کیا پاکستان تبدیل ہورہا ہے؟

اگرچہ نواز شریف ہونے والے حالیہ انتخابات میں فیورٹ قرار دیے جارہے تھے لیکن کسی کو بھی توقع نہ تھی کہ اُن کی جماعت اتنی حیران کن اکثریت حاصل کر لے گی۔اس سے پہلے انتخابی مہم کے دوران بدترین تشدد دیکھنے میں آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی مبصرین اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے تھے کہ ملک میں معلق پارلیمنٹ بننے جارہی ہے،اس لیے بڑھتی ہوئی دہشت گردی، عدم برداشت ،تشدد اور معاشی گراوٹ سے نمٹنے کے لیے جس مضبوط اور مستحکم حکومت کی ملک کو ضرورت ہے، وہ شاید قائم نہیں ہو سکے گی؛ تاہم اونچے ووٹنگ ٹرن آئوٹ کے ساتھ نون لیگ بھر پور فتح کے ساتھ سامنے آتے ہوئے ایک ایسی سول حکومت قائم کر سکتی ہے جو ملک میں استحکام لائے اور درپیش چیلنجز سے عہدہ برآہوسکے؛ تاہم نئی حکومت کے سامنے کو ئی پھولوںکی سیج نہیںہوگی۔ گزشتہ چار ہفتوںکے دوران طالبان اور ان کے حامی گروہوں کی طرف سے کیے گئے حملوںمیں ایک سو پچاس سے زائد افراد ہلاک اور چارسو کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ ان انتخابات میں پی ٹی آئی اور پی پی پی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ آخری نتائج کے مطابق پی پی پی 31اور تحریک انصاف 27 نشستیں ہی لے سکیں‘ ابھی 16 نشستوں کے نتائج آنا باقی ہیں۔ پی پی پی کے لیے تو یہ صورت ِ حال زیادہ غیر متوقع نہ تھی کیونکہ گزشتہ پانچ سال کے دوران حکومت کی کارکردگی بہت سے شعبوں میں انتہائی ناقص تھی؛ چنانچہ وہ عوام کے اعتماد سے محروم ہو چکی تھی۔ پی پی پی کی نااہلی، بد انتظامی، بدعنوانی اور عوامی فلاح سے لاتعلق رہنے کی پالیسی کی وجہ سے اس کا کوئی بھی سابق وزیر انتخابات میں کامیابی حاصل نہیںکر سکا ۔ تاہم عمران خان کے نوجوان حامیوں کے لیے جو شہری علاقوں میں خاصی بڑی تعداد میںتھے اور چھا جانے کے خواب دیکھ رہے تھے، اتنی نشستیں یقینا مایوس کن ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما شاید یہ بھول گئے تھے کہ اُن کے ووٹروں کا بڑا حلقہ روایتی مذہبی طبقہ نہیں بلکہ پوش علاقوںمیں رہنے والے لبرل نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں اور وہ یقینا پارٹی لیڈر کے بعض بیانات کو برداشت اور رواداری کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اب انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد نواز شریف کے سامنے کرنے کے لیے سب سے ضروری کام یہ ہے کہ وہ دفاعی اداروںکے ساتھ ہم آہنگی کی پالیسی اختیار کریں‘ 1999ء کی یادوںکو دل سے محو کر دیں۔ اداروںکی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے ریاستی امور پر اُ ن کو آپس میں ہم آہنگ کیا جائے۔ اس وقت نئی بننے والی حکومت کو طالبان، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے مہیب خطرات کاسامنا ہے؛ چنانچہ فوج کے ساتھ مل کر ان خطرات کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے امریکہ ، بھارت اور افغانستان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم کرنے ہیں۔ اس وقت طالبان پاکستان کے دور تک پھیلے ہوئے شمال مغربی علاقوں میںموجود ہیں ۔ یہ علاقے زیادہ تر پشتون خطے میں ہیں۔ افغان طالبان بھی زیادہ تر پشتون نسل کے ہیں۔ اس طرح سرحد کے دونوں طرف طالبان موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے نظریات اور مقاصد جدا ہوں لیکن ان کی نسل ایک ہی ہے۔ خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور، عملاً خطرے میں گھرا ہوا شہر ہے کیونکہ یہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر فوج قبائلی علاقوں میں حالت ِ جنگ میںہے۔ اہم سیاسی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ عمران خان نے اس صوبے میں اکثریت حاصل کر لی ہے اور امکان ہے کہ یہاں پی ٹی آئی مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمانی طاقتوںنے عمران خان کو ایک طرح کی آزمائش میں ڈال دیا ہے کیونکہ انتخابی مہم کے دوران اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ طالبان کی کارروائیوںکو روک دیں گے اور امریکہ کو ڈرون حملے بند کرنے پر مجبور کریںگے۔ تاہم بہت سے پاکستانیوں کوخدشہ ہے کہ عمران کی اعلان کردہ بہت سی پالیسیوں کا مطلب طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے سوا کچھ نہیںہے ۔۔۔ اور طالبان اپنے تشریح کے مطابق اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں۔ اس لیے عمران خان کی طرف سے خیبر پختونخوا میں حکومت سازی پر امریکی تشویش میں بھی اضافہ ہونا ناگزیر ہے کیونکہ امریکی عمران خان کو طالبان کا ہمدرد سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں قائم ہونے والی نئی حکومت کے لیے صرف طالبان ہی مسئلہ نہیںہیں بلکہ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند صوبے کو وفاق سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ ان علیحدگی پسندوںنے انتخابات میں حصہ لینے والے بلوچ سیاستدانوں پر حملے کیے اور جانی نقصان پہنچایا۔ انتخابات سے اگلے دن ، بارہ مئی کو صوبائی دارلحکومت کوئٹہ پر راکٹ برسائے گئے اور آئی جی پولیس کے گھر پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں چھ افراد ہلاک اور ستر زخمی ہوئے۔ دوکروڑ کی آبادی رکھنے والے شہر کراچی میں جو ملک کی معاشی سرگرمیوںکا مرکز ہے، طالبان، جرائم پیشہ افراد، بلوچ علیحدگی پسندوں اورلسانی تنظیموں کے درمیان ہمہ وقت جنگ جاری رہتی ہے۔ یہ شہر بہت سے مافیاز کے قبضے میں ہے۔ یہاں اقلیتوں کی ہلاکت معمول کی بات ہے؛ نئی حکومت کے لیے اس شہر کا امن بحال کرنا بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں ملک بھر ، خاص طور پر کراچی اور کوئٹہ میں اہل ِتشیع کی ہزارہ برادری کا بے ر حمانہ طریقے سے خون بہایا گیا، لیکن وہ حکومت اُن کو تحفظ دے سکی اور نہ ہی کسی قاتل کو گرفتار کر سکی۔ ان کارروائیوں کا الزام پنجاب میں محفوظ ٹھکانے رکھنے والے طالبان پر ہے جن کے لیے پنجابی طالبان کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ نواز شریف حکومت ان کے خلاف کیا قدم اٹھاتی ہے؟اسی طرح گزشتہ حکومت عیسائی برادری کو بھی جان ومال کا تحفظ دینے میں ناکام رہی، یہی وجہ ہے کہ اب معاشرے کے زیادہ تر طبقوںنے پی پی پی کی حمایت سے ہاتھ کھینچتے ہوئے مسلم لیگ ن پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ نواز شریف نے اپنے گزشتہ دور میں بھارت کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور بس سروس شروع کی تھی۔ اُس وقت پاکستان نے افغان پالیسی میں بھی تبدیلی کی تھی، تاہم وہ حالات نواز شریف کے حق میں نہیںتھے، لیکن اس مرتبہ بات مختلف ہے۔ انتخابات میں کامیابی ملتے ہی عالمی رہنمائوںنے نواز شریف کو مبارک باد کے پیغامات دینا شروع کر دیے ہیں۔ سب سے اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اُن کو فون کرتے ہوئے بھارت کے دورے کی دعوت دی ہے۔ یہ سب مسائل اپنی جگہ پر، لیکن زیادہ تر پاکستانی چاہتے ہیں کہ نواز شریف ملکی معیشت پر توجہ دیں ، توانائی کے بحران سے نمٹیں اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں۔اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے اور غیر ملکی قرضوںکے حوالے سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اس وقت اس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر صرف چھ ہفتے کی ضروریات کے لیے ہیں۔ ملک میں توانائی کا شدید بحران ہے جس کی وجہ سے بیشتر صنعتیں بند ہو چکی ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی برادری ، خاص طور پر امریکہ کی ضرورت ہے۔ ماضی میں نون لیگ کے رہنما امریکی ڈرون حملوں پر برہمی کا اظہار کرتے رہے ہیں، لیکن اب حکومت میں آنے کے بعد معاملات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر نئی حکومت اور دفاعی ادارے مل کر ان مسائل سے نمٹنے میں کامیاب رہتے ہیں تو پھر پاکستان حقیقی تبدیلی کی راہ پر چل نکلے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں