سچن ٹنڈولکر بنام عمران خان

فرینکلن روزویلٹ نے کساد بازاری The Great Depression اور دوسری جنگ عظیم کے دوران صدر ہونے کے بعد کہا تھا۔ ''صرف ایک چیز جس سے ہمیں ڈرنا چاہیے خود ڈر ہے‘‘ ایک ایسے وقت جب پاکستان خوف و ہراس کی گرفت میں ہے۔ نظریاتی اندھیرے میں حکومت کو ریاست کا دشمن دکھائی نہیں دیتا کرکٹ ٹیم کو مخالف کا ڈر ہے اور دوبئی میں جنوبی افریقہ سے ہار کر وہ اپنے مداحوں کے سب و شتم کا نشانہ بن رہی ہے۔ بھارت نے سچن ٹنڈولکر کی ریٹائر منٹ کا جشن منایا ۔ٹنڈولکر جو سنچریاں بنانے کے لئے مشہور تھے گو ویسٹ انڈیز کے خلاف صرف 74 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے مگر جشن منانے والوں کے جوش و خروش میں کمی نہیں آئی ۔ ٹنڈولکر پہلے ہی راجیہ سبھا کے رکن ہیں حکومت نے پہلی بار ایک کھلاڑی کو ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ بھارت رتن دیا ہے ۔ وہ سیاست میں قدم رکھنا چاہتے ہیں اور چالیس سال کی عمر میں ایسا کر سکتے ہیں ۔امریکی جریدے فوربز Forbesکے بقول ان کی سالا نہ آمدنی 22 ملین ڈالر (تقریباً دو ارب بھارتی روپے) کے برابر ہے اور وہ دنیا کے امیر ترین ایتھلیٹوں میں سے ایک ہیں ۔وہ امریکی ٹینس سٹار سرینا ولیمز اور باسکٹ بالر گلبرٹ آرناز سے بھی زیادہ کماتے ہیں۔
ٹنڈولکر کو گوآکسفورڈ بلیوز میں کھیلنے کا موقع نہیں ملا اور بھارت کے لئے انہوں نے ورلڈ کپ بھی بہت بعد میں جیتا مگر پاکستان کے عمران خان سے ان کا موازنہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے ۔ دونوں نے سولہ سال کی عمر میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں داخلہ حاصل کیا ۔ ٹنڈولکر نے پہلا میچ 1989ء میں پاکستان کے خلاف کھیلا تھا اور ناک سے خون بہنے کے باوجود کھیلتے رہے تھے ۔دونوں کی کپتانی میں ان کی ٹیموں نے ورلڈ کپ کے علاوہ قابل ذکر فتوحات حا صل کیں اور دونوں نے آل راؤنڈر ہونے کے عالمی ریکارڈ قائم کئے۔ عمران خان کی پارٹی ایک صوبے میں حکمراں ہے اور وہ خود قومی اسمبلی کے رکن ہیں ۔ جمعرات کو جب ٹنڈولکر ممبئی میں آخری بار اپنا بلا سنبھال رہے تھے۔ بھارت اور پاکستان کے مسلمان‘ نواسہ رسولﷺ امام حسینؓ کے ایثار عظیم پر انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے تھے اور دنیا ''یوم برداشت‘‘ منانے کی تیاریاں کر رہی تھی راولپنڈی میں محرم کے جلوس کے دوران تصادم ہوا‘ تقریباً دس افراد جاں بحق ہوئے۔ اربوں روپے کا نقصان ہوا ۔نصف صدی میں پہلی دفعہ‘ شہر تین دن تک کرفیو کی گرفت میں رہا۔ 
ٹنڈولکر غیر شعوری طور پر عمران خان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ بھی اپنے ملک بھارت سے کرپشن کے خاتمے کی کوشش کریں گے ۔مگر دونوں کو تا دم تحریر مختلف سیاسی حالات کا سامنا ہے ۔عمران خان لوگوں کو صبر و تحمل کی تلقین کرتے ہیں مگر ٹنڈولکر کو ایسی اپیل کرنے کی ضرورت نہیں ۔پاکستان میں واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا جاتا ہے اور رپورٹ طلب کی جاتی ہے ۔ بھارت میں ملزم پر مقدمہ چلایا جاتا ہے اور قصور وار ثابت ہونے پر اسے سزا دی جاتی ہے ۔ پاکستان میں ہر ایسے سانحے کے بعد مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کی چاندی ہوتی ہے۔ بھارت میں پنڈت اور پروہت کو کوئی نہیں پوچھتا ۔کاش وہ کرکٹ کا ڈسپلن سیاست میں لے جا سکیں ۔کاش بال ٹمپرنگ اور میچ فکسنگ سیاست کے اکھاڑے سے باہر ہی رہیں ۔
بھارت میں بیشتر لوگ ا پنا دھرم کرکٹ بتاتے ہیں اور ٹنڈولکر کو دیوتا مانتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی بیشتر نوجوان کرکٹ کے شیدائی ہیں جو قومی ٹیم کی فتح پر جشن مناتے ہیں اور شکست کھانے پر اپنے کھلاڑیوں کو گالی دیتے ہیں ۔جب عمران خان کا کیریئر عروج پر تھا‘ پاکستان میں جنرل ضیا الحق کا راج تھا اور انہیں کے اصرار پر عمران خان دوبارہ ٹیم میں شامل ہوئے تھے ۔اب تک اقتدار کے پُل کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے ۔پاکستان میں ضیا اور بے نظیر بھٹو قتل ہوئے‘ نواز شریف نے تیسری بار اپنی حکومت بنائی۔ امن و امان کی حالت خراب سے خراب تر ہوئی اور اس کے ساتھ معیشت کا پہیہ جام ہوا ۔ سیاستدانوں نے اس زبوں حالی سے ایک سبق سیکھا ہے اور پہلی بار اقتدار کی پُر امن منتقلی ممکن ہوئی ہے مگر ابھی انہیں بہت کچھ سیکھنا ہے ۔اس دوران پاکستان اور بھارت دونوں میں مرکز یا وفاق کمزور ہوا ہے اور دونوں ملکوں میں مقامی راج قائم ہوئے ہیں ۔متعصب عناصر دونوں جگہ سر گرم عمل ہیں اور اسے اپنی زندگی کی آخری دوڑ سمجھ رہے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں وہ کامیاب مگر بھارت میں ناکام ہو رہے ہیں ان چالیس سال کے اندربھارت میں 9وزیر اعظم آئے اور 7عام انتخابات ہوئے۔ بھارت نے اقتصادی اصلاحات کا آغاز کیا اور شرح نمو تیز ہوئی مگر اب وہ پھر رو بہ زوال ہے ۔پاکستان میں بدامنی کے باعث شرح نمو تقریباً صفر ہے۔ 
عمران خان اور سچن ٹنڈولکر کی پرورش میں فرق ہے ۔عمران ایک انجینئر اور ٹنڈولکر ایک ناول نویس کی اولاد ہیں ۔عمران نے انگلستان کے ایک دولت مند خانوادے میں شادی کی جو بالآخر نا کام ہو گئی ۔ٹنڈولکر نے زچہ و بچہ کی ڈاکٹر سے بیاہ کیا اور یہ کنبہ ممبئی کے مضافات میں ایک کشادہ اور عالیشان بنگلے میں رہتا ہے ۔ وہ دونوں بچوں والے ہیں ۔عمران نے چندہ جمع کرکے والدہ مرحومہ کی یاد میں کینسر ہسپتال بنا یا ۔ٹنڈولکر کی ماں نے پہلی بار بیٹے کو ایکشن میں دیکھا ۔فوربز کی رپورٹ کے مطابق اس نے سال 1990ء کے عشرے کے وسط میں پچھتر لاکھ ڈالر کا اشتہاری معاہدہ کیا تھا جو اس زمانے میں ایک افسانہ لگتا تھا۔ کیریئر کے آخر میں بھی کوکا کولا کا بارہ لاکھ ڈالر کا کنٹریکٹ ان کی جیب میں ہے جو بہت سے کھلاڑیوں کی سالا نہ تنخواہ سے بھی زیادہ ہے ۔جب ٹنڈولکر نے کھیلنا شروع کیا بھارت کے صرف تین کروڑ کنبوں کے پاس ٹیلی وژن تھا‘ ان کا آخری کھیل کم و بیش سولہ کروڑ گھروں میں ٹیلی وژن پر دیکھا گیا ۔پا کستان میں بھی ٹیلی ویژن گھرانوں میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے مگر دونوں ملکوں کی بیشتر ٹیلی وژن کمپنیاں ایسی کرپشن میں مبتلا ہیں جن کا ازالہ سیاستدانوں کا مقدر نہیں البتہ کرکٹروں کے بس میں دکھائی دیتا ہے ۔ٹنڈولکر اور عمران کے دامن بظاہر ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہیں ۔
ایک سو سنچریاں بنانے والے ٹنڈولکر کا آخری میچ دیکھنے کے لئے عوامی زندگی کی گردش رک گئی ۔کچھ لوگ یہاں سے بھی ممبئی گئے۔ کرکٹر کا مجسمہ نصب کیا گیا ۔ان کے نام کے طلائی سکے ڈھا لے گئے ۔ڈاک کے ٹکٹ جاری ہوئے ۔گیت لکھے گئے اور شہر میں ''سلام سچن‘‘ کے بینر لگائے گئے ۔کھیل کے میدان میں عمران خان کی خدمات بھی ٹنڈولکر سے کم نہیں تھیں مگر ان کی قوم نے اپنے کپتان کی ریٹائرمنٹ کا جشن نہیں منایا ۔شا ئد اس لئے کہ وہ بہت جلد سیاست کے میدان میں کود پڑے تھے اور بقول شاعر:یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں ۔اگر ٹنڈولکر انڈین کرکٹ کنٹرول میں نہ گئے یا کھیل کے مبصر نہ بنے تو لا محالہ وہ بھارتی سیاست کے بھنور میں پھنسیں گے اور انہیں عمران خان کی طرح مقبول عام نعرے لگانے پڑیں گے ۔پاکستان کی طرح بھارت میں بھی حقائق کا پیمانہFact Check مفقود ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں