اسلامی شریعت کے خلاف ایک امریکی تحریک

2008ء کی بات ہے ۔نیو جرسی کی ایک عورت نے شوہر پر الزام لگایا کہ وہ اسے مجرمانہ حملوں اور تشدد کا نشانہ بناتا ہے اس لئے ایک حکم امتناعی restraining order کے ذریعے اسے میرے قریب آنے سے روک دیا جائے۔ خاوند اکثر ایسے الزامات کا دفاع نہیں کر پاتے اورامریکی جج اس قسم کے احکامات آئے دن جاری کرتے رہتے ہیں۔ اس کیس کا مدعا علیہ عدالت میں پیش ہوا اور اس نے یہ صفائی پیش کی کہ میں بفضل خدا مسلمان ہوں اور میرا دین مجھے اپنی منکوحہ کے پاس جانے اور انکار کی صورت میں اس کو سزا دینے کا حق دیتا ہے ۔جج نے عورت کی درخواست رد کردی ۔وہ اپیل میں گئی تو اپیلٹ کورٹ نے اس کا موقف درست تسلیم کیا اور مطلوبہ حکم جاری کر دیا۔ اس پر امریکہ میں وہ تحریک شروع ہوئی جسے Anti-Shariah Movement کہا جاتا ہے اور جو مبہم انداز میں آگے بڑھ رہی ہے ۔حال ہی میں جب ریاست اوکلاہوما کے رائے دہندگان نے یہ بل منظور کیا جس میں ریاستی عدالتوں کو اسلامی قانون یا شریعت کو ملحوظ رکھنے سے منع کیا گیا تھا تو کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز CAIRنے قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کیا اور وہ جیت گئی مگر چند ماہ بعد جب ریاست کی گورنر میری فالن نے اس سے ملتے جلتے ایک قانون پر دستخط کئے تو اس کے خلاف کوئی چارہ جوئی نہیں ہوئی ۔ یہ تبدیلی کیوں؟ اس لئے کہ پرانے قانون میں شریعت کو چُن کر نشانہ بنایا گیا تھا اور کیتھولک‘ یہود اور ہنود کے ایسے عائلی قوانین بھی جو ان کے گھریلو تنازعات میں مد نظر رکھے جاتے ہیں متاثر ہو سکتے تھے۔ بہت سے شرع مخالف قوانین میں بین الاقوامی یا غیر ملکی قانون کے حوالے بھی تھے جو امریکی بزنس سیکٹر کو پریشان کر رہے تھے اس لئے کہ نئے بل کاروباری معاہدوں اور غیر ملکی کمپنیوں سے تجارت پر اثر انداز ہوں گے ۔ تاہم نئے بل زیادہ مبہم ہیں ۔ وہ غیر ملکی قوانین کا ذکر تو کرتے ہیں شریعت یا اسلام کاحوالہ نہیں دیتے ۔ وہ بین الا قوامی تجارت کو بھی استثنا دیتے ہیں ۔ یہ سب اقدامات نئے بلوں کو مذہبی آزادی کے آئینی تصور کی خلاف ورزی کے الزام سے بچاتے ہیں۔ وصیت کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ خواہ حنفی مسلک کے مطابق ہو یا جعفری فقہ کے‘ اسے امریکی قوانین کا تحفظ حا صل ہے ۔ عبارت میں تبدیلی سے بظاہر ان بلوں کو تحفظ ملا ہے اور وہ کئی ریاستوں میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔گو نئے بل اسلامی قانون کو بطور خاص نشانہ نہیں بناتے‘ عام طور پر باور کیا جاتاہے کہ ان کا ہدف اسلامی شریعت ہی ہے اور مذہب کے مخالف قانون ساز اس کی پردہ پوشی بھی ضروری خیال نہیں کرتے ۔ کیر کے قانون سازی کے امور کے ڈائریکٹر کوری سیلر نے کہا: ان قوانین کا کوئی حقیقی اثر نہیں ۔ ان کا مقصد اسلام کو رسوا کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔امیریکن سول لبرٹیز یونین ACLU بھی مذاہب کو قانون سازی کا ہدف بنانے کی مخالف ہے ۔آئین کی علمبردار ہمہ گیر تنظیم کے ایک ترجمان ڈینئیل ماک نے اگلے دنوں واشنگٹن میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ نئی عبارت کے ان قوانین کی منظوری میں ریا کاری اور اسلام دشمنی کا ہاتھ ہے ۔ان اقدامات کی حمایت میں مظاہرے کرنے والے اسلام کو دشمن کا چہرہ سمجھتے ہیں ۔ اوکلا ہوما‘ پو شیدہ طور پر اینٹی شریعت بل پاس کرنے والی چھٹی ریاست ہے اس سے پہلے اری زونا‘ کنسس‘ لوزی آنا‘ ساؤتھ ڈکوٹا اور ٹینی سی ایسے قوانین منظور کر چکی ہیں۔ یہ سب قوانین‘ ریاستی ججوں کو کسی بیرونی قانون یا رولنگ کا پاس کرنے کی ممانعت کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں میں بعض استثنا قبول کرتے ہیں ۔اس سال پندرہ ریاستوں میں کم از کم 36 ایسے قوانین تجویز کئے گئے ہیں جو بیرونی قوانین کو رد کرتے ہیں ۔تاہم یہ بل سال گزشتہ کی نسبت کم ہیں ۔فلوریڈا میں ایسا ایک بل ریاستی اسمبلی کے سامنے پیش ہوا جس کی منظوری کے لئے دو تہائی ووٹ درکار تھے ۔ یہ بل ایک ووٹ کی کمی کے باعث پاس نہ ہو سکا ۔ان نقصانات کے باوجود‘ ڈیوڈ یوروشلمی کہتے ہیں کہ خلاف شریعت تحریک روز بروز پھیل رہی ہے اور عنقریب مزید ریاستیں ایسے قوانین منظور کریں گی۔ وہ واشنگٹن میں وکالت کرتے ہیں اور نمونے کے بل کے مصنف سمجھے جاتے ہیں ۔ مگر کیر کے سیلر کا کہنا ہے کہ اینٹی شریعت طاقتوں کی فتح ایک واہمہ بنے گی کیونکہ وہ امریکی مسلمانوں کے مذہبی حقوق پر قدغن لگانے میں ناکام رہی ہے ۔ با ایں ہمہ کچھ مبصرین کو اندیشہ ہے کہ ان نرم قوانین کی تشریح بھی ایسے انداز میں کی جا سکتی ہے جو مسلمانوں کے حقوق پر مار کرے گی ۔نیو یارک یونیورسٹی کے شعبہ قانون کی فیضہ پٹیل نے کہا گو نئے قوانین‘ کالعدم اینٹی شریعت اقدامات کی طرح مذہبی آزادی پر سامنے سے حملہ کرنے کے مترادف تو نہیں مگر وہ اب بھی اقلیتی عقیدوں کے خلاف عصبیت کے خدشات پیدا کر سکتے ہیں ۔ یہ مسلمان اور یہودی جوڑوں کو بہت سے فائدوں سے محروم کر سکتے ہیں:مثلاً ٹیکس کی کم تر شرحیں‘غیر ملکی ساتھیوں کے لئے ترک وطن کی سہولتیں اور ہنگامی طبی حالات میں ایک دوسرے کے بارے میں زندگی اور موت کے فیصلوں کا اختیار‘ یہ اندیشہ کیر کو بھی ہے ۔سیلر نے کہا: اگر کسی نے ایک فرد کے مذہبی حقوق کی سلبی کے لئے ان قوانین کی تشریح و تاویل کی کوشش کی تو ہماری قانونی راہیں کھلی ہوں گی ۔ نیشول ٹینی سی کے رک وامک Rick Womick تحریک خلاف شریعت کے روح و رواں ہیں ۔ان کے بقول اسلام ’’ایک سیاسی اور قانونی نظام ہے جو دنیا پر غلبہ پانے کا عزم رکھتا ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم قانون کی حکمرانی قبول کرتے ہیں کسی شخص یا مذہبی راہنما کی نہیں‘‘۔ ڈیوڈ یوروشلمی نے کہا۔ شریعت‘ مغرب کے خلاف جہاد کا سر چشمہ ہے جو قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے ۔ ’’جو عورتوں کو کوڑے لگانے اور انہیں سنگسار کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘ ان کا نعرہ ہے ۔امریکی قانون‘ امریکی عدالتیں۔ اسلامک سنٹرآف نارتھ امریکہ ICNA نے اسلام دشمنی کے خلاف ایک ملک گیر مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت شہر شہر بل بورڈ لگائے جائیں گے‘ ڈاک کے ذریعے وضاحتی لٹریچر ارسال کیا جائے گا اور جلسے ہوں گے ۔ پاکستان‘ عربستان اور مسلم اکثریت کے بیشتر ملکوں میں مشروط اور غیر مشروط طور پر ایک سے زیادہ شادیاں کی جاتی ہیں ۔امریکہ میں تعدد ازواج ‘ جرم ہے مگر برضا و رغبت ایک بالغ کا دوسرے بالغ کے ساتھ خلوت میں جا نا اس جرم کی سنگینی کم کرتا ہے ۔ایک معروف امریکی کمیونٹی‘ مورمن‘ تعدد ازواج پر یقین رکھتی تھی مگر گزشتہ صدی کے شروع میں اس نے بھی یہ رواج ختم کر دیا۔ سال 2012ء میں اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیت مٹ رومنی نے جو ایک ریاست کے گورنر بھی رہے ہیں‘ ر یپبلکن ٹکٹ پر صدر اوباما کا ناکام مقابلہ کیا تھا۔ اس کمیونٹی کے لوگ جو اب تک اساسی عقیدے کو مانتے ہوئے دوسری اور تیسری شادی کرتے ہیں تو خبر کا موضوع بنتے ہیں ۔خلیج فارس کے بیشتر عرب ملکوں سے امریکہ کے تعلقات خوشگوار ہیں مگر ان کے عہدیدار بھی اس قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور جب واشنگٹن یا نیویارک کے دورے پر آتے ہیں تو ایک سے زیادہ بیویاں ساتھ نہیں لا تے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں