پاکستان کی تاریخ کے انتہائی اہم انتخابات ہونے جارہے ہیں لیکن ملک میں وحشت و بربریت اور درندگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اقلیتوں، عام شہریوں، سول ملازموں اور دفاعی اداروں کے جوانوں کو مختلف انتہا پسند تنظیمیں نشانہ بنا رہی ہیں۔ اگرچہ اس بات کا شدید خدشہ موجود ہے کہ انتخابات کے نزدیک جن کا انعقاد مئی کے دوسرے ہفتے میںمتوقع ہے‘ سیاست دانوں کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے لیکن ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ دفاعی اداروں اور حکومت کی طرف سے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے کوئی تیاری کی جارہی ہو۔ ان نازک حالات میں، جب کہ قوم اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے جارہی ہے، معاشی بحران نے بھی عدم استحکام میں اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں، کراچی، کوئٹہ، لاہور اور پشاور وغیرہ میں روزانہ تقریباً دس سے بیس افراد قتل ہو رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک پر تشدد کے عفریت نے خون آشام پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ اگرکوئی خود کش حملہ آور خود کو معصوم شہریوں کے درمیان دھماکے سے اُڑا لے تو ہلاکتوںکی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔ اس مقصد کے لیے کار بم (عام طور پر ٹرک ) بھی استعمال کیے جاتے ہیں، اور ایسے برے دن اس ملک میں بہت نایاب نہیںہوتے۔ اگرچہ دہشت گرد عام شہریوں کو بلاامتیاز ہلاک کررہے ہیں لیکن ایک خاص مسلک کے لوگ ان کا خاص ہدف ہیں۔ یہ ہلاکتیں مسلکی اختلافات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔نو مارچ کو لاہور کی ایک عیسائی آباد ی پر جنونی ہجوم نے حملہ کرکے سینکڑوں گھروںکو نذ رِ آتش کر دیا۔ اس سے پہلے دس جنوری کو کوئٹہ میں دہشت گردی کی انتہائی گھنائونی کارروائی میں ایک سو پندرہ افراد کو خون میں نہلا دیا گیا۔۔۔ ان میں ترانوے افراد کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تھا۔ سولہ فروری کوایسی ہی ایک کارروائی میں ہزارہ برادری کے چوراسی افراد ہلاک اور دوسو کے قریب زخمی ہو گئے۔ اُنھوںنے احتجاج کے طور پر اپنے ہلاک شدگان کو دفن کرنے سے انکارکر دیا۔ ان حملوں کے باعث اہلِ تشیع کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد میں سے بہت سے پاکستان چھوڑ رہے ہیں۔ بہت سی اقلتیں، جیسا کہ ہندو،سکھ، عیسائی اور احمدی اپنے لیے معاشرے میں عدم برداشت کی فضا پاتے ہیں جبکہ حکومتیں ان کو تحفظ دینے میں ناکام رہتی ہیں۔ اس ماہ، تین مارچ کو کراچی کی ایک شیعہ آبادی، عباس ٹائون، میں دہشت گردی کی کارروائی میں ٹرک بم دھماکے میں پچاس افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس سال 2013ء کے پہلے دو ماہ میں شیعہ ہلاکتوںکی تعداد دوسو تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتوں کی ذمہ دار تنظیم لشکرِ جھنگوی ہے (اسے کالعدم تنظیم قرار دیا جاچکا ہے)۔ تاہم حکومت کا ردِ عمل انتہائی کمزور ہے۔ دہشت گرد اتنے طاقتور ہیں کہ حکومتیں اور دفاعی ادارے ان کے مقابلے میں بے بس ہیں۔ یہ صورتحال ملک کی سلامتی‘ امن اور یکجہتی کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔ عوامی اجتماعات ڈرائونا خواب بن چکے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آنے والے انتخابات انتہائی اہم ہیں کیونکہ ان میں پہلی مرتبہ عوام نے جمہوری حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد پر امن انتقال ِ اقتدار کی طرف جانا ہے۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے منتخب ہونے کے بعد ان انتہا پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کو اپنے ترجیحی ایجنڈے میں شامل نہیںکیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر، کراچی میںجو کہ معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے، فرقہ واریت کی بنیاد پر بے گناہوں کا خون بہایاجارہا ہے یہ بدقسمت شہر مختلف لسانی تنظیموں ، فرقوں اور زمین پر قبضہ کرنے اوربھتہ لینے والے مافیوں کا من پسند میدان ِ جنگ بن چکا ہے۔ کسی بھی دن، کسی بھی وقت ، اس شہر میں ہدفی قتل اور فائرنگ کے واقعات کی وجہ سے تمام کاروبار ِ زندگی معطل ہو جاتا ہے۔ تیرہ مارچ کو کراچی میں فلاحی کام کرنے والی پروین رحمان کو گولی مارکر ہلاک کر دیا گیا۔ ’’ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق 2012ء میں کراچی میں پر تشدد کارروائیوں میں دو ہزار 284 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ ملک صحافیوں کے لیے بھی خطرناک بن گیا ہے۔ اسی ماہ کے آغاز میں دوصحافی، 72 گھنٹوں کے اندر اندر ہلاک کر دیے گئے۔ خیبر پختونخوا میں عام شہری اور سرکاری ملازمین طالبان کے نشانے پر رہتے ہیں۔ وہ پہاڑوں میں فوجی جوانوں کے مورچوں اور قافلوں پر حملہ کرکے جانی نقصان پہنچاتے ہیں۔ پولیس بھی خود کش حملہ آوروں کا آسان ہدف ہے۔ اٹھائیس فروری کو طالبان نے مہمند ایجنسی میں لڑکوںکے چارسکولوں کو بموں سے اُڑا دیا۔ 2011 سے اب تک فاٹا میں سو سے زائد اسکولوں کوتباہ کیا جاچکا ہے۔ اسی دوران بلوچستان میں جاری شورش پسندی کی وجہ سے ہر روز بہت سی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اس صورت ِ حال میں ان شکوک کا پیدا ہونا فطری امر ہے کہ جب ملک کے بہت سے علاقے حکومت کے کنٹرول میںہی نہیں ہیں تو وہاں انتخابات کیسے ہوں گے ؟فوج کہہ چکی ہے کہ وہ ہر پولنگ اسٹیشن پر جوانوں کو تعینات نہیںکر سکتی جبکہ دہشت گردوںکی کاروائیوں کی وجہ سے پولیس کا حوصلہ پست ہو چکا ہے۔ اس صورت میں ملک میں انتخابات کے موقع پر امن و امان کی ذمہ داری کو ن لے گا ؟اس کا مطلب ہے کہ انتخابی مہم خوف و دہشت کا شکار رہے گی،سیاسی جماعتیں بڑے بڑے جلسے نہیںکر سکیںگی کیونکہ ہر جگہ خود کش حملہ آور کا خطرہ منڈلا رہا ہوگا۔ ’’ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان‘‘ کے سربراہ مسٹر آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کی نصف سے زائد نشستیں اُن انتخابی حلقوںسے ہیں جو ’’پر خطر علاقے‘‘ (the fear zone) کہلاتے ہیں۔ وہاں انتہا پسندوں کے خوف کی وجہ سے رائے دہندگان کا گھروںسے باہر نکل کر ووٹ ڈالنا مشکل نظر آتا ہے۔ کچھ علاقوں میں سیاسی امیدوار انتہا پسندوںکی حمایت حاصل کر سکتے ہیں تاکہ اُن کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ حکومت اپنی آئینی مدت 16 مارچ نصف شب پوری کر چکی۔ ابھی نگران حکومت کا قیام عمل میں آنا ہے جو انتخابی عمل کی نگرانی کر ے گا۔ تاہم پاکستان معمولی صورت ِ حال سے دوچار نہیںہے۔ نگران حکومت کے پاس ان انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار نہیں ہو گا اور نہ ہی اس مقصد کے لیے اس کے پاس سیاسی اور انتظامی قوت ہو گی۔ لوگ یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ فوج، جو کہ پاکستان کا سب سے منظم اور طاقتور ادارہ ہے، ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کرتی ؟آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کا کہنا ہے کہ سیاسی حکومت انتظامی معاملات کو بہتر طور پر کنٹرول کرے اور یہ کہ فوج صرف اُس صورت میں متحرک ہو گی جب حکومت اُسے ایسا کرنے کے لیے کہے۔ پی پی پی کی حکومت نے اپنے دور میں فوج سے اس لیے درخواست نہیں کی تھی کہ یہ عمل اس کی انتظامی کمزوری کی غمازی کرتا اور کوئی حکومت، جب کہ انتخابات سر پر ہوں، اپنی کمزوری آشکارنہیںکرنا چاہتی۔ سب سے بڑا صوبہ، پنجاب، تقریباً تمام انتہا پسند تنظیموں کا گڑھ بن چکا ہے۔ پنجاب پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس نے بہت سے علاقوں میں ان انتہا پسند تنظیموںکے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کیا ہوا ہے۔ دوسری طرف ایشیائی ترقیاتی بنک نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اُس کو ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لیے آئی ایم ایف سے اس سال کم از کم نو بلین ڈالر قرضہ لینا پڑے گا۔ اس وقت ملک کے زر ِ مبادلہ کے ذخائر صرف دو ماہ کی درآمدات کے لیے باقی ہیں۔ بہرحال انتخابات ہونے ہیں۔ ان کو مثالی ماحول تو میسر نہیںآئے گا لیکن فوج، سیاسی جماعتوں ، پولیس اور میڈیاکو کوشش کرنی چاہیے کہ جس حد تک ہو سکے تشدد کوکنٹرول کریں تاکہ عوام اپنی رائے کا اظہا ر کرنے گھروں سے باہر نکل سکیں۔ اس وقت آزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ فی الحال ایسا کرنا کوہِ گراں اٹھانے کے مترادف لگتا ہے۔