غیریقینی حالات

پاکستان میں آج کے معروضی حالات میں جنرل راحیل شریف صاحب کی بطور آرمی چیف تعیناتی کو عالمی سطح پر بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ یہ وہ وقت ہے جب بھارت اور افغانستان میں نئی حکومتیں قائم ہونے جا رہی ہیں جبکہ پاکستان بھی انتہا پسندوںکے ساتھ بے سمت مذاکرات میں مگن ہے۔ ان حالات میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ سول حکومت اور فوجی قیادت میں اس مسئلے پرکچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ تاثر زیادہ درست نہیں؛ تاہم طرفین محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ دفاعی اداروںکی سابق حکومت کے ساتھ تنائو کی کیفیت موجود تھی، وہ آج بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کی وجہ سے کچھ تنائو کا خدشہ محسوس ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال میں پاکستان کی سیاسی قیادت کوئی واضح حکمتِ عملی اپناتی دکھائی نہیں دیتی۔ 
اس وقت زیادہ تنائو والی صورتِ حال تو نہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فوجی قیادت طالبان کے ساتھ نرمی سے بات کرنے کے عمل کو پسند نہیں کرتی۔ فی الحقیقت فوج کی موجودہ قیادت طالبان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہتی ہے، اس لیے اسے احساس ہوتا ہے کہ سیاسی حکومت نے مذاکرات کا عمل شروع کر کے اس کے ہاتھ باندھ دیے ہیں۔ دوسری طرف طالبان بھی جنگ بندی کے معاہدے پر عمل پیرا نہیں، وہ جنگ بندی کا اعلان کرتے ہیں لیکن حملوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور خون بہے چلا جا رہا ہے۔ ایک اور فرق بھی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ جنرل کیانی نے طالبان سے نمٹنے میں اتنی مستعدی نہیں دکھائی جتنی ان سے توقع تھی۔ سوات آپریشن کے سوا کہیں پر بھی طالبان پر ضرب نہیں لگائی گئی۔ وہ انتہا پسندوںسے زیادہ امریکہ کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنے دور کے آخری دو برسوں میں عملی طور پر کچھ نہیں کیا جبکہ پاکستان کے ہاتھ سے بہت قیمتی وقت نکل گیا۔ طالبان پر فیصلہ کن ضرب لگانے کے لیے وہ بہترین وقت تھا جب امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں انتہا پسندوںکے تعاقب میں تھیں اور اِدھر پاکستان بھی انہیں کچلنے کے لیے اقدامات کر سکتا تھا؛ تاہم وہ موقع گنوا دیا گیا، اب اسے اکیلے ہی ان سے نمٹنا ہو گا، کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں آئے گا۔ 
اس وقت پاکستان میں معاملات خاصے الجھے ہوئے ہیں۔ اب فوج طالبان کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے تو نواز حکومت ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر مسائل حل کرنے کی امید لگائے ہوئے ہے‘ لیکن فوج کے سیاسی حکومت کے ساتھ تنائو کی صرف یہ واحد وجہ نہیں، بلکہ نواز حکومت بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کی خواہاں تھی اور اب بھی ہے۔ دراصل اس نے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے کچھ اقدامات بھی کئے لیکن پھر اس کوشش کو ''ویٹو‘‘ کر دیا گیا، حکومت کو بڑھے ہوئے قدم واپس اٹھانا پڑے۔ شاید عام حالات میں پاکستان کے ادارے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول کی سطح پر لانا چاہیں لیکن اس وقت افغانستان کے حوالے سے ایٹمی طاقت کے حامل یہ دونوں ہمسایہ ممالک ایک طرح کی رقابت کا شکار ہیں جو اس خطے کے لیے خوش آئند نہیں۔ اگرچہ حکومتِ پاکستان کو موجودہ انتخابات میں بی جے پی کے رہنما نریندر مودی کے اقتدار میں آنے پر تشویش لاحق ہو گی کیونکہ وہ پاکستان اور مسلمانوںکے بارے میں جارحانہ رویہ رکھتے ہیں اور ان کے دور میں گجرات میں مسلم کش فسادات بھی ہوئے، لیکن اس کا دوسرا پہلو زیادہ حوصلہ شکن نہیں۔ یہ بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی ہی تھے جو نواز شریف کے گزشتہ دور میں لاہور آئے اور اس دورے سے بہت سی برف پگھلتی ہوئی محسوس ہوئی، اس لیے مودی کو دہلی میں حکومت سازی کرتے دیکھنا پاکستان کے حوالے سے اتنا بھی مایوس کن نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے؛ البتہ مودی کو دہشت گردوں کے تعاقب میں پاکستان کی سرحد عبور کرنے جیسی باتوںسے احتراز کرنا چاہیے۔ بھارتی انتخابات میں اگر یہی رجحان جاری رہا یعنی سیاسی رہنما پاکستان کے خلاف بیانات دینے اور اسے سبق سکھانے کی باتیں کرتے رہے تو اسے افسوس ناک صورتِ حال قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ دل سے جانتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے، لیکن بھارتی عوام کے جذبات سے کھیل کر ووٹ لینا یقیناً کوئی مستحسن عمل نہیں۔ ایک بات طے ہے کہ جب تک بھارت میں انتخابات کا مرحلہ مکمل نہیں ہو جاتا اور جب تک دہلی حکومت کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے‘ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمیں کم از کم اگلے چھ ماہ انتظار کرنا پڑے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس دوران کوئی ناپسندیدہ واقعہ پیش نہ آ جائے۔ 
اس میںکوئی شک نہیں کہ معمول کے حالات میں دہلی اور اسلام آباد بتدریج آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ دونوںکے درمیان کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے لیکن دونوں میں سے کسی کو بھی امید نہیں کہ اس کا راتوں رات کوئی قابلِ قبول حل نکل آئے گا۔ ان کے درمیان تجارت اور عوامی سطح پر تعلقات میں فروغ زیادہ اہم معاملات ہیں اور یہ دونوں ان پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ امریکی افواج کی خطے سے روانگی کے بعد افغانستان ایک مسئلہ بن کر ان کے درمیان موجود ہو گا۔ واجپائی کے ساتھ نواز شریف کے تعلقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کی خواہش پوری ہو گی؟ کیا پاکستان کے طاقتور حلقے انہیں اس کی اجازت دیں گے؟ کیا افغانستان میں کوئی نیا کھیل تو نہیں شروع ہو جائے گا؟
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کو بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے، اسے انتہاپسندوں کی طرف سے خطرہ ہے، لیکن اس کے طاقتور حلقے افغانستان کے حوالے سے بھی تحفظات رکھتے ہیں۔ اگر وہ طالبان پر ضرب لگاتے ہیں تو خدشہ ہے کہ بھارت افغانستان میں قدم جمانے میں آسانی محسوس کرے گا اور یہ بات اسلام آبادکے لیے قابلِ قبول نہ ہو گی۔ اس کے علاوہ اگر امریکی اور یورپی ممالک نے افغانستان کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا، جس کا خدشہ پیدا ہو چلا ہے تو اس کی معیشت دم توڑ جائے گی اور وہ صورتِ حال انتہائی نازک ہو گی۔ بھارت اس سے فائدہ اٹھا کر سرمایہ کاری کرے گا جبکہ پاکستان اسے باز رکھنے کی کوشش میں ہو گا۔ اگر ایسا ہوا تو ماضی کو دہرانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ 
بہرحال رواں سال اس خطے کے لیے بہت سے امکانات بھی لا رہا ہے۔ پاکستان میں نئی سیاسی اور فوجی قیادت ہے جبکہ بھارت اور افغانستان میں یہی کچھ ہونے جا رہا ہے۔ اس سے یہ تینوں ہمسایہ ممالک ایک نئے سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت ایسا کرنا چاہتی ہے لیکن کیا یہ طالبان کے پیدا کردہ مسائل پر قابو پا سکے گی؟ فی الحال کابل میں غیریقینی حالات کی گرد چھائی ہوئی ہے اور امریکی انتظامیہ کو بھی اس کا مکمل ادراک نہیں کہ انخلا کے بعد وہاں کیا ہونے والا ہے۔ امریکی افغانستان میں تیرہ سال گزارنے کے بعد روانہ ہو رہے ہیں لیکن وہ اس ملک کے مستقبل سے لاعلم ہیں۔ اب وہ فتح یا تعمیر نو کی بات نہیں کر رہے، بس وہ یہاںسے نکلنا چاہتے ہیں۔ آج سے ایک عشرہ قبل کوئی اس صورتِ حال کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں