ایک بچے کی دعا

حکیم الا مت علامہ محمد اقبال( 1877ء-1938ء )نے اپنی تخلیقی زندگی کے شروع میں ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا۔'' ایک بچے کی دعا ‘‘۔اس نظم کے چھ اشعار میں تین بار خدا کا نام لیا گیا تھا۔ایک بار خالق کون و مکان کو خدا کہا گیا اور دو بار اسے رب کہہ کر مخاطب کیا گیا۔'' لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری ‘‘۔آج پاکستان کے بیشتر سکولوں میں سبق سے پہلے طلبا اجتماعی طور پر یہ دعا مانگتے ہیں اور بھارت کے کئی سکولوں میں بھی یہ دعا پڑھائی جاتی ہے نظم پر ''ماخوذ‘‘ لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''بانگ درا‘‘ کی کئی دوسری نظموں کی طرح اس کا مرکزی خیال بھی مغرب سے آیا ہو گا۔اس میں کسی ایک مذہب کی حمایت یا مخالفت نہیں کی گئی۔ یہی امریکی آئین کی اساس ہے جسے نافذ کرنے کی کوشش 238 سال سے جاری ہے۔
صدر کلنٹن نے 2001 ء میں سبکدوش ہونے سے پہلے یہ پیش گوئی کی تھی کہ نئی صدی کا آغاز ہونے پر امریکہ ‘ سفید فام نہیں رہے گا۔ صدر کا بیان چونکہ مردم شماری پر مبنی تھا اس لئے پورا ہوا اور آج یہ ملک گورا نہیں ہے۔سفید فاموں سے زیادہ آ با دی‘ رنگدار لوگوں کی ہے‘ جن میں ہسپانوی نسل کے افراد‘ چینی‘ روسی‘ جاپانی‘ فلی پینو‘ کوریائی اور ویت نامی تارکین وطن نیز مسلم‘ یہود‘ ہندو سکھ ‘ بودھ اور دوسرے مذاہب کے آبادکاروں کو ساتھ ملا کر اکثریت میں آگئے ہیں۔ کاروباری ادارے کانگرس کے اقدام کا انتظار کئے بغیر ‘ اپنی درامدی مصنوعات پر ''ترکیب استعمال‘‘ ہسپانوی زبان میں بھی درج کرنے لگے ہیں۔ میں جو رضائی اوڑھ کر سوتا ہوں ‘اس پر انگریزی کے ساتھ Hecho De Pakistan کا لیبل لگا ہے۔
واشنگٹن سے باہر دریا کے پار جنوب میں چار کاؤنٹیوں اور کچھ شہروں کا گنجان آباد علاقہ جو شمالی ورجینیا کہلاتا ہے آج یہی منظر پیش کر رہاہے اور اس کا اثر ریاستی قانون ساز ادارے پر بھی پڑ رہا ہے۔ کانگرس کے دونوں ایوانوں میں کارروائی کا آغاز ایک دعا سے ہوتا ہے جو کسی ایک بڑے مذہب کا مدعو نمائندہ کراتا ہے۔وارث ڈی محمد مرحوم اور کئی دوسرے مسلم علما اس کار خیر میں حصہ لے چکے ہیں۔ اب رائے دہندگان کی نگاہیں رچمنڈ پر لگی ہیں‘ جہاں ریاست ورجینیا کا قانون ساز ادارہ ہے اور جس میں غیر مسیحی ارکان بھی موجود ہیں جو اجتماعی دعا میں یسوع مسیح اور تثلیث کا تذکرہ نہیں چاہیں گے۔ ان سب کو دعا میں شریک کرنے کے لئے دعا کے متن میں کچھ تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ 
ورجینیا کے نمائندے ہفتے میں پانچ دن کام کا آغاز ایک دعا سے کرتے ہیں جس میں نیا عہد نامہ نمایاں ہوتا ہے۔اب جو ریاست کی آبادی میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کا اضافہ ہوا ہے تو اس صدیوں پرانی روایت پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔ایوان میں فیر فیکس کاؤنٹی کے ایک نئے نمائندے مارکس بی سائمن ہیں جو عبرانی النسل (یہودی) ہیں۔وہ بھی اس دعا میں شریک ہونا چاہتے تھے مگر دعا میں دوسرے مذہب کے حوالے انہیں روکتے تھے۔جب ایوان کے اکثر ارکان دعا پڑھتے تھے تو وہ پیچھے جا کر کھڑے ہو جاتے تھے۔حا ل ہی میں ایک خاتون رکن نے ان کی یہ مشکل آسان کر دی۔ دعا ڈیلی گیٹ شارنیل ہیرنگ نے کرائی اور متن میں تبدیلی کردی۔ انہوں نے ہم منصب قانون سازوں کو بس یہ تلقین کی '' آئیے ہم استغراق اور تشکر کے اس لمحے اپنے سر جھکا دیں اپنے اپنے انفرادی مسلک میں۔‘‘
مسیحی اب بھی ہر ریاست میں اکثریت ہیں۔ورجینیا کے ایوان میں بارہ بپٹسٹ‘ چھ کیتھولک‘ پانچ میتھوڈسٹ‘ تین ایپسکو پیلین‘ دو مورمن‘ دو لوتھرن اور ایک اینگلیکن رکن ہیں۔سائمن دوسرے غیر مسیحی ہیں مگر ان کے احساسات کو بھی ملحوظ نظر رکھا گیا ہے۔ وہ سب ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اس ایوان میں دعا پہلے بھی وجہ نزاع بنی ہے۔ 2010 ء میں ارکان سے ایک امام کی دعا کا مقاطع کرنے کی اپیل کی گئی تھی کیونکہ نائن الیون کے دو ہائی جیکر‘ اس کی مسجد ''دار الہجریٰ ‘‘ میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ 
گورنر ٹیری مکلف (ڈیمو کریٹ) نے عہد کیا ہے کہ وہ ایک ایسے بل کو ویٹو کر دیں گے جو طلبا کو سرکاری سکولوں میں عبادت اور مذہبی باتیں کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ قدامت پسند ریپبلیکن ارکان اس بل کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے ایک عہدیدار نے ایوان کے لیڈروں کو ایک خط لکھا‘ جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے مہمانوں یعنی دعا کرانے والوں کو یاد دلائیں کہ مختلف مذاہب کے لوگوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے‘ جو (ایوان میں) موجود ہوں گے‘ احتراماً وہ دعا کی نوعیت اتحاد بین المذاہب رکھیں۔
کسی نے یہ رپٹ لکھوائی ہے‘ جا کرکے تھانے میں 
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں 
اکبر الہ آبادی نے یہ بیان تقریباً سو سال پہلے دیا تھا۔ امریکہ میں یہ زمانہ اب تک باقی ہے۔ کرنسی پر درج ہے کہ ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں۔قانون ساز اداروں میں کام کا آغاز خدا کی عبادت سے ہو تا ہے ہر چند کہ اس ملک کی بنیاد مذہب کے ستائے ہوئے آبادکاروں نے رکھی تھی اکثریت ایک لائقِ پرستش ہستی کو تسلیم کرتی ہے۔البتہ یہ گوارا نہیں کہ ریاست (حکومت) کسی ایک مذہبی مسلک کی حمایت یا مخالفت کرے۔ آئین میں اس مفہوم کی ایک شق موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال پہلے جب یہ بات انتظامیہ کے علم میں آئی کہ ریاست ساؤتھ کیرولائنا کے دارالحکومت چارلسٹن میں ایک پتھر پر ''دس احکاماتِ خدا وندی‘‘ کندہ ہیں تو اسے عبرانی مذہب کی تبلیغ کہہ کر سرکاری زمین سے ہٹا دیا گیا۔
تیس سال پہلے سپریم کورٹ نے قانون ساز اداروں میں عبادت کے اہتمام کو آئینی قرار دیا تھا جو بقول عدالت '' اس ملک کی تاریخ اور روایت سے گہرا تعلق رکھتی ہے اور اس کے لوگوں کے عقائد کا قابل برداشت اعتراف ہے۔‘‘ مگر اب ریاست نیو یارک کی دو خواتین نے‘ جن میں سے ایک یہودی اور دوسری دہریہ ہے ‘ دعا کو چیلنج کیا ہے‘ یہ کہہ کر کہ ان کی اپنی ٹاؤن کونسل میں عبادت سے کام کا آغاز عدالت عظمیٰ کے اس تقاضے کے منافی ہے کہ دعا سے کسی ایک مذہب کی حمایت نہیں ہونی چاہیے۔ ان کی رائے میں ٹاؤن کونسل کی دعا سے مسیحیت کا پرچار ہوتا رہا ہے اور ایک زیریں عدالت ان کے موقف سے اتفاق کر چکی ہے۔گویا جوں جوں مذاہب کے پیرو کاروں کی آبادی بڑھتی اور ان کے مذہبی مظاہر میں اضافہ ہوتا رہے گا‘ دعا کے حامیوں اور مخالفوں کی پُر امن چپقلش جاری رہے گی۔اس طرح نئے فکری اتحاد معرض وجود میں آنے کا امکان ہے جو ڈیموکریٹ اور ری پبلیکن کی قومی تقسیم سے بڑھ کر ہوں گے۔ ورجینیا میں اگر قمار بازی کی اجازت کا بل منظور نہیں ہو سکا تو اس میں مسیحی قدامت پسندوں سے مسلمانوں کا اشتراک کار فرما ہے اور اگر بعض فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ ‘ پورک فروخت کرنے سے قاصر ہیں تو اس میں یہود سے ان کا اتحاد کار فرما ہو سکتا ہے۔ کیتھو لک ‘ اپنی روایت کے بر عکس‘ اکثریت کی طرح ‘ خاندانی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور امریکی مسلمانوں نے اس معاملے میں اکثریت کا ساتھ دیا ہے۔وہ ہم وطنوں کی طرح کزن سے شادی کا تصور بھی نہیں کرتے مگر اکثر‘امریکی معاشرے کی کٹھالی میں پگھلنے سے انکار کر رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں