٹ بینک نہیں رہا ہے جو ماضی میں ہو تاتھا، تاہم شہری سندھ کے بعض مقامات میں متحدہ کا ووٹ بینک اب بھی موجود ہے، لیکن فعال نظر نہیں آرہاہے، ماضی میں متحدہ کے پلیٹ فارم سے شہری سندھ کے مہاجرین کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں، وہ اپنی جگہ نہایت ہی المناک داستانیں ہیں، اب شہری سندھ کے ذمہ دار اور باشعور عوام ان داستانوں کو دوہرانے کے لئے قطعی تیار نہیں ہیں، اس لئے ووٹوں کا تقسیم ہونا لازمی امر نظر آرہاہے۔
اس پس منظر میں پی پی پی کے علاوہ جماعت اسلامی بھی اپنی طرف ووٹ لینے کی کوشش کریگی ، ماضی بعید میںشہری سندھ کی نمائندگی جماعت اسلامی اور مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کی جماعتیں کیا کرتی تھیں، اسوقت جماعت اسلامی ایشوز کی سیاست کررہی ہے، کراچی الیکٹرک کے اندر موجود مافیا کی جانب سے Over Billingکی وجہ سے کراچی کے شہری سخت غصے میںہیں، اس سلسلے میں سب سے پہلے کامران خان نے اپنے پروگرام میں کے الیکٹرک کی جانب سے 62ارب روپے کی'' ڈکیتی‘‘ کا انکشاف کیا تھا جو حقائق پر مبنی ہے، کے الیکٹرک کی جانب سے اوربلنگ کی صورت میں لوٹ مار کو سی پی ایل سی کے سابق چیئر مین ناظم حاجی نے بھی بے نقاب کیا تھا، جماعت اسلامی کی جانب سے جمعہ کے روز کے الیکٹرک کے خلاف جماعت اسلامی کراچی کے امیر جناب نعیم الرحمن کی کوششوں سے جو مظاہرہ ہو ا تھا وہ عوام کے دلوں کی ترجمانی کررہا تھا، اس طرح آئندہ انتخابات میں شہری سندھ کا ووٹ تقسیم در تقسیم سے گزرے گا، کیونکہ ماضی میں مہاجرین کا بے پناہ استحصال ہوچکا ہے اور استحصال کرنے والے خود اپنے آپ کو مہاجرین کہتے ہیں جو بڑے ستم کی بات ہے۔ 
اس حالات میں پی پی پی اپنی بادشاہت اندورن سندھ تک قائم رکھنے کی بھر پور کوشش کرے گی ، یہ دوسری بات ہے کہ اس پارٹی نے اندورن سندھ کے غریب ، مفلوک الحال اور پسے ہوئے لوگوں کے لئے کچھ نہیں کیاہے، ذرائع نقل و حمل کے اعتبار سے بھی اندرون سندھ کی صورتحال تسلی بخش نہیںہے، بلکہ انتہائی خراب وخستہ ہے، لیکن یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑیگی کہ اندرون سندھ پی پی پی کو چیلنج کرنے والی کوئی سیاسی جماعت موجود نہیںہے، بلکہ سندھ اسمبلی میںبھی ان کی اکثریت ہے، اور بڑے اطمینان سے اپنے بل منظور کرالیتے ہیں، بلاول بھٹو اکثر اپنے بیانات میںیہ کہتے رہتے ہیں کہ وہ سندھ سمیت پاکستان سے غربت کا خاتمہ کردیں گے، لیکن شاید وہ ایسا نہ کرپائیں گے، کیونکہ اندرون سندھ میں زمینداروں کا راج ہے، جن کی اکثریت پی پی پی کی حمایت کررہی ہے، کچھ لوگ اندرون سندھ ضرور موجود ہیں جیسے ممتاز بھٹو اور ذوالفقار مرزا جو پی پی پی کی ناقص کارکردگی پراس سے نالاں رہتے ہیں، لیکن ان میں پی پی پی کو انتخابات میں ہرانے یا کمزورکرنے کی صلاحیت موجود نہیںہے، مزید براںاندرون سندھ پی پی پی پولیس کے ذریعے مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کی کارروائیاں کرتی رہتی ہے، دوسری طرف پی پی پی کے ترقی پسند افراد صرف اخباری بیانات تک محدود ہیں یا پھر ٹی وی کے ٹاک شوز میں بیٹھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکلتے رہتے ہیں، لیکن ان کا عوام پر کوئی خاص اثر نہیںہے، اورنہ ہی وہ پی پی پی کے ووٹ کو چیلنج کرسکتے ہیں اس لئے آصف علی زرداری کا یہ موقف حقائق پر مبنی ہے کہ پی پی پی کو اندرون سندھ اپنے ووٹ بینک کی طرف توجہ رکھنی چاہئے، تاکہ بادشاہت قائم رہے، باقی رہا پنجا ب تو یہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا درد سر ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں