صوفی شاعروں کی نئی زندگی

بابا بلھے شاہ 77سال عمر پاکر 1757ء میں رحلت کرنے کے بعد حال ہی میں دوبارہ جی اٹھے ہیں۔ دنیا میں بڑھتے ہوئے مذہبی جنون نے جو تاریکی پھیلائی ہے‘ اس میں صوفی شاعروں کا کلام روشنی کی واحد کرن لگتا ہے۔ تاریکی پھیلانے میں انتہاپسند مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں، مسیحیوں، ہندوئوں اور دوسرے کچھ مذاہب کے علمبرداروں کا بھی حصہ ہے۔ وہ اپنے مسلک کو اعلیٰ و ارفع سمجھتے ہیں اور دوسروں سے اس کے تتبع کی توقع کرتے ہیں‘ اپنے مخالف کو دین کے دائرے سے خارج کرتے ہیں‘ اس کی موت کا فتویٰ جاری کرتے ہیں اور مروجہ قانون کو بالائے طاق رکھ کر ملزم کو اپنے ہاتھ سے سزا دیتے ہیں۔ ان حالات میں بلھے شاہ اور دوسرے صوفی شعرا کی حیات نو ہی میں انسانیت کی بقا ہے کیونکہ ان کا کلام خالق و مخلوق میں ایک رشتہ استوار کرتا ہے۔ 
حکومتیں دہشت پسندوں سے ہار گئی ہیں۔ وہ مسجدوں، درگاہوں، درسگاہوں، دینی جلسہ جلوس اور پرُ ہجوم گلی کوچوں میں خونریز دھماکے کرتے ہیں۔ وہ مذہب کو بروئے کار لاتے ہیں۔ چونکہ بیشتر معاشروں میں کسی نہ کسی مذہب کا غلبہ ہے، انتہا پسند مذہبی لیڈر لوگوں کو بہ آسانی گمراہ کر سکتے ہیں جبکہ حکومتیں اپنی سیاسی اور پارلیمانی مصلحتوں کے تحت مخالف کی کارروائیوں پر چپ رہتی ہیں۔ اردو اور پنجابی کے دانشور صوفی شاعروں کی قیادت میں صدیوں سے مذہب کے رسمی اور روایتی پہلو پر براہ راست حملے کرتے رہے ہیں۔ بابا بلھے شاہ نے کہا تھا:
نہ میں مومن وچ مسیتاں
نہ میں جاناں کفر دیاں ریتاں 
نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
نہ میں موسیٰ نہ فرعون 
بلھیا! کی جاناں میں کون؟
ایک اورکافی میں کہتے ہیں:
لوک بلہے نوں متیں دیندے پئی بلھیا جا مسیتی 
مسیت گیاں تے کجھ نیوں بندا جے دلوں نماز نہیں نیتی
ایک اور کافی کے الفاظ ہیں: 
بلھیا! عاشق ہو یوں رب دا، ہووے ملامت لاکھ 
تینوں کافر کافر آکھدے، توں آہو آہو آکھ
اور سب سے بڑھ کر:
بھٹ نمازاں، چِکڑ روزے، کلمے تے پھر گئی سیاہی
اس میں بھی مذہب پر نہیں بلکہ اس کے ریاکارانہ rituals پر طنز ہے۔
لبرل اور اعتدال پسند لوگوں نے مذہبی ہتھیار کے مقابلے میں اس سے ملتا جلتا ایک ہتھیار سنبھال لیا ہے، یہ تصوف ہے۔ اسلام میں اس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ یہ سلسلہ حضور سرکار دو عالمﷺ کی ذات گرامی سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے توسط سے جناب حسن بصری، ذوالنون مصری، بایزید بسطامی، جنید بغدادی، سید عبدالقادر جیلانی، منصور حلاج، جلال الدین رومی، سید علی ہجویری عرف داتا گنج بخش، معین الدین چشتی اجمیری، بابا فرید گنج شکر اور حضرت نظام الدین اولیا رحمھم اللہ علیھم جیسے بڑے بزرگوں کے ذریعے پھلا پھولا اور آج تک اس کی روشنی دنیا کو منور کر رہی ہے۔ اس دلیل کا مخالفین کے پاس کوئی رد نہیں ہے کہ دنیا میں اسلام نہ تو تلوار زنی کے زور سے اور نہ واعظ کے زور بیان سے پھیلا، وہ ایسے صوفیوں اور صوفی شاعروں کے دم قدم سے پھیلا جو مہم جُو عسکری سرداروں کے پیچھے پیچھے دنیا کے خطوں میں جاتے تھے، اپنے عمل سے اسلام کی حقانیت ثابت کرتے تھے اور عام لوگوں کے رسم و رواج کو برا کہے بغیر ان کو امن و آشتی کا پیغام پہنچاتے تھے۔ 
آج بیشتر اسلامی اور سیکولر ملکوں میں اسلامی تصوف کو بحال کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی تصوف کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ شہر شہر صوفی مٹھ قائم ہو گئے ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعے صوفیا کا پیغام اور ان کا کلام پھیلایا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے صوفیانہ کلام گانے والوں کی فہرست دیکھی تو انہیں ایک ہزار سے زیادہ پایا، جدید دور میں لتا منگیشکر اور نصرت فتح علی خان سرفہرست تھے۔ ان کی آواز میں حضرت بابا بلھے شاہ کا کلام بیس لاکھ سے زیادہ HITS ظاہر کر رہا تھا۔ ''تیرے بن نہیں لگدا دل میرا ڈھولنا‘‘ اس دو گانے میں 'جانیاں ہانیاں‘ اور 'بالماں جالماں‘ کی صدائیں، ڈار سے بچھڑ جانے والی کُونج کے کُرلانے کی طرح سنائی دیتی ہیں جو بلہے شاہ کا ایک خصوصی موضوع ہے۔
1986ء کے شروع میں فلاڈلفیا جانے کا اتفاق ہوا تو ٹمپل یونیورسٹی میں مذاہب کے پروفیسر اسمٰعیل فاروقی سے ملاقات ہو گئی‘ جو ان دنوں اپنی (Magnum Opus: An Atlas of Islam) پر کام کر رہے تھے۔ اسی سال 7 مئی کو انہیں اور ان کی اہلیہ لامیا کو ان گھر میں داخل ہونے والے ایک شخص نے قتل کر دیا۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا اور میاں بیوی سحری کے لیے بیدار ہو رہے تھے۔ قاتل نے اپنے اقبالی بیان میں کہا کہ ایک پرُاسرار آواز اسے یہ قدم اٹھانے پر مجبورکر رہی تھی۔ فلسطینی امریکی اور ان کی اہلیہ کے جاں بحق ہونے کے بعد ان کی باتصویر تصنیف بڑی تقطیع کے دبیز کاغذ پر شائع ہوئی۔ اس میں وہ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں: ''یہ نام دیا گیا ہے ایک ایسی تحریک کو جو ایک ہزار سال مسلمانوں کے دل و دماغ پر چھائی رہی اور آج بھی دنیائے اسلام کے بہت سے حلقوں میں مضبوط ہے۔ اس نے ان کی روحوں کی آبیاری کی، ان کے دلوں کو پاک کیا اور پاکیزگی، زہد و تقویٰ اور قُرب خالق کے لیے ان کی خواہشوں کی تکمیل کی‘‘۔
شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت اسلامی تصوف کے سفر کی معروف منزلیں ہیں اور ہر صوفی ایک انسان کامل کی رہنمائی میں یہ منزلیں طے کرتا ہے۔ بابا بلھے شاہ کے پیرومرشد شاہ عنایت قادری تھے۔ بابا کے کلام میں مرشد سے بے پناہ محبت اور عقیدت پائی جاتی ہے۔ بابا کا اصل نام عبداللہ تھا اور روایات کے مطابق ان کا شجرہ نسب رسالت مآبﷺ سے ملتا تھا اور شاہ عنایت لاہورکی ارائیں برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ بابا نے پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں سب سے پہلے ذات برادری میں انسانوں کی تقسیم پر ضرب لگائی:
چل بلھیا ہن اوتھے چلیے جتھے رہندے سارے انھے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی سانوں منے

اوتھے عملاں دے ہون گے نبیڑے کسے نئیں تیری ذات پچھنی

 

بلھے شاہ دی ذات نہ کوئی میں شاہ عنایت پایا اے
اک نکتہ یار پڑھایا اے
بابا جی نے اسلام کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے ان کی بولی اور ان کے جانے پہچانے کردار استعمال کیے۔ ان کی مشہور نظم ہے:
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا
تیرے عشق نے ڈیرہ میرے اندر لایا 
بھر کے زہر دا پیالہ میں تاںآپے پیتا
چھیتی بوہڑیں وے طبیبا نہیں تے میں مر گئی آں ۔۔۔۔
اس نظم میں خدا کی گہری محبت کے علاوہ یونانی فلسفی سقراط کی طرف اشارہ ہے جس نے علم کی خاطر موت قبول کی۔ بابا انسان کی خاطر مذہب کی روایات پر ضرب لگانے سے نہیں رکتے: 
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے ڈھا دے جو کج ڈھیندا
اک بندیاں دا دل نہ ڈھاویں، رب دلاں وچ رہندا 
بابا کے معاصر وارث شاہ نے اپنی ہیر میں کہا: 
احمد شاہ از غیب تھیں آن چڑھیا رب رکھ جنڈیالے نوں جاسیا وے 
اسی دور میں سندھ میں سچل سرمست کرہ ارض پر امن کی تلقیں کر رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار موضع پانڈوکی میں‘ جہاں بلھے شاہ نے ابتدائی تعلیم پائی‘ مسلمانوں نے اپنی برادری کے چند لوگوں کے قتل کا انتقام لینے کے لیے ایک سکھ نوجوان کو قتل کر دیا۔ بابا نے ایک بے گناہ کے قتل کی مذمت کی تو گاؤں کے مولویوں اور مفتیوں نے ان کی سر زنش کی۔ بابا دراصل اسلامی تصوف کی دیرینہ روایت کے پیروکار تھے۔ پنجاب کی دھرتی پر شاہ حسین، سلطان باہو اور شاہ شرف نے اس روایت کو آگے بڑھایا اور بلھے شاہ نے اس کی آبیاری کی۔ 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں