گزشتہ ہفتے صدر اوباما کی تقریر سے شاید اس بات کاتاثر گہراہوتا ہو کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی امریکہ کی کھلی جنگ اختتام کے قریب ہے، لیکن اس سے ایک اور اشارہ بھی ملتا ہے کہ ایک اور محدود جنگ شروع ہونے والی ہے۔ پہلی جنگ میں‘ جس کے اختتامی لمحے قریب آرہے ہیں، ڈرونز کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور اس بات کی اب بھی کوئی ضمانت نہیں کہ نئی جنگ میں اُن کا استعمال نہیںکیا جائے گا۔ ڈرون حملوں سے صرف یہی نہیں کہ ان سے دہشت گرد کھلے عام ہلاک کر دیے جاتے ہیں ، بلکہ ان کی مدد سے ہی القاعدہ کی لیڈرشپ کا خاتمہ ممکن ہوا ہے۔ ان کا منفی پہلو یہ ہے کہ ان کا استعمال دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں ایک حربے کی بجائے امریکی جنگی حکمت عملی کا اہم پہلو بن چکا ہے۔ صدر اوباما کی تقریر نے انہیں ڈرون پالیسی کی وجہ سے داخلی و خارجی سطح پر ہونے والی تنقید سے قدرے بچالیا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی سے نمٹنے کے سلسلے میں ایک وسیع تر پالیسی سازی کے لیے ایک دروازہ کھول دیا ہے۔ اس کے باوجود، ان کی پہلی مدت ِ صدارت کو دہشت گردوں کے خلاف وسیع پیمانے پر ڈرون حملوں کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ وکالت کی راہوں پرچلتے ہوئے صدر بننے والے لبرل ذہنیت کے مالک مسٹر اوباما کے لیے ایسی یاد چھوڑ کر جانا یقینا اچھا نہیں ہوگا۔ گزشتہ ماہ واشنگٹن میں انہوں نے کہاتھا: ’’امریکہ ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور یہ جنگ ، تمام جنگوں کی طرح ضرور ختم ہونی چاہیے۔‘‘ پھر انہوں نے خاکہ بیان کیا کہ کس طرح ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں اور حملے کی وجوہات کو منظر عام پر لایا جائے گا تا کہ ان حملوں کو امریکیوں اور عالمی برادری کی نگاہ میں جائز ثابت کیا جا سکے۔ بہت سے امریکی مبصرین نے اس تقریر کو سراہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے یہ تاثر زائل کرنے میں مدد ملے گی کہ امریکی صدر ہر روزناشتے کی میز پر اُن دہشت گردوں کی ناموںپر نشان لگا دیتا ہے جن کواُس دن ہلاک کیا جانا ہوتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اب اہداف کا تعین کرنے کا ایک پیچیدہ طریق ِ کار بنا دیا گیا ہے کیونکہ اب امریکی صدر کے بقول القاعدہ کا بڑی حد تک صفایا ہو چکا ہے۔ اب ڈرونز کو بہت محتاط انداز میں ان اہداف کے خلاف استعمال کیا جائے گا جو امریکہ کے لیے بدستور خطرہ ہیں۔ اس طرح وہ جنگ جس کا آغاز سابق صدر بش کے دور میں ہوا تھا، اب کم از کم سرکاری طور پر ختم ہونے جارہی ہے۔ بہت بہتر ہوتا اگر ایسی تقریر پہلے کر لی جاتی۔ اس صورت میں ڈرون حملوں پر اسلامی دنیا میں امریکہ مخالف جذبات پیداہوتے نہ ان کے استعمال پر قانونی سوالات اٹھائے جاتے۔ جہاں تک باقی دنیا کا تعلق ہے‘ اس کے لیے ڈرون حملے بذاتِ خود بڑا ایشو نہیں‘ اگرچہ امریکی پالیسی پر یہ سوالات ضرور اٹھائے جاتے ہیں کہ کیا وائٹ ہائوس نے ڈرون فائر کرنے کے علاوہ افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے لیے درکار سفارتی کوششیں کی ہیں، یا ناکام ہوتی ہوئی ریاستوں اور انحطاط پذیر معاشروں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے؟اس کا مطلب ہے کہ عالمی برادری کا دہشت گردی سے نمٹنے کا تصور صرف ایک مشین (ڈرون) کے استعمال تک محدود نہیںہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ، جو اب بھی جاری ہے‘ کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی حکمت ِ عملی نہیں بنائی گئی۔ ایسے کوئی اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے جن سے اس بات کا اظہار ہو سکے کہ اسلامی دنیا یا یورپی ممالک میں مقیم مسلمانوں میں پیدا ہونے والے انتہا پسندانہ نظریات اور ان کی وجوہات کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اگر امریکہ دہشت گردی کی وجوہات کا خاتمہ چاہتا ہے تو اس کاوش میں ڈرون بے کار ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے امریکہ کے خلاف نفرت میںاضافہ ہورہا ہے۔ دنیا کے بعض ممالک میں تو ان جدید ہتھیاروں کو امریکہ کی ’’واحد خارجہ پالیسی ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے؛ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ مسٹر اوباما کی تقریر کے مطابق اب امریکہ ان کا اندھا دھند استعمال بند کر دے گا اور اس کی بجائے بہت احتیاط سے اہداف کا تعین کرنے کے بعد ان کا استعمال کیا جائے گا۔ اس سے پہلے مسٹر بش نے اس بات کا کوئی عندیہ نہیں دیا تھا کہ امریکہ ان جنگوںکے بعد تباہ شدہ اقوام کی تعمیر ِ نو میں بھی مدد دے گا۔ انہوں نے اس بات کا ادراک بھی بڑی مشکل سے کیا تھا کہ یہ دہشت گردی دراصل امریکہ کی اُ ن جنگوں کا نتیجہ ہے جو اس نے کئی برسوں تک افغانستان اور عراق پر تھوپیں۔ صدر اوباما نے بھی حالیہ تقریر سے پہلے ایسی کسی سوچ کا اظہار نہیں کیا تھا کہ امریکہ دہشت گردی کی علامات ختم کرنے لیے ان اقوام کی تعمیر ِ نو میں معاونت کرے گا۔جو تقریر انہوں نے منصب ِ صدارت سنبھالنے کے بعد مصر کے شہر قاہرہ میںکی تھی اس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اسلامی دنیا کا دل جیتنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریںگے، لیکن اب یہ بات فراموشی کی گرد میں دب چکی ہے۔ اس کے باوجود ان کی موجودہ تقریر میں ایک مرتبہ پھر قاہرہ میںکی جانے والی تقریر کی ایک جھلک ضرور ملتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے شکار ممالک کے لیے سماجی، سیاسی اور معاشی امداد کے امکانات کو آگے بڑھائیںگے۔ اگر وہ دُنیا میں اپنی اچھی یادیں چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں تو اُنہیں ان اقدامات کو حقیقت کا جامہ پہنانا چاہیے۔ اس وقت امریکی صدر کے سامنے یہ دشواری ہے کہ ڈرون حملوں کو عالمی سطح پر کس طرح قانونی اور جائز قرار دلایا جا ئے اور ا ن کی وجہ سے امریکہ کو جن مسائل کا سامنا ہے اُن سے کیسے نمٹا جائے۔ اس سلسلے میں حالیہ تقریر کو ایک سنگ ِ میل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان پر داخلی دبائو قدرے کم ہو گیا ہو گا لیکن دنیا کے سامنے ابھی انہیں کوئی نیا نقشہ پیش کرنا ہے ۔ اس دوران پاکستان میں کیا ہوگا جہاں ہم نہ صرف ڈرونوں کے سائے میں رہتے ہیں بلکہ ان کی مخالفت میں ہونے والا پراپیگنڈہ بھی ذہنوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے ساتھ انتہا پسند اور معتدل مزاج دھڑوں کی طر ف سے بھی مغرب اور مغربی جمہوریت کے خلاف نکتہ چینی جاری رہتی ہے اور عوامی جذبات معقولیت کا دامن تھامنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ شاید ہمیں وائٹ ہائوس کی ایک اور تقریر کا انتظار کرنا پڑے جو ہمیں یقین دلائے کہ اب میزائلوں کی بجائے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کچھ اور اقدامات کیے جائیں گے۔