ڈیورنڈ لائن ‘فساد کی جڑ

پاک بھارت جنگ کے دو سال بعد میں کابل میں تھا ۔ ظاہر شاہ بر سر اقتدار تھے ۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات شروع سے ہی خراب تھے مگر شاہ نے بین الاقوامی رشتے کا بھرم رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے جشن کابل کے موقع پر پاکستان سے ایک ثقافتی وفد کو مدعو کیاتھا ۔اس وفد میں امانت علی خان اور فتح علی خان بھی شامل تھے جن کے والد‘ بادشاہ کے استاد محمد حسین صدا رنگ کو موسیقی کا درس دیتے رہے تھے ۔میں اس وفد سے منسلک تھا۔ افغانستان میں ایک ہفتے کے قیام کے دوران دو نحس باتیں میں نے محسوس کیں۔ اول‘ ریا ست نے ڈیو رنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کی بین الا قوامی سرحد تسلیم نہیں کیا تھا۔ کابل میں دستیاب خطے کے جغرافیائی نقشوں میں افغانستان کی سرحد اٹک کے پُل تک دکھا ئی گئی تھی اور شمال مغربی سرحدی صوبہ جو اب خیبر پختونخوا کہلاتا ہے‘ افغانستان میں شامل تھا ۔ دوم‘ افغان فارسی (دری) بطور زبان اور ادب تمام افغان سکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جاتی تھی مگر علامہ محمد اقبال کا فارسی کلام نصاب سے خارج تھا ۔اس کے بعد ملک میں کئی سرخ اور سبز انقلاب آئے‘ خانہ جنگی ہوئی‘ بیرونی فوجوں کے خلاف مزاحمت کی تحریکیں چلیں‘ دونوں ملک تباہ ہو گئے مگر یہ پابندیاں اب تک جاری ہیں ۔
جنرل پرویز مشرف‘ جو نو سال پاکستان کے حکمران رہے‘ اپنی کتابIn the Line of Fire میں لکھتے ہیں کہ ملامحمد عمر کو یہ سمجھانے کے لئے کہ وہ عالمی تجارتی مرکز کی بربادی کے ملزم اسامہ بن لادن کو قانون کے حوالے کر دیں‘ جن شخصیتوں کو ایک ناکام مشن پر افغانستان بھیجا گیا ان میں طالبان کے لیڈر کو دینی تعلیم پڑھانے والے مفتی نظام الدین شام زئی بھی شامل تھے۔ ملا عمر نے اکوڑہ خٹک اور صوبہ سرحد کے دوسرے مدرسوں میں تعلیم پائی تھی اور جب افغانستان کی خانہ جنگی نے طول پکڑا تو پاکستان کی آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے نے ان کی قیادت میں پاکستان میں پڑھنے والے افغان طلبا کا ایک لشکر افغانستان بھیجا جس نے بہ آسانی جنگ زدہ ملک کو فتح کر لیا‘ امن بحال کیا‘ پوست کی کاشت روکی‘ لڑکیوں کے سکول بند کئے اور عورتوں کا گھر سے نکلنا ممنوع قرار دیا ۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ پاکستان ہی وہ ملک تھا جس نے ملا عمر کی حکومت تسلیم کی مگر جب اسلام آباد نے ان سے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے کی درخواست کو دہرایا تو انہوں نے انکار کر دیا ۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کے درمیان کوئی بارڈر نہیں ۔ امریکہ‘ لائن کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد مانتا ہے مگر یہ اس کی ترجیحات میں نہیں تھا ۔اسے اندیشہ تھا کہ طالبان کا افغانستان‘ برائی کا محور بنتا جا رہا ہے چنانچہ چار ہی سال بعد اس نے تورا بورا پر بمباری کی‘ طالبان کی حکومت کو بر طرف کیا اور پاکستان کے راستے حامد کرزئی کو کابل پہنچایا ۔میں ان دنوں واشنگٹن میں تھا اور ہندو کُش کے پہاڑوں سے افغانستان کے نئے صدر کا پیدل سفر ٹیلی وژن کے پردے پر دیکھ رہا تھا۔ حامد کرزئی نے بھی لائن کو بین الا قوامی سرحد ماننے سے انکار کر دیا ۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین 1640میل لمبی ڈیورنڈ لائن 1893 ء کی یادگار ہے اور ایک برطانوی سفارت کار سر ہنری مورٹیمر ڈیورنڈ (Sir Henry Mortimer Durand) سے منسوب کی جاتی ہے ۔ یہ خیبرپختونخوا اور بلو چستان سے گزرتی ہے اور اس کی دونوں جانب پشتون اور بلوچ قبائل آباد ہیں۔وہ ایک ہی زبان بولتے ہیں اور آپس میں بیاہ شادیاں کرتے ہیں۔ خانہ جنگی سے بھاگ کر جو تیس لاکھ افغان‘ پشاور سے لے کر لاہور اور کراچی تک آباد ہوئے‘ پاکستان اور اقوام متحدہ کے نزدیک پناہ گزین ہیں مگر وہ اپنے آپ کو اندرونی طور پر اکھڑے ہوئے لوگ سمجھتے ہیں اور تین نسلوں کے بعد بھی گھرواپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ اور کابل میں ان کے حکمران یہ باور کرنے سے قاصر ہیں کہ پرانی سرحدوں کے بطن سے نئی سرحدیں پیدا ہوتی ہیں۔ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے نقشے بدلے ہیں اور ان چودہ صدیوں میں مسلم اکثریت کے علاقوں میں بھی نئے ملک ابھرے ہیں جو اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کے لوگ ایک دوسرے کی زبان سمجھتے ہیں‘ آپس میں شادی بیاہ بھی کرتے ہیں اور باہمی تجارت کا فروغ چاہتے ہیں مگر سرحد پر ویزا نافذ ہے۔ یہاں تک کہ ریاست جموں و کشمیر میں جو ایک متنازعہ علاقہ ہے لائن آف کنٹرول پار کرنے کے لئے سفری دستاویزات درکار ہوتی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں بھی ویزا پروٹوکول موجود ہے مگر ڈیورنڈ لائن پر ایسے کوئی انتظامات دکھائی نہیں دیتے۔
پاکستان نے بھی ڈیورنڈ لائن کے واہمے سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے ۔افغانستان پر سوویت یونین کی اجا رے داری کے خلاف ''آپریشن سائکلون‘‘ کی کامیابی کے لئے صدر ضیاء الحق‘ امریکہ کی تائید سے مجاہدین بھرتی کرتے تھے اور انہیں لائن پار کراتے تھے ۔ سرخ حکومتوں سے لڑنے کے لئے جو نصف درجن تنظیمیں معرض وجود میں آئیں ان میں سے ایک کے سربراہ صبغت اللہ مجددی تھے جن کی رہائش اسلام آباد میں تھی اور جو اتوار کے روز کابل میں ختم ہونے والے لوئے جرگہ کے صدر تھے ۔ ہنگو میں ڈرون حملے میں کچھ افغان طالبان کی ہلاکت کے بعد نیٹو اور امریکہ کے خلاف جو ملا جلا رد عمل پیدا کیا گیا اس کے عروج کے دنوں میں کرزئی کو امریکہ کے ساتھ سال کے آخر تک دفاعی انتظامات کا معاہدہ کرنے کا مشورہ اسی جرگے نے دیا تھا ۔ پاکستان کی حمایت سے کابل میں قائم ہونے والی طالبان حکومت کے 95ارکان کا ایک وفد جو وزیر داخلہ عبدالرزاق کی قیادت میں اسلام آباد گیا‘ اس نے بھی ڈیورنڈ لائن کی تصدیق سے انکار کر دیا تھا۔ کرزئی اس لائن کو ''دو بھائیوں‘‘ کے درمیان ایک دیوار سے تعبیر کرتے ہیں اور ان کے ترجمان ایمل فیضی اسے ایک تاریخی مسئلہ کہتے ہیں جس کا فیصلہ حکومت نہیں عوام کو کرنا ہے ۔
پاکستان کو ڈیورنڈ لائن انگریز کے ترکے میں ملی ۔پہلی افغان وار کے بعد امیر عبدالرحمن اور ڈیورنڈ کے مابین جو عہد نامہ طے پایا‘ اس کی ایک شق کہتی ہے کہ برطا نوی ہند کی حکومت کسی بھی مرحلے پر اس لائن کی دوسری جانب اپنا اثر و نفوذ استعمال نہیں کرے گی ۔26جولائی 1949ء کو ایک پاکستانی طیارے نے لائن کے پار ایک افغان گاؤں پر بم باری کی تو افغان حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ خیالی ڈیورنڈ لائن یا ایسے کسی خط کو تسلیم نہیں کرتی اور یہ کہ ڈیورنڈ لائن کے پچھلے سب سمجھوتے کالعدم ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈیورنڈ لائن کی تقسیم ان پر مسلط کی گئی تھی۔ تاہم دنیا پر اس اعلان کا کوئی اثر نہ ہوا اور برطانوی حکومت نے کہا کہ اسے ڈیو رنڈ لائن کی اصابت پر پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں میں نا اتفاقی پر افسوس ہے ۔ ہزمیجسٹی گورنمنٹ کے نزدیک پاکستان بین الا قوامی قانون کی رو سے ہندوستان کی پرانی حکومت کے تمام فرائض اور ذمہ داریوں کا وارث ہے اور یہ کہ ڈیورنڈ لائن ایک بین الاقوامی سرحد ہے ۔کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے صدر محمد داؤد خان کو سرحد کی توثیق پر آمادہ کر لیا تھا مگر پاکستان اور افغانستان میں کوئی نیا عہدنامہ ہونے سے پہلے دونوں لیڈر قتل کر دئے گئے۔ امریکی موقف کے مطابق ''حالیہ دعویٰ کہ ڈیورنڈ معاہدے کی میعاد 1993ء میں ختم ہوگئی‘ بے بنیاد ہے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں