یہ ملاقات ہی رکاوٹ توڑ کامیابی ہے

چند سال پہلے میں بھارت میں تھا۔ آگرہ سے نئی دہلی واپس آتے ہوئے سیاحوں کی بس نے بڑی سڑک کو چھوڑا اور دایاں موڑ مڑ کر متھرا کا رخ کیا ۔موڑ سے ایک آدمی بس پر سوار ہوا تھا ۔اس نے مائیک سنبھالا اور یاتریوں سے خطاب کرنا شروع کیا ۔وہ کہہ رہا تھا کہ جمنا کے تٹ (کنارے) پر سڑک کے دا ئیں بائیں جو مندر آپ دیکھ رہے ہیں‘ ان سب کی دیکھ بھال نریندرا مودی کرتے ہیں۔ بھگوان کرشن کے جنم استھان کی یاترا کو جانے والے کچھ مسافروں نے اس کے بیان پر اعتراض کیا اور کہا کہ وہ انہیں بھارت ورش کا بدلا ہوا اتہاس پڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسرے کئی مسافروں کی طرح میرا اس جھگڑے سے دور رہنا ہی بہتر تھا مگر میں سوچنے لگا کہ گجرات کے وزیراعلیٰ نے تعلقات عامہ کے کارکن سارے ملک میں پھیلا رکھے ہیں اور اس مہم کے بل پر وہ بھارت پر راج کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اتوار کی صبح نیو یارک میں جب بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور ان کے پاکستانی ہم منصب نواز شریف بات چیت کررہے تھے نریندرا مودی‘ ملک کے آئندہ وزیر اعظم کا یہی خواب آنکھوں میں لئے نئی دہلی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نئے لیڈر نے طنزاً اپنے سیا سی حریف کانگرسی اتحاد کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کا دفاع کیا اور کہا کہ ’’نواز شریف نے (مبینہ طور پر)انہیں اس دیہاتی عورت سے تشبیہ دے کر ہندوستان کی توہین کی ہے جو وائٹ ہاؤس جا کر صدر اوباما سے ان کے خلاف شکایتیں کرتی ہے ہندوستان کے پردھان منتری کا اس سے زیادہ اپمان (بے عزتی) نہیں ہو سکتا‘‘۔ اگلے سال کے وسط میں بھارت میں جو عام انتخابات ہوں گے ان میں منموہن سنگھ نہیں نہرو خانوادے کے ایک تازہ دم لیڈر راہول گاندھی اس اتحاد کی قیادت کریں گے ۔ وزیر اعظم کون بنتا ہے ؟ یہ تو ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے مگر نواز شریف دائیں بازو کی جس پارٹی سے بات کرنے کا عملی تجربہ رکھتے ہیں وہ بی جے پی ہی تھی جس کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے چودہ سال پہلے لاہور کا سفر کیا تھا اور امن کی بنیاد رکھی تھی ۔منموہن سنگھ جا رہے ہیں اور نواز شریف آ گئے ہیں اور ان کے ہاتھ میں رائے دہندگان کا دیا ہوا اختیار نامہ ہے ۔ ہندوستان اور پاکستان تین جنگیں لڑ چکے ہیں جن سے کوئی باہمی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ دیہاتی عورت (تردید کے باوجود) سرحد کے دونوں جانب شکایات کا پٹارا کھولے بیٹھی ہے اور اسی کی حالت بہتر بنانے کے لئے وہ ایک پائیدار امن کی تلاش میں ہیں ۔بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے درست کہا کہ مذاکرات کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا اور لیڈروں کی ایک گھنٹہ کی میٹنگ کے بعد سلامتی کے مشیر شو شنکر مینن کو کہنا پڑا کہ سرحد پر کشیدگی اور دہشت گردی کے مسائل حل کرکے بات آگے بڑھائی جا سکتی ہے ۔مینن نے گو اس خیال سے اتفاق نہیں کیا کہ اس ملا قات پر الیکشن سایہ فگن ہے اور یاد دلایا کہ واجپائی کو بھی ایسے انتخابات کا سامنا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ سیاستدانوں سے سیاست کی توقع نہ کرنا بھی غیر فطری ہے ۔منموہن سنگھ کی جانب سے جموں و کشمیر کے مسئلے کے حل کی خواہش اور پھر ریاست کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنا تضاد بیانی ہے؛ تاہم وطن واپسی پر ان کا یہ ٹویٹ کہ نواز شریف ایک ہمسایہ ملک کے جمہوری طور پر منتخب لیڈر ہیں اور انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کے بارے ساری درست باتیں کہہ دی ہیں‘ اس ملاقات پر بہترین تبصرہ کہلاسکتا ہے ۔ نواز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مسئلے کے حل پر زور اور امریکہ سے ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ محل نظر ہے کیونکہ پاکستان نے مصلحتاً یہ دونوں مسائل پس پشت ڈال رکھے ہیں ۔اسی طرح مینن کا یہ بیان کہ بھارت میں دہشت گردی کا کوئی اڈہ نہیں‘ نظر ثانی کا محتاج ہے ۔ ’’پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے‘‘۔ مینن کا یہ بیان غلط بھی نہیں کہ نواز منموہن ملاقات سے چند گھنٹے پہلے پشاور میں قصہ خوانی بازار میں بم دھماکے میں بیالیس افراد مارے گئے‘ یہ اس سرحدی شہر میں تیرہواں ہلاکت خیز دھماکہ تھا مگر حکومت پاکستان پر اس دہشت کاری کو برآمد کرنے یا دہشت گردوں پر کنٹرول رکھنے کا الزام درست نہیں۔ بھارتی حکام اس الزام کو بھی دہراتے ہیں کہ پاکستان کی فوج پر سول حکومت کا اختیار نہیں ۔واجپائی کی طرح نواز شریف کا ووٹ کے ذریعے تیسری بار بر سر اقتدار آنا ہی اس الزام کی تردید کرتا ہے ۔ا س روز شمالی وزیر ستان پر ایک اور ڈرون حملہ بھی ہوا جس میں چار افراد ہلاک ہوئے۔ مغربی سرحد کے ساتھ بعض علاقوں میں حکومت کی رٹ مشکل میں ہے۔ بھارت یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ اس کے ہاں بھی کم از کم تیس شورشیں چل رہی ہیں جن میں علیحدگی پسند کشمیریوں کی تحریک سر فہرست ہے جو بھارتی فوج کے خلاف مزاحمت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جنگ میں ہر حربہ اور ہر بہروپ جائز سمجھا جا تا ہے ۔ مینن نے کہا‘ دونوں لیڈروں نے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا مگر اتفاق کیا کہ ’’لائن آ ف کنٹرول کے دونوں طرف امن اور سکون کا ہونا ایک پیشگی شرط ہے‘‘۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران دونوں طرف سے آٹھ فوجی کام آئے ہیں۔اس سال سرحد پر مرنے والے سپاہیوں کی تعداد چوالیس رہی جب کہ سالِ گزشتہ کی کُل تعداد سترہ تھی۔یہ اتفاقِ رائے اس ملاقات کا ما حصل ہے جس کا خیر مقدم دونوں ملکوں میں کیا جائے گا۔ منموہن سنگھ‘ نواز شریف ملاقات کے بعد کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا نہ مشترکہ پریس کانفرنس دیکھنے میں آئی مگر لیڈروں میں ہونے والی گفتگو کو مینن کے علاوہ پاکستان کے خارجہ سیکرٹری جلیل عباس جیلانی نے بھی مثبت کہا اور اخبار نویسوں کے ایک بین الاقوامی اجتماع کو آگا ہ کیا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر ہونے والے ہلاکت خیز واقعات کی تحقیقات کا کام دونوں فوجوں کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز DG MO s کو دے دیا گیا ہے جو سرحدی مسئلے کا ایک حل ہے ۔وہ پاکستان کے ایما پر لائن آف کنٹرول پر ہونے والے واقعات کی تحقیقا ت بھی کریں گے ۔اس بر یفنگ کے مطابق لیڈروں میں سر کریک‘ سیاچن اور بلوچستان میں شورش کے مسئلے پر بھی گفتگو ہوئی ۔اس ضمن میں امریکہ کے وزیر دفاع چک ہیگل کا یہ بیان معنی خیز ہے کہ بھارت کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرنی چاہیے۔ لیڈروں نے پھر ملاقات کی تاریخ نہیں دی مگر دونوں نے ایک دوسرے کو دورے کی دعوت دی ہے جو قبول کر لی گئی؛ تاہم دونوں ملکوں کے موجودہ یا آئندہ لیڈر دورے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کر یں گے ۔منموہن نے واجپائی کے بیان کو دہراتے ہوئے کہا کہ دوست چنُے جا سکتے ہیں ہمسائے نہیں ۔اگرچہ اور بھی کئی ملک پاکستان کے ہمسائے ہیں مگر ہندوستان کا کوئی بدل نہیں۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے بیان کے مطابق امن کے دشمن دونوں ملکوں میں ہیں جو مصالحت کے ہر موقع پر شور مچانے لگتے ہیں۔ مودی اور ان کے ہم خیال دوسرے بھارتیوں کی جانب سے ملاقات کی منسوخی کے مطا لبے کے باوجود اس کا ہونا بلاشبہ رکاوٹ توڑ کامیابی ہے‘ جس کا بھارت اور پاکستان کے امن پسند خیر مقدم کریں گے ۔جنگ و جدل سے بات چیت بہر حال بہتر ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں