حیات بعد از موت

ایک ایسے وقت جب امریکی گرجا گھروں کی حاضری کم ہو رہی ہے‘ مذہب اور ریاست آئینی لحاظ سے الگ تھلگ ہیں‘ سپریم کورٹ نے ہم جنسی کی شادی کو درست قرار دے دیا ہے‘ دو افراد شہری حقوق کے نام پر سرکاری رازوں کے افشا کی بنا پر قانون کی زدمیں ہیں۔ دہرئیے منظم ہو رہے ہیں اور لادینیت کو نئے مذہب کے طور پر روشناس کرا رہے ہیں ۔ذہنی امراض کے ایک جراح (Eben Alexander) نے 196 صفحات کی کتاب شائع کی ہے جو مسلسل تین ماہ نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کے ہفتہ وار چارٹوں کے مطابق سب سے زیادہ فروخت ہونے والی غیر افسانوی دس کتابوں میں سر فہرست رہی ہے کتاب کا نام۔ Proof of Heaven: A Neurosurgeon\'s Journey into the Afterlife‘ قریب المرگ اور حیات بعد موت کے تجربات پر امریکہ اور باقی دنیا میں لاکھوں کتابیں چھپ کر ہاتھوں ہاتھ بک چکی ہیں مگر ایک سائنسدان کی لکھی ہوئی یہ پہلی کتاب ہے جو میری نظر سے گزری ہے ۔زندگی اور موت کے درمیان ایک خط ہے جس نے یہ خط پار کیا وہ آپ بیتی سنانے کے لئے کبھی واپس نہیں آیا ۔ڈاکٹر الیگزنڈر کہتے ہیں کہ مر کر انہوں نے خدا کو پا لیا ہے اور وہ یہ بتانے کے لئے حاضر ہیں کہ مرنے کے بعد انسان پر کیا گزرتی ہے؟ ڈاکٹر رے منڈ موڈی‘ ایم ڈی‘ پی ایچ ڈی مصنفLife after Life کہتے ہیں کہ جب سے انہوں نے اس مظہر کا مطالعہ شروع کیا ان چار عشروں میں ڈاکٹر الیگزنڈر کے بیانئے سے زیادہ حیرتناک بیان ان کی نظر سے نہیں گزرا ۔وہ اپنے دعوے کا زندہ ثبوت ہیں ۔ ہزاروں لوگ قریب المرگ ہونے کے تجربات بیان کرتے ہیں اور سا ئنسدان انہیں نا ممکن گردانتے ہیں ۔ڈاکٹر الیگزنڈر جو میرے گھر سے کوئی پچاس میل جنوب میں پریکٹس کرتے ہیں ان سائنسدانوں میں شامل تھے ۔ذہنی امراض کے ماہر کو معلوم تھا کہ قریب المرگ لوگ ایسے حقائق دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں جو در اصل توہمات ہیں جو شدید دباؤ کے تحت انسان کا ذہن تیار کرتا ہے ۔ تب ڈاکٹر الیگزنڈر کے اپنے ذہن پر ایک نادر بیماری کا حملہ ہوا ۔ ذہن کا وہ حصہ جو خیالات اور جذبات کو کنٹرول کرتا ہے اور حقیقت میں ہمیں انسان بناتاہے کلیتاً بند ہو گیا۔سات دن وہ سکتے کی حالت میں پڑے رہے ۔جب ان کے معالج‘ علاج معالجہ ختم کرنے کا سوچ رہے تھے ڈاکٹر ا لیگزنڈر نے آنکھیں کھول دیں۔ ’’وہ واپس آگئے تھے‘‘۔ ڈاکٹر الیگزنڈر کی صحت یابی کو ایک طبی معجزے کا نام دیا گیا لیکن ان کی کہانی کا اصل معجزہ کہیں اور ہے ۔جب ان کا جسم سکتے کی حالت میں پڑا تھا وہ اس دنیا سے آگے کا سفر کر رہے تھے ۔انہیں ایک فرشتہ نما ہستی کا سامنا ہوا جو انہیں ما بعد الطبیات کی اتھاہ گہرایوں میں لے گیا۔ وہاں وہ کائنات کے الوہی منبع سے ملے اور اس سے باتیں کیں۔ وہ اپنے پروردگار سے ملاپ کی بات کر رہے ہیں ۔ان کی کہانی کو خیالی یا افسانوی نہیں سمجھا گیا ۔ آسمانی سفر اختیار کرنے سے پہلے وہ ذہنی امراض سے متعلق اپنے سائنسی علم اور تجربے کو جنت‘ خدا اور روح سے مطابقت پیدا کرنے سے قاصر تھے بہ الفاظ دیگرے وہ بھی اپنے لاکھوں ہم وطنوں کی طرح دہریے تھے۔آج الیگزنڈر ایک ایسے ڈاکٹر ہیں جن کا ایمان ہے کہ سچی صحت صرف اسی صورت میں حاصل کی جا سکتی ہے جب ہم یہ احساس کریں کہ خدا اور روح‘ حقیقت ہیں اور یہ کہ موت موجودہ وجود کا خاتمہ نہیں بلکہ صرف ایک تبدیلی ہے۔ صوفیائے کرام نے موت کو عرس کہا ہے جو مالک ِحقیقی سے ملاپ کے مترادف ہے ۔ ڈاکٹر سکاٹ ویڈ (Scot Wade ) جو لنچ برگ‘ ورجینیا کے اسپتال میں ڈاکٹر الیگزنڈر کے معالج تھے خدا کے وجود کی بحث میں نہیں پڑے مگر انہوں نے اپنے مریض سے متعلق طبی حقائق من و عن پیش کر دئے ہیں ۔اپنے مختصر بیان میں جو کتاب میں شامل کر دیا گیا وہ کہتے ہیں : دس نومبر 2008 ء کو جب الیگزنڈر اسپتال لائے گئے تو متعدی امراض کے ماہر کی حیثیت سے میں نے ان کا معا ئنہ کیا ۔پایا گیا کہ وہ bacterial meningitis میں مبتلا ہیں ۔ ریڑھ کی ہڈی سے پانی لینے پر تصدیق ہو گئی کہ جرثومہ E-Coli ہے ۔ان کے مرض کے ’ ’جارحانہ‘‘ علاج کے باوجود وہ چھ دن سکتے کی حالت میں رہے ۔اس مرض سے مرنے کی شرح ستانوے فیصد ہے ۔بحالی کی امیدیں معدوم ہو گئیں ۔ساتویں دن انہوں نے آنکھیں کھولیں اور ہو شیار ہوئے اور تیزی سے انہیں مشین ventilator سے ہٹا دیا گیا ۔یہ حقیقت کہ وہ تقریباً ایک ہفتہ سکتے کی حالت میں رہنے کے با وجود اس بیماری سے بتدریج صحت یاب ہو گئے صحیح معنوں میں غور طلب ہے ۔ ڈاکٹر الیگزنڈر‘ امریکی فضائیہ کے ایک سرجن کے بیٹے‘ تین بہنوں کے بھائی‘ ایک بیوی کے شوہر اور دو جواں سال بچوں کے باپ ہیں ۔بیماری کے دنوں میں ڈاکٹر کا بیشتر خاندان ان کی تیمار داری میں مصروف رہا ۔ وہ اپنے سکتے پر عزیز و اقارب کا رد عمل بھی پیش کرتے ہیں ۔مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ ایک بہن نے دوسری کو بھائی کے سرہانے ان کی موت کے اندیشے کا ذکر نہ کرنے کو کہا۔ بیوی نے ایک متجسس معالج کو بتایا کہ علالت سے پہلے ان کے خاوند اپنے کام کے سلسلے میں اسرائیل گئے تھے اور اس ڈاکٹر نے پتہ چلایا کہ اُن دنوں ایک مریض تل ابیب کے ایک اسپتال ایسی ہی علامات کے ساتھ لایا گیا تھا جو جانبر نہیں ہوا تھا۔ بہ الفاظ دیگر‘ ان کے جسم نے ایک ایسے جرثومے کی تخلیق میں لیبارٹری کا کام دیا جو آبادی میں داخل ہو کر اس بلیک پلیگ کا حریف ہو سکتا تھا جس نے چودھویں صدی میں آدھے یورپ کا صفایا کر دیا ۔ بادلوں کے اوپر لا متناہی گہرائیوں میں ڈاکٹر الیگزنڈر نے پاس سے گزرنے والے شفاف جسداور چمکتے وجود دیکھے ۔کیا وہ پرندے تھے یا فرشتے ؟ جب وہ لکھنے بیٹھے تو یاد آیا کہ ایسا کوئی بیان ان سے نا انصافی ہوگا ۔زمین پر میں نے جو کچھ دیکھا وہ اس سے مختلف تھے۔ ’’جہاں اب میں تھا وہاں دیکھنا اور سننا الگ الگ نہیں تھا‘‘۔ میں نے بار بار یہ سوال کئے ۔یہ جگہ کہاں ہے ؟ میں کون ہوں؟ میں یہاں کیوں ہوں ؟ جب بھی میں نے یہ سوال کیا مجھے فی البدیہہ جواب ملا روشنی‘ نور‘ رنگ‘ محبت اور حسن کی ایک لہر کی صورت میں جو تیزی سے میرے جسم سے گزر گئی ۔ ڈاکٹر الیگزنڈر کا‘ جن کی طبی تربیت میں ہارورڈ بھی شامل ہے‘ بیان پیشہ ورانہ اصطلاحات سے پُر ہے جنہیں یہاں نقل کرنا آسان نہیں مگر ان کا یہ کہنا قابل فہم ہے کہ قریب المرگ ہونے کے میرے تجربات ایک طوفان کی مانند ہیں۔ میں ایک باعمل نیورو سرجن کی حیثیت سے جو عشروں کی ریسرچ اور آپریشن تھیٹر میں ہاتھ سے کام کے پس منظر کا حامل ہے‘ نہ صرف حقیقت بلکہ اس کے مضمرات کا اندازہ کرنے میں ایک عام آدمی سے زیا دہ بہتر پوزیشن میں ہوں۔ میں ان مضمرات کے بیان سے قاصر ہوں۔ میرے تجربات نے مجھے دکھایا کہ جسم اور دماغ کی موت‘ شعور کے خاتمے کے مترادف نہیں اور یہ کہ انسانی تجربہ قبر سے آگے تک جاتا ہے ۔زیادہ اہم یہ کہ یہ تجربہ ایک ایسے خدا کی نگہداشت gaze میں جاری رہتا ہے جو ہم میں سے ہر ایک سے محبت کرتا اور ہر کسی کی دیکھ بھال کرتا ہے اور جس میں خود کائنات اور اس کے اندر ہر وجود کو بالا خر ضم ہو نا ہے۔ میں جس جگہ گیا وہ حقیقی تھی ۔حقیقی ان معنوں میں جو زندگی کو جنم دیتے ہیں اور جسے ہم یہاں گزارتے ہیں اور موازنے میں جو خواب کی طرح لگتی ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں زندگی کی قدر نہیں کرتا۔ فی الحقیقت میں پہلے سے زیادہ اس کی قدر کرتا ہوں کیونکہ اب میں اسے سچے سیاق و سباق میں دیکھتا ہوں ۔ ’’ پس میں آپ کے سامنے ہوں ۔میں اب بھی سائنسدان ہوں‘ میں اب بھی ڈاکٹر ہوں اور اس طرح میرے دو ضروری فرائض ہیں۔ صداقت کا احترام اور شفایابی میں امداد‘ اس کا مطلب ہے اپنی کہانی بیان کرنا‘ جوں جوں وقت گزرتا ہے مجھے یقین ہوتا جاتا ہے کہ اس واردات کے اسباب تھے ۔اس لئے نہیں کہ میں کوئی خاص الخاص ہوں ۔بس یہ میرے ساتھ ہے ۔ دو واقعات نے جو ہم آہنگی میں اور ایک ساتھ رونما ہوئے مل کر دنیا کو یہ بتانے کی آخری سائنسی کوشش کی کمر توڑ دی کہ ہر شے وجودی ہے اور یہ کہ شعور یا روح‘آپ کی یا میری‘ کائنات کا مرکزی اسرار نہیں۔ میں زندہ ثبوت ہوں‘‘ ۔ ڈاکٹر الیگزنڈر نے جو اب 59 کے پیٹے میں ہیں ETERNEA.orgکے نام سے ایک ویب سائٹ بھی قا ئم کی ہے۔ وہ آپ سے اپیل کرتے ہیں کہ آپ اپنی روحانی بیداری کو بڑھاوا دینے کے لئے اسے وزٹ کریں۔ اٹرنا‘ سائنسدانوں‘ تحقیق کرنے والوں‘ دینیات کے ماہروں اور مسند ارشاد پر فائز لوگوں کو مفید معلومات مہیا کرنے کا وعدہ کرتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں