حالیہ انتخابات میں نواز شریف کی حیرت انگیز فتح کو ہمسایہ ممالک یقینا خوش آمدید کہیں گے کیونکہ وہ پاکستان میں امن و استحکام دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم اس فتح کے بعد کچھ اہم سوالات اٹھتے ہیںکہ مسلم لیگ کے قائد پاکستانی دفاعی اداروںسے کس قسم کے تعلقات رکھیں گے؟ اس سے پہلے میاں نواز شریف نوّے کی دہائی میں دو مرتبہ ملک کے وزیر ِ اعظم بن چکے ہیں۔ اگرچہ دونوں مرتبہ اُن کی مدت پوری نہ ہو سکی لیکن اُنہوںنے انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی۔ دوسری مرتبہ، جب حریف ممالک کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی آنا شروع ہو گئی تھی، دفاعی اداروں کی طرف سے 1999ء میں کارگل اور کشمیر پر کی جانے والی مہم جوئی نے سارا منظر تبدیل کر دیا ۔ اس کے نتیجے میں بر ِ صغیر میں جنگ کے بادل چھا گئے، حتیٰ کہ ایٹمی تصادم کا خطرہ بھی منڈلانے لگا۔ عالمی طاقتوںکی مداخلت سے جنگ کا خطرہ تو ٹل گیا لیکن نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جنا ب نواز شریف اس با ت کا بخوبی احساس رکھتے ہیں کہ مغرب میں پاکستان کے روایتی اتحادی عالمی معاشی بحران کی زد میں ہیں؛ چنانچہ اُن کی طرف سے اسلام آباد کو رقم ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔تاہم کساد بازاری کے اس دور میں جبکہ پاکستانی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے،بھارتی سرمایہ کاری اس کی رگوں میں تازہ خون دوڑا سکتی ہے۔ اس مرتبہ فوج کو بھی احساس ہے کہ معاشی بحران کی وجہ سے ریاست ناکامی سے ہمکنار ہو سکتی ہے، اس لیے وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتربنانے کے خیال کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہے، تاہم آرمی چیف جنرل کیانی بھارتی فیکٹریوں اور سرمایہ کاری کے تصور کی حمایت کرتے نظر نہیں آتے۔ اس پس منظر میں پاکستان اور میاں نواز شریف کے پا س معیشت کو سدھارنے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔اس سال کے اختتام کے قریب جنرل کیانی اپنے منصب سے سبکدوش ہو جائیںگے ۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ان کی جگہ لینے والے دوسرے آرمی چیف نواز شریف اور فوج کے درمیان ماضی کی تلخیوں کودور کرنے میں مدد دیںگے۔ صدر آصف زرداری نے عملی طور پر خارجہ پالیسی کے حوالے سے فیصلہ سازی کا عمل فوج کے حوالے کررکھا تھا تاکہ وہ کسی طرح اپنی مدت پوری کر سکیں، امید ہے کہ نواز شریف ایسا نہیں کریںگے ۔ اس کی بجائے وہ فوج کے تعاون سے افغانستان میں قیام ِ امن کے لیے امریکہ، حامد کرزئی اور طالبان،خاص طور پر وہ طالبان رہنما جو پاکستان میں مقیم ہیں کے درمیان افہام وتفہیم پیدا کرنے کی کوشش کریںگے۔ اگلے سال افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ، جس کے لیے پاکستانی سڑکیں اور کراچی کی بندرگاہ استعمال کی جائے گی، افغان جنگ کے خاتمے اور کابل میں منتخب حکومت کے قیام کا دارومدار اس بات پر ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں اپنا کردار کتنی سنجیدگی سے ادا کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاتا ہے۔ نواز شریف یقینا ایسا کرنا چاہیں گے کیونکہ و ہ جانتے ہیں کہ جب تک اس کی سرحدوں پر امن نہیں ہوگا، پاکستان کو داخلی مسائل سے نجات نہیں ملے گی۔ آنے والے دنوں میں نواز شریف کو ایک اور مسئلے کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ امریکہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے دبائوڈالتے ہوئے پاکستان کو مجبور کرے گا کہ وہ یواین کی ایران کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے لگائی گئی پابندیوں کو تسلیم کرے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ حکومت نے اپنے آخری ایام میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر دستخط کیے تھے اور نوازشریف اس منصوبے کی تکمیل چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان میں گیس کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ معاملہ پاکستان کی سفارت کاری کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ وسطی ایشیا کی پانچ ریاستیں… تاجکستان، ازبکستان، کرغزستان، قازغستان اور ترکمانستان بھی افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی پر تشویش رکھتی ہیںکہ کہیں انخلا کے بعد دوبارہ طالبان اقتدار میں نہ آجائیں۔ اس کے لیے وہ پاک فوج کو بھی مورد ِ الزام ٹھہراتی ہیں ۔ یہ ریاستیں نواز شریف کو اسلام آباد میں دیکھ کر سکون کا سانس لیں گی اور توقع کریں گی کہ وہ افغانستان کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے کردار ادا کریںگے۔ پاکستان کا روایتی دوست چین جو دبے لفظوں میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور طالبان کی حمایت پر تنقید کرتا ہے، کو نواز شریف کی مضبوط حکومت کی صورت میں امید کی کرن دکھائی دے گی کہ پاکستان کے طاقتور وزیر ِ اعظم دفاعی اداروںکے ساتھ مل کر انتہا پسندی کے سد ِ باب کے لیے اقدامات کریں گے۔ تاہم پی ایم ایل (ن) کی حکومت کے سامنے سب سے مشکل تعلقات امریکیوںکے ساتھ ہوںگے کیونکہ اپنی انتخابی مہم کے دوران نواز شریف کے بھائی میاں شہباز شریف امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دیتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جب وہ پنجاب کے وزیر ِ اعلیٰ تھے تو اُنھوںنے واشنگٹن کی پالیسیوں اور ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صوبہ بھر میں ’’یو ایس ایڈ‘‘ کے تمام پروگرام بند کرا دیے تھے۔ اس دوران فوج کے بھی امریکہ کے ساتھ نہایت پیچیدہ تعلقات تھے ۔ حالیہ برسوں میں ڈرون حملوںاور کچھ اور واقعات کی وجہ سے اس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود نواز شریف کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان کی دگرگوں معیشت کے لیے اُنہیں آئی ایم ایف ، عالمی بنک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی مدد کی ضرورت ہے اور وہ امریکی تعاون اور افغانستان اور انڈیا کے ساتھ پر امن تعلقات قائم کیے بغیر ایسا نہیں کر سکتے ۔ نواز شریف سمیت بہت سے سیاست دانوں کو اس بات کا بہت دیر سے احساس ہے کہ دفاعی ادارے خارجہ پالیسی کو اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتے ہیں۔ زیادہ دور نہ جائیں، حالیہ انتخابات کے موقع پر ’’نیویارک ٹائمز ‘‘ کے نمائندے ڈیکلن والش کو پاکستان سے نکال دیا گیا جبکہ نگران حکومت کو اس معاملے کا علم بھی نہیںہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان جذباتیت سے نکل کر حقیقت پسندی پر مبنی خارجہ پالیسی اپنائے۔ نواز شریف کے سامنے بہت سے داخلی مسائل ہیں ،جیسے دہشت گردی، بلوچستان میں علیحدگی پسندوںکے حملے، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت۔ ان تمام مسائل کا تعلق خارجہ پالیسی خاص طور پر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات سے ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان اور بھارت کو مورد ِ الزام ٹھہرانے سے کچھ نہیںہو گا۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ پاکستان کو اس کے ہمسائے نا پسند کرتے ہیں۔ اب اس کے لیے ہمسایوں کے ساتھ اعتماد سازی کی فضا قائم کرنا اور اپنی ساکھ کو بہتر بنانا آسان کام نہ ہو گا۔ بہرحال نئی حکومت کے سامنے یہ ایک اور چیلنج ہے۔ دیکھیں، وہ اس سے کیسے عہدہ برآ ہوتی ہے۔