سفارت خانہ ویران ہے!

امریکہ اور ایران میں حالیہ سمجھوتہ ،جہاں گیس پائپ لائن کے منصوبے کی مرجھائی ہوئی پاکستانی امیدوں کی آبیاری کا سبب بنا ہے وہاں واشنگٹن میں تباہ حال ایرانی سفارت خانے کے دوبارہ کھلنے کے امکانات بھی روشن کر رہا ہے ۔ میسا چوسٹس ایونیو پر پاکستانی سفارت خانے کی پرانی بلڈنگ سے ذرا آگے ،یہ عمارت گزشتہ 34سال (1979ء ) سے بند ہے ،جب ایران کے اسلامی انقلاب نے شاہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا ۔پا سداران انقلاب نے تہران میں سب کے سب 52 امریکی سفارت کاروں کو حراست میں لے لیا تھا اور 444دن سفارت خانے پر قابض رہے تھے ۔یہ دنیا ئے اسلام میں ہیجان کے آغاز کا سال تھا ۔اسی عرصہ میں خانہ کعبہ پر جہیمن عتیبی کے حجازی گروہ نے قبضہ کیا جو کئی دن جاری رہا اور قبضہ چھڑانے کے لیے کمانڈو ایکشن کرنا پڑا۔ افغانستان پر سوویت یونین نے فوج کشی کی اور وہاں ایک تحریک مزاحمت کی ابتدا ہوئی ۔پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ۔ریاست نیو یارک کے ایک ہسپتال میں میں مولانا سید ابو الاعلی مودودی کا انتقال ہوا ۔
واشنگٹن میں تین سفیر ،عالم اسلامی کے نمائندے سمجھے جاتے تھے۔ پاکستان کے صاحبزادہ یعقوب علی خان، مصر کے اشرف غُربال اور ایران کے اردشیر زاہدی۔میں سرکاری ملازمت کے لئے لاہور سے واشنگٹن آیا تھا اور اس وقت اسلامک سنٹر کی دکان میں کتابوں کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ میں در اصل یٰسین کی فرمائش پوری کرنے کے لئے ایرانی سفار خانے کے قریب اس جگہ آیا تھا ۔اس نے گوئیٹے مالا سے قران حکیم کا ایک نسخہ مانگا تھا۔مجھے حیرت ہوئی کہ ایک پاکستانی تلاش معاش کے لئے جنوبی امریکہ کے ایک پسماندہ ملک میں غالباً اکیلے پڑا ہے اوراپنی مقدس کتاب کی ضرورت محسوس کر رہا ہے۔ کتاب خرید کر واپس ہونے لگا تو ٹیلی وژن کی نشریات سے پتہ چلا کہ حماس عبدالخالص اور ان کے مسلح آدمیوں نے دارالحکومت کی گورنمنٹ کے دفاتر پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ نیو یارک شہر میں Mohammad, Messenger of God نام سے جو فیچر فلم نمائش کے لئے پیش کی گئی اسے واپس لیا جائے اور خالص پر جو جرمانے کئے گئے ہیں انہیں منسوخ کیا جائے ۔ تینوں سفیر، خالص کو ٹیلی فون پر رام کرنے کوشش کر رہے تھے اور اسے کلام مجید کی وہ آیات سنا رہے تھے جس میں انسان کو عفو اور رحم کی تلقین کی گئی ہے ۔خا لص نے اسلامی ملکوں کے سفیروں کو سرزنش کی کہ وہ اسے اسلام سکھانے کی کوشش نہ کریں ۔غُربال اور زاہدی تو خاموش ہو گئے مگر صاحبزادہ صاحب نے ہمت نہ ہاری اور بالآخر وہ مخالفانہ قبضہ چھڑانے میں کامیا ب ہو گئے ۔
ارد شیر زاہدی 85 کے پیٹے میں ہیں سوئٹزرلینڈ میں رہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان کے کاروبار کی جگہ کسی دن دوبارہ کھلے گی۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق انہوں نے کہا ''ہماری دوستی طویل ہے ۔ایران اور امریکہ کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ (دوبارہ) دوست بنیں ۔انہیں دوست ہونا چاہیے ‘‘۔34سال پہلے جب وہ واشنگٹن میں تھے تو غیر شادی شدہ تھے اور پلے بوائے کی شہرت رکھتے تھے ۔ وہ ایک پُر کشش جادوئی شخصیت کے مالک تھے۔ اخبار واشنگٹن پوسٹ کی نامہ نگار سیلی کوئن نے ان سے ڈیٹنگ شروع کی تو ایرانی سفارت خانے کی سر گرمیاں کور کرنے سے معذرت چاہی۔ ایک سوانح عمری کے مطابق الز بتھ ٹیلر بھی ان خواتین میں شامل تھیں جن کے نام زاہدی کے ساتھ رومانی انداز میں لئے جاتے تھے ۔اس کتاب کی رو سے سفارت خانے کے مہمانوں کی ہر خواہش پوری کی جاتی تھی‘ شمپین سے کیویار اور تفریحی منشیات تک۔اس زمانے کی تصویروں میں سیاستدان ہنری کسنجر، گلو کارہ لائزہ منیلی، مصور اینڈی وارہول، رقاص مخیل با رشنیکوف اور ایسے دوسرے مشاہیر جام بکف ایرانی سفیر کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں ۔اس دور کا ایک فوٹو گراف واشنگٹن کے مضافات میں ایک ریس کورس سے تعلق رکھتا ہے جس میں رومانی زاہدی، شرمائی ہوئی ٹیلر کے منہ میں لقمہ ڈال رہے ہیں۔ کرسمس کے موقع پر سفیر زاہدی اپنے ہزاروں امریکی دوستوں کو بحیرہ کیسپئن سے نکالے جانے والے ایک خاص مچھلی کے وہ انڈے ارسال کرتے تھے جو کیویار کہلاتے ہیں اور دنیا کی سب سے مہنگی غذاؤں میں شمار ہوتے ہیں ۔
چونکہ 1980ء سے امریکہ اور ایران میں سفارتی تعلقات نہیں ہیں تہران میں سوس سفارت خانہ امریکہ کے مفادات کی دیکھ بھال کرتا ہے اور واشنگٹن میں پاکستانی سفارتی عملہ ایرانی مفادات کا امین ہے ۔ایرانی سفارت خانے کی عمارت جو دن رات کی محفلوں کا مسکن تھی اور جس میں رنگ و نور کی بارش ہوتی تھی ویران پڑی ہے مگر اس کے صدر دروازے کے ارد گرد نیلی ٹائلوں کی تنصیب آج بھی اسلامی طرز تعمیر کی یاد دلاتی ہے ۔وہ ان گیارہ عمارتوں میں سے ایک ہے جو انقلاب سے پہلے ایران نے امریکہ کے طول و عرض میں خریدی تھیں اور جن میں اس نے بتدریج اپنے سفارتی دفاتر اور قونصل خانے قائم کئے تھے ۔۔ایرانی سفارتی دفاتر کا جو کرایہ، محکمہ خارجہ (سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ) کو آتا ہے اس سے ایرانی سفارت خانے اور اس سے متصلہ سفیر کی پُرتعیش رہائش گاہ کی دیکھ بھال کے اخراجات پُورے کئے جاتے ہیں ۔ سفارت خانے کے صدر دفتر پر تالہ پڑا ہے کسی کو اس کے اندر جانے کی اجازت نہیں اور اس کے باہر پرچم کے پول سے شیر کا نشان بھی غائب ہے ۔ صدر دروازے کی لکڑی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے ۔ اس دور کے بھاری بھرکم حفا ظتی کیمرے تاروں سے لٹک رہے ہیں اور باہر کے بلب ہولڈرز میں بھڑوں کے چھتے دکھائی دیتے ہیں ۔ 
کوئی جھانک کر دیکھے تو اندر شاہ اور ملکہ فرح کی تصویریں دیوار سے اکھڑی دکھائی دیتی ہیں بیوہ اور ان کے فرزند پیرس میں رہتے ہیں۔جواں سال رضا کبھی کبھار ایرانی تخت و تاج کا دعوی بھی کرتے ہیں مگر ان کے مطالبے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ جھانکنے والے کو فرش پر کچھ ایرانی پاسپورٹ بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔کچھ سفارتی کاغذات پڑے پائے جاتے ہیں جن میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی دستا ویزات بھی ہیں ۔ اس دور میں مشرق و مغرب کے درمیان سرد جنگ زوروں پر تھی ۔ آیت اللہ روح اللہ خمینی کے طرفدار تہران میں امریکی سفارت خانے کو جاسوسی کا اڈہ کہتے تھے اور انہوں نے عمارت پر قبضہ کرنے کے بعد سی آئی اے کی لاکھوں دستاویزات مشتہر کی تھیں ۔
امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے دو اتحادیوں کو ناراض کرکے ایرانی ایٹمی منصوبے پر ایک عارضی معا ہدہ کیا ہے ۔ایک عرب ملک اور اسرائیل دونوں چاہتے تھے کہ وہ ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے اور ایران کے ساتھ ان کی جنگ لڑے ۔ان کی یہ خواہش بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ وہ شام کی خانہ جنگی میں امریکی فوجی مداخلت دیکھنا چاہتے تھے ۔شامی باغیوں کے کئی گودام انتہا پسندوں کے کنٹرول میں آنے کے بعد واشنگٹن نے باغیوں کو غیر مہلک رسد بند کر دی ہے ۔ شام ہو یا بلوچستان علیحدگی کی کوئی تحریک اسی وقت آگے بڑھتی ہے جب کوئی غیر ملکی طاقت اسے ہوا دیتی ہے۔ ایران نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لئے یورینیم کو افزودہ کرنے کا کام ترک نہیں کیا مگر اس کے رائے دہندگان نے اقتصادی تعزیروں کی تپش محسوس کی اور قیادت کو بدل ڈالا ۔صدر احمدی نژاد کی جگہ حسن روحانی اس معاہدے کی تکمیل کا عزم رکھتے ہیں ا ور وہ امریکہ کے ساتھ اعلیٰ سطحی رابطے استوار کر رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں