سبق آموز حادثہ

بی بی سی لا ہور کے عارف وقار واشنگٹن میں تھے۔ میری‘ فورڈ ونڈ سٹار کو دیکھ کر بولے ۔ارے یہ تو وہی گاڑی ہے جس پر دو سال پہلے میں سوار ہوا تھا ۔کیا آپ نے گاڑی نہیں بدلی؟ میں نے جواب دیا ۔بچوں سے کہا تھا کہ میرے ساتھ چلو تو کوئی ہلکی گاڑی لے لیں ۔وہ ٹال مٹول کرتے رہے اور بالآخر سب سے بڑے بیٹے نے بتایا کہ اس نے باقی دو سے صلاح مشورہ کیا تھا اور ان میں یہ طے پایا تھا کہ ابا اسی گاڑی میں زیادہ محفو ظ ہوں گے اس لئے جب تک پرانی وین چل رہی ہے نئی گاڑی خریدنے کی ضرورت نہیں ۔ ایک چینی ریستوران میں دوپہر کے کھانے اور لاہور کی یادیں تازہ کرنے کے بعد جب میں عارف کو ان کی رہائش گاہ پر چھوڑنے جا رہا تھا تو ٹیلیگراف روڈ پر وہ حادثہ پیش آیا جس کا خطرہ بچوں نے ظاہر کیا تھا۔ ہم دونوں محفوظ رہے۔ وین کے پچھلے بمپرکو معمولی نقصان ہوا مگر پیچھے آنے والی دو نئی نویلی گاڑیاں ’’ ٹوٹل‘‘ ہو گئیں ۔عارف بولے ۔ یہ تو وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا ۔ پاکستان کی سڑکوں پر اس قسم کے حادثے بکثرت ہوتے ہیں۔ اس ذاتی حادثے کی تفصیل درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی ڈرا ئیور‘ انشورنس کمپنیاں اور متعلقہ سر کاری حکام اس میں مضمر اسباق سے شاید استفادہ کریں اور وہ مناظر اور واقعات دیکھنے میں نہ آئیں جو ایسے حادثات کے بعد اکثر سڑکوں پر دیکھے جاتے ہیں ۔یہ کھڑی کا روں اور بسوں کو آگ لگا کر اور ٹائر جلا کر راستے مسدود کرکے احتجاج کرنے کی بات نہیں ۔ جیسا کہ ڈرائیونگ لائسنس کی شرائط کا تقا ضا تھا ہم تینوں نے اپنی گاڑیاں بائیں جانب سڑک سے ہٹ کر روک لیں۔ دو چھوٹی گاڑیاں تو چلنے کے قابل بھی نہیں رہی تھیں اور ان کے ڈرائیور اپنے اپنے سیل فون نکال کر پولیس یا انشورنس سے باتیں کر رہے تھے اور میں گرمی کی شدت سے نڈھال ہو رہا تھا ۔عارف نے کہا ۔اب تک ایسے طنزیہ جملے سنائی نہیں دئے۔ ’’دیکھ کر گاڑی نہیں چلاتے… اندھے ہو گئے ہو کیا ؟ دھینگا مشتی کی نوبت بھی نہیں آئی‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’دھینگا مشتی کی کیا ضرورت ہے حکام جو فیصلہ کریں گے سب کو قبول ہوگا‘‘۔ مجھے ا طمینان تھا کہ سارا قصور میرے پیچھے آنے والے ڈرائیور کا ہے جس نے دس گز کا مطلوبہ فاصلہ بر قرار نہ رکھا اور جب میں نے آگے چلنے والے ڈرائیور کو بچانے کے لئے بریک لگائی تو وہ مجھ سے ٹکرا گیا اور اس کے پیچھے آنے والا ڈرائیور اس کی گاڑی کی پشت سے متصادم ہوا۔ میں نے ان کے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا اور انہوں نے استفسار کیا کہ مجھے کوئی چوٹ تو نہیں آئی ۔ ایسے حادثات میں جھٹکے کی چوٹ جسے whiplash کہا جاتا ہے ضرور لگتی ہے اور ڈرائیور عام طور پر جائے حادثہ سے اسپتال کا رخ کرتے ہیں ۔میں نے کہا ۔ مجھے کوئی چوٹ نہیں لگی مگر میں بہت تھک گیا ہوں ۔مہمان کو چھوڑ کر واپس آجاتا ہوں۔ میں نے دونوں ڈرائیوروں سے انشورنس انفرمیشن حاصل کر لی تھی ۔اپنی انفرمیشن ڈرائیور نمبر دو کے حوالے کرکے میں وہاں سے چل دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ ٹریفک کے حادثے میں کوئی زخمی نہ ہو تو پولیس مداخلت نہیں کرتی اور نقصان رسیدہ ڈرائیوروں کو انشورنس سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتی ہے ۔ ایک گرم دن گزرنے کو تھا اور مجھ پر تھکن کا غلبہ تھا اس لئے میں نے عارف کو چھوڑ کر گھر کا راستہ لیا۔ اگلا دن سنیچر تھا۔ میں نے اپنی انشورنس کمپنی کو فون کیا اور حادثے کے بارے میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا ۔کمپنی نے کہا کہ ہمارے ریکارڈ کے مطابق چونکہ آپ کی گاڑی صرف liability کے بیمے کی حامل ہے اس لئے ہم آپ کی امداد نہیں کر سکتے البتہ آپ اپنے نقصان کے ازالے کے لئے دوسرے ڈرائیور کی انشورنس سے بات کر سکتے ہیں ۔ حادثے کے تیسرے دن میں نے ڈرائیور نمبر دو کی انشورنس کو فون کیا تو میرے اس قیافے کی تصدیق ہو گئی کہ وہ یوایس آرمی میں سارجنٹ تھا اور اس کے پیچھے آنے والا ڈرائیور بھی امریکی فوج کا سپاہی تھا ۔ان کی انشورنس ایک ایسی کمپنی سے تھی جو صرف فوج کے ملازمین کو بیمہ فروخت کرتی ہے ۔دونوں نے حادثے کی تفصیلات بلا کم و کاست بیان کر دی تھیں گویا دونوں نے اپنا اپنا قصور تسلیم کیا تھا۔ انہوں نے سہ پہر کے رش آور کے دوران 35 میل فی گھنٹہ کی سڑک پر اگلے ڈرائیور سے ضروری فاصلہ برقرار نہیں رکھا تھا اور میرے اچانک رکنے سے اس multiple حادثے میں ملوث ہوئے تھے ۔ انشورنس کمپنی نے یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ میری وین چل سکتی ہے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنے نقصان کے تخمینے کے لئے گاڑی علاقے کی ایک ورک شاپ پر لے جاؤں ۔پیر کی صبح میں گیراج پر گیا تو ایک مکینک نے گاڑی کا بغور معا ئنہ کیا۔ اس نے اپنے کیمرے سے گاڑی با لخصوص اس کے rear bumper کی تصویریں اتاریں ۔اس میں دو تازہ سوراخ صاف دیکھے جا سکتے تھے مگر اس کی ایک جانب پہلے سے ایک حادثے کا نشان تھا جو گاڑی کو گھر کے گیراج سے نکالتے وقت خود مجھ سے لگاتھا ۔اس نے پوچھا تو میں نے بتایا کہ بمپر پہلے بھی ایک حادثے کا شکار ہوا ہے مگر ہو سکتا ہے کہ تازہ حادثہ اس پر اثر انداز ہوا ہو اور ضرب اندر تک گئی ہو ۔اس نے کہا کہ سارا بمپر بدلا جائے گا اور اندرونی نقصان کا ا ندازہ بمپر کے کھلنے پر ہو گا مگر سارا خرچ دوسرے فریق کی انشورنس کمپنی ادا کرے گی۔ اس نے کمپیوٹر پر دو صفحے کا estimate بنایا۔ ایک کاپی مجھے دی اور ایک انشورنس والوں کو بھجوا دی۔ اُس کے اندازے کے مطابق وہ گاڑی کی مرمت 172 ڈالر میں کر سکتا تھا ۔اس نے کہا کہ آپ Paperwork پر دستخط کر جائیں‘ کمپنی کی منظوری آنے پر ہم آپ کو اطلاع د یں گے ۔ پیر کے دن میں نے انشورنس کمپنی کوفون کیا تو ایک خاتون نے جواب دیا کہ آپ کا کیس Finalize ہو چکا ہے اور دو دن کے اندر ایک چیک آپ کے پتے پر آ جائے گا ۔ ٹھیک دو دن بعد 172ڈالر کا چیک ڈاک میں آ پہنچا۔ اب میں آزاد تھا چیک کو اپنے بنک میں جمع کرا کر گاڑی کو اسی حالت میں چلاتا رہوں یا ورک شاپ جا کر اس کی مرمت کراؤں ۔میں نے دوسرا راستہ اختیا ر کیا۔ ورک شاپ کو اطلاع دی اور پوچھا کہ گاڑی کب لا ؤں؟ خاتون نے جواب دیا ۔ کل صبح اور ہو سکتا ہے کہ گاڑی ایک رات کے لئے یہاں چھوڑنی پڑے ۔میں نے کہا ۔میرے گھر میں دوسرا ڈرائیور نہیں ہے جو میرے ساتھ آئے اور مجھے گاڑی آپ کے ہاں چھوڑنے کے بعد واپس لا سکے ۔ خاتون نے کہا ۔ہم انشورنس کے خرچ پر ایک گاڑی کرائے پر حاصل کر سکتے ہیں جو آپ کی گاڑی درست ہونے تک آپ کے پاس رہے گی ۔ میں اپنی وین کو ورک شاپ لے گیا۔اتنے میں ایک کار رینٹل کمپنی کا باوردی کارکن آ پہنچا اور اس نے مجھے کمپنی کے علاقائی دفتر پہنچایا جو میرے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا ۔کلرک خاتون مجھ سے پہلے آئے ہوئے گاہکوں کو نبٹا رہی تھی ۔میری باری آنے پر اس نے پوچھا کہ آپ کون سی گاڑی چلائیں گے ؟ میں نے جواب دیا کہ مجھے صرف گھر جانا ہے اور اس کے لئے میں مقامی بس یا ٹیکسی لے سکتا ہوں ۔اس نے پیپر ورک تلف کیا اور بولی۔ہمارا ایک ڈرائیور باہرجا رہا ہے ۔وہ آپ کو گھر پہنچا دے گا اور اس کے لئے کوئی چارج نہیں ہو گا ۔اگلے دن ورک شاپ کی خاتون نے گاڑی کا کام مکمل ہونے کی اطلاع دی تو میں نے پھر اپنی مشکل بیان کی ۔اس نے کہا ۔میرا مینیجر آپ کو گیراج تک لے آئے گا ۔آپ 172 ڈالر دے کر اپنی گاڑی لے جائیے گا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں