زہر کی کمیابی

14نومبر 2002ء کو اسے وسطی ورجینیا کی ایک جیل میں زہر کا ٹیکہ لگا کر موت کی نیند سُلا دیا گیا ۔ یہ میر ایمل کانسی کی انتہائی سزا تھی‘ جسے عدالتوں نے سی آئی اے کے دو ملازموں کو ہلاک اور تین دوسروں کو زخمی کرنے کا قصور وار قرار دیا تھا ۔ اس بات کو بارہ سال ہونے کو ہیں اور اب معلوم ہو رہا ہے کہ ریاست کو ایک خاص زہر کی رسد رک گئی ہے اور وہ دوسری آزمانے کے لئے تیار ہے ۔ اس تبدیلی کا بظاہر اقوام متحدہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ جو اپنے ارکان کو سزائے موت ختم کرنے کو کہہ رہا ہے اور پاکستان نے غالباً عالمی ادارے کی ہدایت پر ایک عرصے سے کسی مجرم کو موت کی سزا نہیں دی۔ مگر امریکہ میں جو اقوام متحدہ کے کئی احکامات نہیں مانتا‘ موت کی سزا میں کمی‘ اسی زہر کی کمیابی کے باعث نظر آتی ہے ۔بجلی کے جھٹکے سے انسان کو ما رنا یا اسے پھانسی دینا ''غیر انسانی‘‘ اور ''غیر معمولی سزا‘‘ ہے اس لئے امریکی آئین اس کی ممانعت کرتا ہے ۔یورپ میں سزائے موت بند کردی گئی ہے‘ مگر دنیا کے کئی دوسرے حصوں میں یہ سزا اب بھی دی جاتی ہے اور بعض ملکوں میں تو تلوار یا گنڈاسے کے ذریعے گردن مارنے یا سر کو تن سے جدا کرنے کا رواج بھی موجود ہے ۔ امریکہ میں نو آبادیاتی دور میں یہ سزا دی جاتی تھی مگر اب اس کا شمار صرف آثار قدیمہ میں ہوتا ہے اور اُس دور کے دارالحکومت ولیمز برگ کی ایک کچی سڑک پر وہ ''ٹکیگر‘‘ آج بھی نصب ہے جس میں مجرم کا سر ڈال کر اسے جسم سے الگ کیا جاتا تھا۔ اب سیّاح اس میں سر ڈال کر اپنی تصویریں بنواتے ہیں۔ 
عامر متین کے ایما پر میں نے واشنگٹن سے جیرٹ جیل فون کیا اور ہم دونوں نے ایمل کانسی سے کچھ سوالات کئے۔ اگرچہ اس نے عدالت میں اقبالِ جرم سے انکار کیا تھا مگر وہ موت سے چند روز پہلے کچھ چھپانا نہیں چاہتا تھا ۔ تسلیم کیا کہ 25جنوری 1993ء کو لینگلے ورجینیا میں سی آئی اے کے ہیڈکوارٹرز کے گیٹ کے سامنے رکی ہوئی ٹریفک پر فائرنگ اسی نے کی تھی کیونکہ اسے مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسی نا پسند تھی اور وہ آئے دن فلسطینیوں کا خون بہتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس نے ہمیں یہ تاثر دیا کہ جن آدمیوں نے اسے فریب دیا‘ اس کے اپنے لوگ تھے اور وہ انہیں جانتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں نے کانسی کو سرحد پر افغان علاقے میں پناہ دی تھی‘ بھاری انعام کے لالچ میں وہی اسے ڈیرہ غازی خان لائے اورمسلح امریکی پولیس ایف بی آئی نے صبح سویرے اسی شہر کے شالیمار ہوٹل پر چھاپہ مار کر مئی 1997ء میں کانسی کو گرفتا رکیا تھا۔ 
ہمیں پتہ تھا کہ کانسی‘ انگریزی زبان و ادب میں ماسٹرز ہے۔ عامر نے محسوس کیا کہ اس سے ہمارا انٹرویو حد سے زیادہ گمبھیر ہو رہا ہے تو اس نے ایک ہلکا پھلکا سوال کیا۔ ''بلوچستان یونیورسٹی میں تم کچھ لڑکیوں سے تو واقف ہو گے؟‘‘ ہم نے اندازہ کیا کہ دوسری جانب وہ زیر لب ہنس رہا ہے۔ ''ہاں کچھ لڑکیوں سے واقفیت تھی مگر زیادہ نہیں‘‘۔ جب پوچھا کہ تمہیں انگریزی میں کون سا شاعر اچھا لگا تو اس نے کیٹس کا نام لیا اور جب فرمائش کی گئی کہ جان کیٹس کا کوئی رومانی شعر سناؤ تو وہ یہ کہہ کر طرح دے گیا کہ یونیورسٹی میں درس و تدریس کا ما حول نہیں تھا‘ ڈگری بھی یونہی مل گئی تھی ۔
آج کانسی کے آبائی صوبے بلوچستان کے ساحلی شہر اُ رمُڑہ میں ایک سجدہ گاہ قائم ہے جس کے صدر دروازے کے پتھر پر کندہ ہے۔ ''شہید ایمل کانسی مسجد‘‘ اور یہاں ورجینیا میں روٹ 123پر جس کے جنوبی سرے پر دس میل دُور میری رہائش ہے‘ اس کی چینی ساخت کی AK-47کلاشن کوف کی گولیوں سے ہلاک ہونے والے سرکاری ملازمین کی یاد گار ہے جو جارجیا کے سنگ مرمر کی ایک دیوار اور آمنے سامنے رکھے دو بنچوں پر مشتمل ہے اور شام ہونے پر منور کی جاتی ہے ۔ اس نے یہ نیم خودکار اسالٹ رائفل‘ واقعہ سے چند روز پہلے علاقے کے ایک گن سٹور سے خریدی تھی۔ وہ1967ء کے لگ بھگ کوئٹہ میں پیدا ہوا تھا اور سرمایہ کاری کے لئے بقول استغاثہ‘ جعلی کاغذات پر امریکہ میں داخل ہوا تھا ۔
ورجینیا کا محکمہ اصلاح‘ کانسی کے بعد درجنوں افراد کو زہر کے ٹیکے سے موت کی سزا دے چکا ہے مگر اب یہ دلخراش سلسلہ Pentobarbital یا Thiopental کی کمیابی کے باعث رکا ہوا ہے ۔یہ دوائیں طبی مقاصد کے لئے اب بھی استعمال ہوتی ہیں مگر دوا سازوں نے انہیں جیل کے حکام کے ہاتھ فروخت کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ ٹیکساس کے بعد ریاست ورجینیا ہی سب سے زیادہ قصور واروں کو موت کی سزا دیتی ہے ۔ صرف آٹھ افراد کوٹھی لگے ہوئے ہیں یعنی ڈیتھ رو پر ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی مستقبل قریب میں موت کی سزا نہیں پائے گا کیونکہ جلادوں کو زہر دستیاب نہیں ۔ ایک قیدی کو پچھلے سال موت کی سزا دی گئی مگر اس سال اب تک کسی کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا گیا ۔متبادل کے طور پر برقی کرسی کی جانب مراجعت تجویز کی گئی تھی مگر اسے ایک بار پھر ''غیر معمولی‘‘ سزا کہہ کر رد کر دیا گیا ۔ اب متبادل کے طور پر midazolam تجویز کی گئی ہے جو اپریشن سے پہلے مریض کو سکون دینے اور سونے پر مجبور کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ان دو دواؤں میں سے ایک تھی جو حال ہی میں ریاست اوہایو میں قیدی کو مارنے کے لئے بروئے کار لائی گئی اور لواحقین نے دوا ساز کمپنی کے خلاف دیوانی دعویٰ دائر کر دیا ۔ ان کا موقف تھا کہ ان کے آدمی کے مرنے میں جو چوبیس منٹ لگے ''غیر معمولی‘‘ اور ''ظالمانہ‘‘ سزاؤں کے زمرے میں آئیں گے تاہم فلوریڈا کی سپریم کورٹ نے اس دوا کا استعمال آئینی قرار دیا ہے۔ 
کانسی کے مرنے سے پہلے ورجینیا میں سزائے موت معطل تھی۔ 70ء کے عشرے میں انتہائی سزا کی بحالی کے بعد ایک سو دس افراد کو یہ سزا دی گئی ۔خزاں میں ور جینیا کے جیل خانہ جات نے اوہایو میں استعمال ہونے والی دونوں دواؤں کی کئی خوراکیں خریدیں مگر اب یورپی دوا سازوں سے ایسی دواؤں کی فراہمی میں دشواری پیش آ رہی ہے اور کم از کم ایک امریکی ادارے نے موت کی سزا دینے کے لئے یہ دوا ان کے پاس بیچنے سے معذرت کی؛ تاہم فلوریڈا کی رولنگ کے پیش نظر، لوُیزی آنا اور کینٹکی کی ریاستی حکومتیں Midazolam کی خریداری کا ارادہ رکھتی ہیں ۔
اب تک یہ دوا صرف فلوریڈا میں استعمال کی گئی ہے ۔وہ تین دواؤں کے ایک مجموعے میں‘ جو سزائے موت دینے کے لئے استعمال ہوتا تھا‘ ایک تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ سزائے موت کا ایک قیدی زیادہ عرصہ ہوش میں رہا اور بے ہوش ہونے کے بعد زیادہ عرصہ تک تڑپتا رہا مگر جن قیدیوں کو پرانے فارمولے کے تحت حال ہی میں سزائے موت دی گئی وہ جلد ا س دنیا سے گزر گئے ۔ ورجینیا بھی اس فارمولے پر عمل کرتی رہے گی اور تین کی بجائے دو دواؤں سے کام لے گی بشرطیکہ اسے یہ زہر ملتے رہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں