وسطی ایشیا کی یہ ریاستیں چین کو توانائی کے حوالے سے بہت تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ سمندر کے راستے آنے والے تیل کو کسی بھی ہنگامی حالت میں امریکی بحری قوت روک سکتی ہے لیکن یہ پائپ لائنز چین کو اس خوف سے بے نیاز کر دیتی ہیں۔ چین کے لیے یہ دو جمع دو چار کا کھیل نہیںہے کیونکہ ان ریاستوں میں اس کے مخالف جذبات بھی پائے جاتے ہیں؛ تاہم یہ بات تیسری دنیا کی تمام ریاستوں کے لیے یکساں ہے ۔ چین کو ایک ایسی عالمی طاقت کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو خود مالی فوائد حاصل کرتی ہے لیکن اس کے عوض قابل ِ ذکر مدد نہیں دیتی۔ چینی کمپنیاں اپنے مزدور لاتی ہیں، اپنا ساز و سامان استعمال کرتی ہیں، وہ مغربی کمپنیوں کے برعکس مقامی لیبر نہیں رکھتیں اور نہ ہی کسی کو مطلوبہ ٹریننگ فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مقامی فیکٹریوںمیں تیار ہونے والی پراڈکٹس بھی نہیں خریدتی ہیں۔ اس سے اس ریاست کے انفراسٹرکچر کو ترقی دینے میں چین کا کردار تقریباً صفر ہو جاتا ہے۔ چین کے اس رویے کے علاوہ کچھ سازش کی تھیوریاں بھی گردش میں ہیںکہ چین وسطی ایشیائی ریاستوں میں وسیع پیمانے پر زرعی زمین خریدکراپنے لاکھوں کسانوں کوآباد کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ان ریاستوںکے رہنماچین کے لیے دیدہ ودل فرش ِ راہ کیے ہوئے ہیں، لیکن یہاں کے لوگ چین کے بڑھتے ہوئے اثر سے خائف ہیں۔ ان ریاستوںکے لوگ چین کے اس رویے کو بھی اچھا نہیںسمجھتے کہ وہ یہاں کے حکمرانوںسے معاشی اصلاحات، انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرتا۔ اس کے برعکس مغربی ممالک ان معاملات کو اپنے تعلقات میں سرفہرست رکھتے ہیں۔ ’’انٹر نیشنل کراسس گروپ‘‘ کی جاری کردہ ایک رپورٹ، ’’وسطی ایشیا میںچین کے مسائل‘‘، کے مطابق۔۔۔ ’’چین وسطی ایشیائی ریاستوں میں اپنے روایتی طریقوں سے تجارت اور سرمایہ کاری کو دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا ۔ اسے مقامی آبادی کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘ اس بڑھتے ہوئے ادراک کے باوجود چین افغانستان، جس کے ساتھ اس کی وخان کے مقام پر پچاس کلومیٹر سرحدی پٹی لگتی ہے، کے لیے بھی ایسی ہی روایتی پالیسی رکھتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے اس نے افغانستان کو سکیورٹی یا انفراسٹرکچر کے حوالے سے کوئی مدد فراہم نہیں کی۔ پچھلے بارہ سالوں میں اس نے افغانستان کو صرف دو بلین ڈالر معاشی امداد فراہم کی ہے، جبکہ اسی دوران بھارت، جس کی معاشی حالت چین کے مقابلے میں بہت پست ہے، افغانستان میں کہیں زیادہ سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اس سرد مہری کے باوجود اب جبکہ غیر ملکی طاقتیں افغانستان سے جانے والی ہیں، چین افغانوں سے روابط بڑھا رہا ہے تاکہ وہاں سے خام مال حاصل کر سکے۔ اس ضمن میں چین نے کابل کے نزدیک ایانک کاپر مائینز میں ساڑھے تین بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ شمالی افغانستان میں واقع تیل کے میدانوںکے لیے بھی سرمایہ کاری کی پیش کش کررہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خام مال کی تجارت سے افغانستان کو درکار مالی تحفظ حاصل ہو گا اور اس جنگ زدہ ملک کے عوام کچھ سکھ کا سانس لیں گے‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہاں مکمل امن ہو ورنہ چینی کمپنیاں معدنیات کے لیے کھدائی نہیں کر سکیں گی۔ اس کے لیے چین کو 2014ء کا انتظارکرنا پڑے گا لیکن اس کے بعد بھی افغانستان میں قیام ِ امن کی کوئی ضمانت نہیںہے۔ چین نے وسطی ایشیائی ریاستوں کوایس سی او (شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن) میں شامل کیا ہواہے ۔ یہ ان ممالک کے لیے سب سے اہم کثیر ملکی تنظیم ہے۔ اس کی بنیاد 1996ء رکھی گئی۔ اس میں چین اور روس کے علاوہ چار وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہیں(ترکمانستان اس کا رکن نہیںہے) جبکہ ہمسایہ ریاستیں، پاکستان،انڈیا اور ایران، بھی اس کی رکن بننے کی کوشش کررہی ہیں۔ بہت سے مغربی تجزیہ نگاروں کے نزدیک ایس سی او صرف کاغذائی کاروائی کی حد تک ہی تنظیم ہے کیونکہ اس میں شامل ممالک وہ ہیںجو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فوجی کاروائی نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ان میں اکثر کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں اور وہ ایک دوسرے سے تعاون کے لیے بھی تیار نہیں ۔ اس تنظیم کا کوئی فوجی ہدف ہویا نہ ہو، چین نے اس کے ذریعے اپنے بنیادی مقصد کاحصول ممکن بنا لیا ہے۔ اس تنظیم کا ماٹو۔۔۔ ’’دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کا خاتمہ‘‘ ہے ۔ اس طرح چین نے اپنے سب سے بڑے درد ِسر Uighur کے مسئلے کو ایک طرح سے دبا دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کو عالمی سطح پر القاعدہ سے اتنی تشویش نہیں جتنی Uighurسے ہے۔ وسطی ایشیائی ریاستیں روس، ترکی اور Caucasus کو تجارت کے لیے راہداری فراہم کرتی ہیں اوران ریاستوںمیں چین کا اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اب چین ہی افغانستان اور ان ریاستوں میں اپنے تجارتی مقاصد کو آگے بڑھائے گا۔ اس طرح دنیا کا یہ بہت بڑا خطہ اس کے سفارتی حلقہ ٔ اثر میں شامل ہوجائے گا۔ یہ سب ٹھیک ہے ،لیکن ایک بنیادی سوال اپنے جگہ پر رہے گا کہ کیا چین یہاں کی حکومتوں پر معاشی اصلاحات ، جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے دبائو ڈالے گا؟یا پھر اس کابنیادی مقصد اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مالی فوائد کا حصول ہی ہوگا؟کیا یہ افغانستان کو طویل جنگ کے بعد ہونے والی تباہی سے نمٹنے میں مدد دے گا؟فی الحال چینیوںنے افغانستان میں قیامِ امن اور طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چین کا پاکستان پر بھی بہت اثر ورسوخ ہے لیکن اس نے کبھی پاکستان پر بھی یہ دبائو نہیں ڈالا کہ وہ طالبان کے خلاف کارروائی کرے۔ اسی طرح اس نے ایس سی او کے پلیٹ فارم سے کسی ایجنڈے کا بھی اعلان نہیںکیا کہ 2014ء جب نیٹو اور امریکی افواج افغانستان سے انخلا مکمل کرلیں گی، کے بعد ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ اگر دیکھا جائے تو اس تنظیم میں شامل ریاستوںمیں سے صرف چین کے پاس ہی وہ معاشی قوت ہے جو افغانستان میں قیام ِ امن میں سود مند ثابت ہو سکتی ہے لیکن معدنیات نکالنے کے ساتھ ساتھ کیا چینی رہنما اس بات کی ذمہ داری اٹھائیںگے؟ 2011ء سے امریکہ نے بھی وسطی ایشیا ئی ریاستوں کے ساتھ ’’سلک روٹ سٹریٹیجی‘‘ پر کام کرنے کی کوشش ہے۔ اس کا مقصد اس خطے میں وسیع پیمانے پر انفر ا سٹرکچر تعمیر کرنا تھا۔ اس میں سب سے اہم منصوبہ ترکمانستان سے پاکستان تک گیس پائپ لائن بچھانا تھا۔ اس پائپ لائن کو افغانستان کے جنوبی علاقوںسے گزرنا تھا۔ اس کے علاوہ افغانستان میں ریلوے سسٹم کی تعمیر اور کرغستان سے پاکستان اور افغانستان میں بجلی کی سپلائی کے منصوبے بھی شامل تھے۔ تاہم یہ سٹریٹیجی جلد ہی بے مقصد ثابت ہوئی کیونکہ اس کی کامیابی کا دارومدار طالبان کے ساتھ پر امن مذاکرات کے علاوہ خطے کے اہم ممالک، جیسا کہ چین، انڈیا، ایران، سعودی عرب، پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے رویے اور تبدیل ہوتے ہوئے عالمی حالات پر بھی تھا۔ اس ضمن میں روس نے بھی متضاد پالیسی اپنائے رکھی۔ اس نے وسطی ایشیائی ریاستوں اور افغانستان میں امریکہ کو فوجی اڈے قائم کرنے دیے۔ پھر اس نے ان ریاستوں کو مجبور کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ معاہدے منسوخ کردیں۔ روس چاہتا ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج مکمل طو ر پر چلی جائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ بھی خدشہ ہے کہ ان کے جانے کے بعد طالبان اور ڈرگ مافیا پھر سے سر اٹھالیںگے۔ آج سے بیس سال پہلے تک یہ ریاستیں امریکہ کے ساتھ کوئی معاہدے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں لیکن اب روسی دبائو کے باوجود ان کی امریکہ کے لیے نرم پالیسیاں رہی ہیں۔ آج یہ ریاستیں کھلے عام روسی اثر کو رد کرتے ہوئے چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بڑھاتی نظر آتی ہیں۔ سوویت تسلط سے آزاد ہونے کے بعد ان ریاستوںمیں جمہوری اقدار کا فروغ سب سے اہم مرحلہ تھا۔ اس میں پیش رفت جاری ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ معاشی خوش حالی کے ساتھ یہاںکے لوگ جمہوری روایات کا استحکام بھی دیکھیںگے۔ اس ضمن میں سب سے اہم کردار یہاںکے سیاسی رہنمائوں کا ہے۔ فی الحال وہ آپس میں تقسیم ، بلکہ تصادم کی راہ پر ہیں۔ اگر وہ آپس میں امن اور تعاون کی فضا قائم کر لیتے ہیں تو یہ خطہ دنیا کے مستقبل کے لیے اہم کردار اد ا کرنے والا ہے۔