جلسہ تقسیم اسناد‘ امریکی طرز کا

تنوع‘ ایک نعرہ ہے جارج میسن یونیورسٹی کا اور درسگاہ کے حالیہ جلسہ تقسیم اسناد میں اس کی تفسیر دیکھی گئی۔
جی ایم یو واشنگٹن کے علاقے کی متعدد جامعات میں سے ایک ہے ۔اس میں کم از کم تین اساتذہ نوبیل انعام یافتہ ہیں۔ جب یونیورسٹی کا جلوس پیٹریاٹ سنٹر کے وسیع و عریض ہال میں داخل ہوا تو بیچلر‘ ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے کوئی پانچ ہزار امیدوار اور ان کے عزیز و اقارب تعظیماً اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ میں فرح کی گریجوایشن دیکھنے کے لئے گیا تھا ۔ یونیورسٹی کی جانب سے جو کتاب آنے والوں میں تقسیم کی گئی وہ اس تنوع کا ثبوت تھی ۔ فرح نے انفارمیشن سسٹم اینڈ مینجمنٹ آپریشنز میں(یہ کورس کا نام ہے ) میجر کرنے پر بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے ساتھ جن 130لڑکوں اور لڑکیوں نے یہ ڈگری پائی ان کے چند نام ملاحظہ کیجیے۔ ''لینا عباس‘ احمد عدنان عبداللہ‘ طارق خلیل ابوالحوا‘ فرح ادیب‘ مریم ایچ احمد‘ حرا احمد‘ نعمان احمد‘ مشعل جلیل اکبر‘ محمد ندیم خان علی شیرزئی‘‘ وغیرہ۔
آس پاس اعلیٰ تعلیم کے کئی شہرت یافتہ ادارے موجود ہونے کے باوجود بارہ سال کا ہائی سکول کرنے کے بعد بہت سے بچے گھر سے دور کالجوں میں داخلہ پانے کے متمنی ہوتے ہیں اور یہ بات ایک طویل عرصے تک والدین کے ساتھ رہنے کی ''بوریت‘‘ سے گلو خلاصی کرانے اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا سنہری موقع حاصل کرنے کے لئے مفید ہوتی ہے مگر تارکین وطن کی‘ جو اس علاقے میں بکثرت ہیں‘ اولاد مالی مجبوریوں سے یا آبائی روایات کے مطابق علاقائی کالجوں کو ترجیح دیتی ہے اس لئے میں نے فرح سے اوپر اور نیچے جن بچوں کے نام لئے وہ سب مسلمان لگتے ہیں اور اس فہرست میں ایسے بہت سے نام اور بھی ہیں جو یونیورسٹی کے تنوع کی تصویر پیش کرتے ہیں ۔ وہ سب جانتے ہیں کہ زندگی خدا کا انمول تحفہ ہے جو ایک ہی بار ملتا ہے۔ وہ خودکُش بمبار نہیں بنیں گے ۔ انہیں جنت یا دوزخ میں جانے کی جلدی نہیں ہے ۔وہ اس دنیا میں ایک شاندار مسقبل کی امید میں اپنی زندگی کو تعمیر کریں گے ۔
جارج میسن کے مسلمان طلبا کو اپنے دین کا تو علم ہے مگر انہوں نے کبھی مذہب یا مسلک کے نام پر کوئی انجمن نہیں بنائی ۔ اس قوم کے بانیوں نے ذاتی عقیدے کو ریاست سے الگ کر دیا تھا۔ اکثریت‘ گو مسیحیت کا دم بھرتی ہے مگر کوئی مسیحی لیڈر ان سے رابطہ نہیں کرتا ۔ بیشتر مسلمان طلبا اپنے مسلک سے با خبر ہی نہیں ہیں کیونکہ مذہب یا مسلک ان میں قدر مشترک نہیں ہے زبان البتہ ہے اور وہ سب امریکن انگلش بولتے ہیں۔ تارکین وطن کے بچوں نے جو انگریزی کے علاوہ والدین کی زبان بھی بولتے ہیں‘ اپنے آبائی وطنوں کے حوالے سے کچھ انجمنیں منظم کی ہیں ۔ پا کستان سٹودنٹس ایسوسی ایشن جی ایم یو کی ایک فعال انجمن ہے جس کے انتخا بات ہر سال ہوتے ہیں اور وہ تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔ ایک سال فرح بھی اس انجمن کی صدر رہی ہے ۔
میری طرح اور لوگ بھی اپنی اولاد کے بچوں کو پھلتے پھولتے دیکھنے کے لئے آ ئے تھے اور ان میں سے کچھ پہیے دار کرسیوں پر تھے ۔ ڈگری کے امیدوار سب بچوں کو سبز گاؤن اور سبز ٹوپی میں دیکھ کر مجھے اپنا کانووکیشن یاد آگیا ۔یہ پنجاب یونیورسٹی کے نئے زیر تعمیر کیمپس کا پہلا جلسہ تقسیم اسناد تھا جس کے لئے قناتیں لگا کر ایک ہال کا منظر پیدا کیا گیا تھا۔ صدر محمد ایوب خان کو ڈگریاں تقسیم کرنا تھیں۔ میں نے اپنے استاد عبادت بریلوی کو بتا یا تھا کہ میں کانووکیشن میں حاضر نہیں ہو سکوں گا ۔میں انا ر کلی بازار کی اس دکان پر گیا تھا جو سولر ہیٹ فروخت کرتی تھی اور سیاہ گاؤن کرائے پر دیتی تھی۔دکاندار نے بتایا تھاکہ سب گاؤن کرائے پر اٹھ چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پو چھا ''تمہاری والدہ سیاہ برقع تو پہنتی ہوں گی؟‘‘ میں نے ا ثبات میں جوا ب د یا ۔ وہ بولے۔ ''بس تو بات بن جائے گی‘‘۔ میں نے کہا ''وہ کیسے ؟ میں تو ماں کا برقعہ نہیں پہنوں گا‘‘۔ وہ بولے ''پہننے کو کون کہہ رہا ہے ۔سیاہ برقعے کو بغل میں داب کر آ جانا ہم تمہیں اندر بھیج دیں گے ۔یوں بھی زبان و ادب کے طلبا کو کون پوچھتا ہے ؟ تم پچھلی قطاروں میں بیٹھو گے۔ چیف گیسٹ سے مصافحہ کی نوبت نہیں آئے گی‘‘۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 
جارج میسن کے سرما ئی جلسہ تقسیم اسناد میں ایسا نہیں ہوا ۔غیر ملکی زبان و ادب کی ڈگری کے امیدواروں کا گروپ سب سے بڑا تھا اور اس میں دو سو زیادہ بچے تھے ۔سائنسدان کہتے ہیں کہ ا نسان کے دماغ میں یادداشت کے خانے میں کم از کم نصف درجن زبانوں کی گنجائش ہے۔ اس کی زندہ مثال تو اپنے جان ہینسن ہیں جو اردو‘ ہندی‘ فارسی‘ عربی‘ روسی اور آذری شین قاف سے مزین صحت کے ساتھ بولتے ہیں مجھے کولمبیا یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کی ثقافت کے شعبے کی پروفیسر فران پریشت نے ایک بار بتایا تھا کہ ان کے ادارے میں اکثریت‘ تارکین وطن کے بچوں کی ہے جو اردو اور ہندی پڑھنے اور علاقائی ثقافت کو سمجھنے میں آسانی پاتے ہیں اور مجموعی نمبروں میں اضافے کی خاطر ان کا کورس لیتے ہیں مجھے اندازہ نہیں کہ اس اجتماع میں موجودکتنے بچوں نے جنوبی ایشیا کی ثقافت کا مطالعہ کیا تھا۔تاہم کتاب کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ پاکستان‘ ہندوستان‘ افغانستان‘ ایران‘ کوریا‘ ویتنام انڈونیشیا‘ عربستان‘ حبشہ‘ لاطینی امریکہ اور دوسری رنگدار نسلوں کے تارکین وطن کی اولاد گورے اور کالے امریکیوں کی اکثریت کے ساتھ مل کر تنوع کا ثبوت پیش کر رہے تھے۔
جیسا کہ یونیورسٹی کے صدر انیجل کبریرا Angel Cabrera نے طلبا' اساتذہ اور مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا ۔اس کمرے میں توانائی کی کمی نہیں تھی۔ ہال میں چہلیں ہو رہی تھیں‘ کالج کا بینڈ مسلسل دھنیں بکھیر رہا تھا اور اجتماع میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ڈگری پانے والے طلبا اور طالبات کے ناموں کاا علان شروع ہوا تو یہ شور اور بڑھ گیا۔ جونہی ایک امیدوار کو بلایا جاتا تھا وہ تماشائیوں میں اپنے حواریوں کی جانب خوشی سے بلیغ اشارہ کرتا تھا اور وہ اسے بہ آواز بلند شاباش دیتے تھے۔ کانووکیشن میں آرٹس اور سائنسز کے تمام مضامین میں ماسٹرز اور بیچلر کی ڈگریاں دی گئیں ۔ ڈاکٹر آف فلاسفی (پی ایچ ڈی ) کے امید واروں کی تعداد 120 کے لگ بھگ تھی ۔ ان سب نے زندگی کے مختلف شعبوں کے مسائل پر تحقیق کی تھی اور ان کا حل تجویز کیا تھا ۔اس یونیورسٹی میں میڈیکل کی تدریس نہیں ہوتی۔ چونکہ آجر ملازم رکھنے میں کالج گریجوایٹ کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے فارغ التحصیل ہونے والے بیشتر طلبا خوش تھے ۔وہ پہلے ہی کوئی جز وقتی ملازمت کر رہے ہیں اور ایک خود مختار زندگی کے آغاز کی امید کرتے ہیں۔ فرح بھی ایک کمپنی میں انٹرن شپ کر رہی ہے اور مستقل ملازمت کا پروانہ اس کی جیب میں ہے ۔ کمپنی نے اسے یہ پیشکش بھی کی ہے کہ اگر وہ ماسٹرز کرنا چاہے تو وہ اس کی مالی امداد کرے گی۔ 
یونیورسٹی کی اقدار: ''ہمارے طلبا کو اولیت حاصل ہے ۔تنوع ہماری قوت ہے ۔ایجاد خواہی ہماری روایت ہے ۔ہم سوچنے اور کہنے کی آزادی کا احترام کرتے ہیں۔ہم محتاط مہتمم ہیں ۔ ہم دیانت سے قدم اٹھاتے ہیں اور مل کر آگے بڑھتے ہیں‘‘۔ تقسیم اسناد کے جلسے میں کیمرے کا استعمال عام تھا کیمرہ روائتی تھا یا سیل فون یا ٹیبلٹ‘ لوگ خوشی کے اس لمحے کو گرفت میں لینے کے لئے بے تاب تھے اور تین گھنٹے کی تقریب کے بعد جب وہ گھروں کو لوٹنے کے لئے اپنی گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھے تو کسی کو اپنا موبائل چھن جانے کا اندیشہ نہ تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں