افغانستان میںہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات میں پاکستان کا ذکر منفی انداز میں کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ تیرہ برس کے دوران افغانستان کے حوالے سے اسلام آباد کی طرف سے مختلف دائو پیچ آزمانے اور طالبان کی ایک بڑی تعداد کے پاکستان کے مختلف حصوں میں محفوظ ٹھکانے بنانے کے عمل نے بہت سے افغان باشندوںکو پاکستان سے ناراض کردیا ۔ چنانچہ تمام صدارتی امیدواروں نے پاکستان پر تنقید کو اپنا مرکزی انتخابی نعرہ بنالیا۔
شاید تاریخی طور پر پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ پاکستان نے کسی بھی افغان صدارتی امیدوار کی حمایت نہیںکی۔ درحقیقت تینوں مرکزی امیدوار پاکستان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔ روایتی طور پر غیر پشتون، عموماً تاجک امیدوار پاکستان کے بارے میں جارحانہ رویہ رکھتے ہیں لیکن اس مرتبہ تو پشتون امیدوار بھی پاکستان پر تنقید کرتے دکھائی دئیے کہ اسے ان کے ملک میں مداخلت کی پالیسی ترک کرنا ہوگی۔
حامد کرزئی کی صدارت کے تیرہ برسوں میں افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تنائو دیکھنے میں آیا۔ اگرچہ اس تنائو کی ذمہ داری دونوں ممالک کی پالیسیوں پر عائد ہوتی تھی لیکن غیر جانبدارانہ جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ قدرے زیادہ تھا۔ اس میں اب بہت کم افراد کو شک ہے کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت پاکستان میں موجود ہے۔ ان کے جنگجو پاکستان کے علاقوں میں محفوظ ٹھکانے رکھتے ہیں اور وہاں سے نکل کر افغان علاقے میں کارروائیاں کرکے واپس اپنی پناہ گاہوں میں آجاتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کی جڑیں بہت گہری
ہیں۔1970ء کے عشرے میں، جب ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت تھی، پاکستان نے افغانستان کی اسلام پسند قوتوں کو تربیت دی۔ اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ پاکستان مختلف افغان دھڑوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتارہا ہے۔ افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے دوران یہ عمل اپنی انتہا تک پہنچ گیا جب سی آئی اے اور پاکستان نے افغان مجاہدین کی مدد کی ۔ سوویت انخلا کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اس دوران ایران اور بھارت نے شمالی اتحاد کو سپورٹ کیا جبکہ پاکستان نے ان گروہوں کو جو آج طالبان کہلاتے ہیں۔ اس میں ''کامیابی ‘‘ نے پاکستان کے قدم چومے اور افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہوگئی۔۔۔ باقی تاریخ ہے۔
امریکیوںکی سب سے بڑی غلطی عراق پر فوج کشی تھی کیونکہ اس مہم نے افغانستان پر سے اس کی توجہ کا ارتکاز توڑ ڈالا۔ ابتدائی دور میںجب طالبان نے زیادہ زور نہیں پکڑا تھا اور نہ ہی ان کی طرف سے قابل ِ ذکر مزاحمت ہورہی تھی، امریکی افغانستان میںترقیاتی کاموں ، جن کا وعدہ تھا، کے لیے رقم مہیا نہ کرسکے۔ اس کے بعد امریکیوں کی اصل توجہ عراق اور مشرق ِو سطیٰ کی طرف مرکوز ہوگئی۔ اگر امریکیوںنے تعلیم ، صحت، روزگار اور دیگر سماجی کاموں پر رقم خرچ کی ہوتی تو افغان معاشرہ یقینی طور پر طالبان کو رد کردیتا ۔
اسی طرح امریکہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی بھی درست خطوط پر نہیں بنائی گئی تھی۔ یہ بات افغان رہنما بجاطور پر کہتے ہیں کہ امریکہ پاکستان پر دبائو ڈالنے میںناکام رہا کہ وہ اپنی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔ کابل میں پاکستان کے خلاف بڑھتے ہوئے اشتعال کی بڑی وجہ یہی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی ایک اور غلطی طالبان سے مذاکرات نہ کرنا تھا۔ درحقیقت 2008-09 ء میںایسا محسوس ہوتا تھا کہ کچھ ممالک، جیسا کہ قطراور جرمنی ، کے تعاون سے امریکیوں اور طالبان کے درمیا ن مذاکرات کی امید پیداہوگئی تھی لیکن امریکی انتظامیہ اس مسئلے میں داخلی طور پر اختلاف کا شکار ہوگئی ۔ امریکی اور افغان، دونوں مل کر اپنی ناکامی کا الزام پاکستان پر لگاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ کہ امریکیوں کی طر ف سے کیے گئے غلط فیصلوں اور روا رکھی گئی ناقص پالیسیوںکی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد نہیںہوتی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکیوں کی روانگی کے بعد طالبان اپنی پالیسیوں میںکوئی تبدیلی لائیںگے ؟یہاں امید افزا پہلو موجود ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان کابل پر چڑھ دوڑنے کی بجائے قائم ہونے والی افغان حکومت سے بات چیت کو ترجیح دیںگے۔ اس کے لیے پاکستان بھی ان کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ طالبان کے تمام دھڑے جنگ وجدل کے حق میں نہیں۔ درحقیقت ان کے ہاں بھی ''امن پسند لابی‘‘موجود ہے۔ وہ افغان شوریٰ جو ملاعمر کے زیر ِ اثر ہے، اس کی بڑی تعداد اب امن کی خواہاںہے۔ ان کو احساس ہوچلا ہے کہ اگرچہ امریکی افواج یہاںسے انخلاکررہی ہیں لیکن ان کی حیثیت فاتحین جیسی نہیں ۔ اب وہ شاید کابل پربزور طاقت قبضہ کرنے کا خیال دل سے نکال چکے ہیں۔ اس لیے ان کے سامنے بہترین آپشن یہ ہے کہ وہ نئی افغان حکومت کے ساتھ افہام و تفہیم سے اپنے لیے حکومت میں کردار حاصل کریں۔
لاکھوںافغان باشندے پاکستان میں مہاجرین کے طور پر رہ رہے ہیں۔ نئے افغان صدر کو ان کا احساس بھی کرنا ہوگا تاکہ ملک میں امن قائم کرتے ہوئے ان افراد کی وطن واپسی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ پاکستان اب مزید بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ اس لیے وہ بھی چاہے گا کہ افغانستان میں امن ہو‘ تاکہ وہ بھی سکون سے رہ سکے ۔ اس کے علاوہ طالبان قیادت کو بھی محفوظ راستہ دیناہوگا تاکہ ملک کو مزید انتشار سے بچایا جاسکے۔ اس وقت پاکستان میں نواز شریف حکومت پاکستانی طالبان کے مسئلے کو مذاکراتی عمل کے ذریعے حل کرنے کی کوشش میںہے، اگرچہ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں اور دفاعی اداروں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ کچھ جماعتیں طالبان کے خلاف بھرپورفوجی آپریشن کے حق میں ہیں۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ اب کوئی بھی افغانستان میں تشدد نہیں چاہتا۔
جہاں تک امریکی انخلا کا پاکستان پر پڑنے والے اثر کا تعلق ہے تو پہلے تو پاکستان چاہے گا کہ کم ازکم دس ہزار کے قریب امریکی فوجی افغانستان میںموجود رہیں تاکہ وہ افغان فوج کو کنٹرول کرسکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو آخرکار وزیرستان میں آپریشن کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں یہاں سے انتہا پسند بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے لیتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی خواہش ہے کہ ایسی صورت ِ حال کے تدارک کے لیے امریکی افواج وہاں موجود رہیں، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ امریکی وہاں موجود نہیںرہیں گے۔ دو تین سال پہلے تک پاکستان کے پاس ایک اچھا موقع تھا کہ وہ انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرکے اپنے معاشرے کو ان سے نجات دلاسکے لیکن اب وقت اس کے ہاتھوںسے نکل گیا ہے۔ اب شاید کوئی بھی پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ امریکیوں کے جانے کے بعد اس خطے میں سعودی عرب کا کردار بھی اہم ہوگا۔ مشرق ِ وسطیٰ کی صورت ِ حال تبدیل ہورہی ہے اور اس میں بھی سعودی عر ب کا کردار بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ پانچ سال سے حامد کرزئی سعودی عرب پر زور دے رہے تھے کہ وہ یہاں قیام ِ امن میں اپنا کردار ادا کرے۔ تاہم اس وقت سعودی عرب اس پر راضی نہ ہوالیکن دیگر عوامل تبدیل ہونے سے ہوسکتا ہے کہ ریاض اپنا فیصلہ بدل لے اور ایک اہم کھلاڑی بن کر سامنے آئے۔