ایک صحافی کا عمرہ

صحافی کا عمرہ بھی عجیب تھا ۔ میں قدیم عمارتوں کی زیارت کے ساتھ جدید زندگی کا مشاہدہ بھی کرنا چاہتا تھا ۔ ایک سہ پہر کو ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ کے مکان کی تلاش میں‘ جہاں پیغمبر اسلامﷺ کی مکی حیات طیبہ کا بڑا حصہ گزرا تھا‘ ناکام ہونے کے بعد میں مسجد الحرام کے قالینوں پر چلتے ہوئے گرا اور بے ہوش ہو گیا ۔ مکہ معظمہ کے ایک ہسپتال میں داخل ہو ا اور یوں ایک ہفتے کا سفر‘ پھیل کر دو ہفتوں کا ہو گیا‘ اور اللہ کریم نے خانہ کعبہ کے طواف اور گنبد خضریٰ کے جلوے سے سرفراز کیا۔ (تفصیل دیکھیئے ''مکہ ڈائری‘‘ شائع کردہ‘ سنگ میل‘ پبلیکیشنز)
بعد میں اظہار کاظمی کے جنازے پر علی مرکز سپرنگ فیلڈ ورجینیا میں پرانے رفقائے کار سے ملاقات ہوئی تو سلطان غازی نے روزنامہ 'نیو یارک ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر اس واقعے کی یاد دلائی ۔رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایشیائی لوگ اپنی موت کو ملتوی کرنے کا گُر جانتے ہیں ۔اخبار نے ایسی کئی مثالیں دی تھیں‘ جب لوگوں نے اپنی خواہشات کی تکمیل تک اپنی موت کو خود سے دور رکھا ۔ میں نے اس رپورٹ سے بے خبری کے عالم میں مکہ سے مدینہ روانہ ہوتے وقت خدا سے دعا کی تھی کہ مرنے سے پہلے میں واپس امریکہ جانا اور اپنے دفتر اور گھر کے معاملات کو نبٹانا چاہتا ہوں۔ یہ دعا قبول ہوئی ۔
بچپن سے ایک نعت سنتے آئے تھے ''میرے مولا بلا لو مدینے مجھے‘‘۔ پھر ایک گراموفون ریکارڈ بولتا تھا ''مدینے آواں تے جاواں‘‘۔ ہوش سنبھالا تو پتہ چلا کہ مدینے جانے کے لئے سعودی عرب کا ویزا درکار ہے ۔پھر سنا کہ سعودی صحرا میں تیل نکل آیا ہے اور لوگ روزگار کی تلاش میں سعودی عرب جا رہے ہیں۔ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ جاب کے ساتھ زیارات کی سہولت۔ لوگ دیارِ حبیبؐ میں بھی ہیرا پھیری سے باز نہ آئے ۔ویزے کی مدت ختم ہوگئی مگر وہ وہیں پڑے ہیں۔ سعودی حکام نے غیر قانونی پاکستانیوں کو نکالنا شروع کیا اور ایک سو دس آدمیوں پر مشتمل پہلا جتھہ لاہور پہنچا ۔
سعودی عرب میں قدامت پرستی کو جدیدیت کے سامنے ہتھیار ڈالتے دیکھا ۔بیشتر دنیا اپنے ثقا فتی ورثے کو محفوظ کرنے کی سعی کرتی ہے مگر وہاں کے حکمرانوں نے مسلمانوں کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو ''مذہب‘‘ کے نام پر مٹا دیا ہے‘ اسی طرح جیسے طالبان حکمرانوں نے بودھ کے گرانڈیل مجسموں کو بارود سے اڑا دیا تھا ۔مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے ارد گرد آج فائیو سٹار ہوٹل‘ فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ‘ شاپنگ سنٹر اور اپارٹمنٹ کامپلکس ابھرآئے ہیں مگر اس عظیم مذہب کے بانیوں کے چودہ سو سال پرانے آثار ڈھونڈے سے نہیں ملتے ۔ جس راہ سے رسولِ صلعم نے ہجرت کی تھی‘ اس پر ایک ہائی وے بنائی گئی ہے اور اب ایک تیز رفتار ریل کے لیے پٹڑی بچھائی جا رہی ہے‘ عورتوں کو ووٹ کا حق دیا جا رہا ہے اور ان کے لئے کھیل منظم کئے جا رہے ہیں ۔یہ سب اقتصادی ترقی کے راستے ہیں ۔
سعودی عرب میں پانی اور تیل کا ملاپ کچھ مثبت ترقیوں کا سبب بنا ہے اور اس کا ایک مظہر جدہ میں دارالحکمت کا قیام ہے ۔یہ جدید وضع کا ایک کالج ہے جہاں جدید مضامین میں چار سال کی ڈگری دی جاتی ہے ۔ ان مضامین میں بنکنگ اور فنانس‘ انٹیریئر ڈیزائن‘ مینجمنٹ انفرمیشن سسٹم‘ گرافک ڈیزائن‘ سپیشل ایجوکیشن اور نرسنگ شامل ہیں ۔و سط البلد جدہ کے شمال میں شاہراہ عنبر امجد پر چھبیس ہزار مربع میٹر پر اس درسگاہ کی بنیادیں اٹھتی دیکھیں ۔اس میں پندرہ سو طلبا کی گنجائش ہوگی ۔تازہ اطلاعات کے مطابق نیشنل کمیشن فار اکیڈیمک ایکریڈیشن اینڈ اسیسٹمنٹ نے کالج کو مذکورہ مضامین میں ڈگری عطا کرنے کے اہل قرار دیا ہے اور مئی 2012ء میں وہاں تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
جدید کے ساتھ قدیم روایات کا تسلسل مغرب کی تشویش کا باعث بنتا ہے ۔مثال کے طور پر جدید سعودیہ میں بعض قدیم سزائیں بھی رائج ہیں ۔جس سال میں مکہ شریف میں تھا‘ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق‘ ایک سو دو آدمیوں کو موت کی سزا دی گئی۔ کچھ پاکستانی بھی‘ جو کسب معاش کے لئے سعودیہ کا رخ کرتے ہیں‘ مگر اپنے مجرمانہ افعال کا پشتارہ ساتھ لے جاتے ہیں اس پینل کوڈ کا شکار ہوتے ہیں۔ سولی یا صلیب قدیم رومی سزاؤں میں سے ایک ہے۔ حضرت مسیحؑ کو یہی سزا دی گئی تھی ۔مجرم کو لکڑی کے ایک تختے سے میخ یا رسی سے باندھ کر کھلے میدان میں گاڑ دیا جاتا تھا اور وہ جسم سے خون بہنے سے بتدریج موت کی نیند سو جاتا تھا۔ یہ منظر کیتھولک مسیحیوں کے لئے آج بھی مقدس ہے۔ 4 نومبر 2009ء کو سعودی عرب میں محمد بشیر الرمالی کو اسی طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ۔وہ نو عمر لڑکوں کے اغوا اور ان سے جنسی زیادتی کا قصوروار پایا گیا تھا۔
جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں جب جیل روڈ کے کھلے میدان میں تین مجرموں کو پھانسی دی گئی تو میں بھی ایک اخباری نامہ نگار کی حیثیت سے تماشائیوں میں شامل تھا ۔ میرے ساتھ ڈیلی ٹیلیگراف کا انگریز نمائندہ بیٹھا تھا ۔جب مجرم پھانسی سے چند لمحے پہلے زیر لب تیزی سے کچھ بڑ بڑا رہے تھے تو غیر ملکی نے کہا تھا: ''تم ان مجرموں کو بر سرِ عام پھانسی دے کر بظاہر دوسروں کے لئے عبرت کا سامان مہیا کر رہے ہو مگردیکھنا کہ مستقبل میں لوگ اس منظر سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے موت سے بے حس ہو جائیں گے‘‘۔ مستقبل میں واشنگٹن سے ایک نجی ٹیلی وژن پرمیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ خیبر پختونخوا‘ کراچی‘ لاہوراور پاکستان کے کئی دوسرے علاقوں میں انتہاپسندوں نے خود کُش حملہ آوروں کا روپ دھارا۔مسجدوں‘ امام بارگاہوں‘ مندروں اور پُر ہجوم بازاروں پر حملے ہوئے ۔ راہگیروں سے سیل فون چھینے گئے یا تاوان وصول کرنے کی غرض سے انہیں اغوا کیا گیا اور تقریباً روزانہ انسانوں نے انسانوں کا خون بہایا۔ ماضی میں ایک خون ہونے پر جو لال آندھی آیا کرتی تھی‘ اس کا کہیں نام و نشان نہ تھا ۔
سعودی عورت کو ڈرائیونگ لائسنس کا نہ ملنا‘ دنیا بھر میں اس ملک کا امتیازی نشان بن گیا ہے ۔ جدہ‘ مکہ اور مدینہ بڑے شہر ہیں ۔میں نے ان شہروں میں کسی خاتون کو موٹر کار چلاتے نہیں دیکھا۔ دوسرے کئی ایشیائی ملکوں کی خواتین بھی گاڑی نہیں چلاتیں ۔بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے گھر میں کار ہی نہیں ہوتی۔ سعودی عرب کے ہر دوسرے گھر میں کار موجود ہے‘ مگر گھر کی کسی خاتون کو ڈرائیو نگ پرمٹ نہیں مل سکتا ۔انہیں گھر سے باہر جانے کے لئے کسی محرم مرد ڈرائیور پر انحصار کرنا پڑتا ہے‘ مگر سعودی عرب دنیا سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا ۔جوں جوں ملک کی دولت میں اضافہ ہوا ہے لاؤڈسپیکر‘ طیارے‘ ہسپتال‘ یونیورسٹیاں‘ سڑکیں‘ پُل‘ ہوٹل‘ انٹر نیٹ‘ سیل (موبائل) فون اور دوسری جدید سہولتوں سے استفادہ کرنے کا رجحان بڑھا ہے۔ معاصر زندگی کا ایک نمونہ سعودی عرب کے اندر موجود ہے ۔ مشرقی صوبے کا شہر الظہران (Dhahran)‘ سعودی صحرا میں ایک نخلستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
ظہران دراصل ایک کمپنی ٹاؤن ہے۔ یہاں آرمکو (ARAMCO) کا صدر دفتر ہے‘ جو گیارہ ہزار کارکنوں کی آجر ہے۔یہ وہی امریکی کمپنی ہے‘ جس نے سعودیہ میں تیل دریافت کیا تھا۔آج یہ کمپنی سعودی عرب کی ملکیت ہے‘ نوے فیصد سعودی محاصل مہیا کرتی ہے اور اس کے بیشتر ملازمین سعودی ہیں اور وہ 'امریکی مضافات‘ کی یاد دلاتی ہے‘ منگلا‘ پاکستان کی برل کالونی کی طرح۔ سعودیہ کا واحد سنیما گھر اسی شہر میں ہے اور اس کی تقریباً ایک سو خواتین کے پاس ڈرائیونگ پرمٹ ہیں جن میں سے اکثر دوسرے ملکوں سے حا صل کئے گئے ہیں۔ منال الشریف ایک ایسی ہی خاتون ہیں‘ جو خواتین کے لئے ڈرائیونگ کی آزادی کی ایک چھوٹی سی تحریک کی قائد ہیں ۔وہ ایک بین الاقوامی اعزاز حاصل کرنے کے لئے اوسلو‘ ناروے جا چکی ہیں مگر ایسا ایک ایوارڈ لینے کے لئے‘ جو بل کلنٹن کے عہد صدارت میں خاتون اول ہلیری راڈم کلنٹن اور وزیر خارجہ میڈلین آلبرائٹ نے قائم کیا تھا‘ واشنگٹن کا سفر اختیار نہ کر سکیں ۔ اس تگ و دو میں وہ آرمکو میں اپنی ہائی ٹیک جاب گنوا چکی ہیں‘مکان کے بلا سودی قرضے سے محروم ہو گئی ہیں اور اکثر دھمکیوں کی زد میں رہتی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں