نئی سرد جنگ کا آغاز؟

وفاق روس میں کریمیا کے حالیہ ادغام نے، جسے ماسکو نے اتحا د نو اور واشنگٹن نے غیر قانونی الحاق کہا، مشرق و مغرب میں سرد جنگ کی بحالی کا اندیشہ پیدا کر دیا ہے۔مشرقی یوکرائن میں سرکاری فوجوں اور روس کے حامی علیحدگی پسندوں کا ٹاکرا اس اندیشے کو تقویت دے رہا ہے۔ ایسی جنگ کا تلخ تجربہ پاکستان سے زیادہ کسے ہو سکتا ہے۔ امریکی فضائیہ کے ہوا باز فرانسس گیری پاورز نے پشاور سے سی آئی اے کا جاسوس طیارہ U-2 اڑایا اور پندرہ سو میل سویت یونین کی فضائی حدود میں گھس گیا۔یکم مئی 1960ء کو روسی میزائیلوں نے اسے مار گرایا ۔چند روز تک امریکہ سے بحث و تکرار کرنے کے بعد سویت لیڈر نکیتا خرو شچیف نے انتباہ کیا تھا کہ پاکستان نے پھر کبھی کسی بیرونی طاقت کو سویت علاقے پر حملے کی اجازت دی تو اسے نیست و نا بود کر دیا جائے گا۔ بڈ بیر کا امریکی فوجی اڈہ کب کا ختم ہو چکا ‘ سرد جنگ کی یادیں ایک عجائب گھر میں تبدیل ہو گئیں ۔ 1991ء میں سویت یونین کے سقوط کے بعد کشمکش کے انجام کا باقاعدہ اعلان ہوا مگر یوکرائن کے جنوبی خطے میں رائے شماری کے بعد اس پر روسی قبضہ سب کی پریشانی کا باعث ہے ۔یوکرائن‘ سویت یونین سے نکلے ہوئے دوسرے یورپی ملکوں کی طرح یورپی یونین میں شمول کا خواستگار تھا اور روس نہیں چاہتا تھا کہ کریمیا جس کے ساٹھ فیصد سے زیادہ لوگ روسی بولتے ہیں اور اپنے آپ کو روسی ا لا صل سمجھتے ہیں، یونین میں جائے اور یوں اس کی سرحدوں تک یورپ کو کھینچ لائے ۔
امریکہ اس ادغام کی ذمہ داری صدر ولادیمیر پیوٹن کے سر ڈال رہا ہے، جو سرد جنگ کی شدت کے زمانے میں روس کی خفیہ پولیس کے جی بی کے ا یجنٹ تھے ۔اس نے روس اور مسٹر پیوٹن کے ساتھیوں پر کچھ تعزیریں بھی عائد کی ہیں اور یورپی لیڈروں نے بھی ایسا ہی کیا ہے مگر اس ضمن میں روس کے وزیر خارجہ سرجی لیوروف کا بیان معنی خیز ہے ۔ وہ امید کرتے ہیں کہ مغرب، یہ احساس کرے گا کہ یہ ایک ایسا کیس ہے جسے تاریخ سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا ۔ اُن کے الفاظ روسیوں کے لیے خوش آئند ہیں جو باور کرتے ہیں کہ ایک ساجھے دار ماضی اس خطے سے ان کے ملک کے رابطے استوار کرتا ہے۔ تاریخ بلا شبہ روس کے ساتھ ہے ۔خطے کو سب سے پہلے زارینہ کیتھرین نے 1783 ء میں روسی سلطنت کا حصہ بنایا ۔جنگ کریمیا کے خلفشار کے دوران وہ روس میں شامل رہا ۔ پہلی عالمی لڑائی، بالشویک انقلاب اور دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی روس کے ساتھ تھا ۔ کریمیا کی لڑائی کے دوران سوسٹا پُول کا محاصرہ بھی اس لئے ہوا کہ وہ روس کے بحیرہ اسود کے بیڑے کا گھر تھا اور یالٹا کانفرنس بھی، جس سے دوسری عالمی لڑائی کا اختتام ہوا اسی خطے کے ایک صحت افزا مقام پر منعقد ہوئی جس میں صدرروزویلٹ، وزیراعظم چرچل اور سوویٹ لیڈر سٹالن آخری بار اتحادیوں کی حیثیت سے یکجا دیکھے گئے۔ کریمیا کو خروشچیف نے 1954ء میں یوکرائن سویٹ سوشلسٹ ریپبلک میں شامل کیا تھا ۔
کریمیا کی تین سو سالہ تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ ماسکو نے اس خطے کے بارے میں جب بھی کوئی قدم اٹھایا، عجلت میں اٹھایا۔ ان میں یوکرائن کے صدر کا فرار اور ڈوما ( روس کی قومی اسمبلی) کی کارروائی شامل ہیں۔ اس سے ملتی جلتی ایک مثال ریاست جموں و کشمیر ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا۔وائس آف امریکہ کے جنوبی ایشیا کے سابق نامہ نگار روی کھنہ جو ماڈل ٹاؤن لاہور میں پیدا ہوئے اور ریٹائر منٹ کے بعد نئی دہلی میں رہنے لگے ہیں، اگلے دن واشنگٹن میں تھے۔ ان کے پاس اس خط کی ایک نقل تھی جو ایٹلی حکومت نے وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کو لکھا تھا اور جس میں عملاً انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ ہندوستان کی ریاستوں کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے ۔ وائسرائے نے جس تیزی سے بٹوارے کا (جون) پلان منظور کیا اور اگست کے وسط میں بھارت اور پاکستان کی Dominionsکا افتتاح کر نے کے بعد لندن واپس گئے اس خط کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہیں ۔پاکستان میں ایک بار پھر میاں محمد نواز شریف بر سر اقتدار ہیں ان کا کہنا ہے کہ حالیہ الیکشن میں عوام نے انہیں بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کا مینڈیٹ دیا ہے اور وہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے نئی دہلی اور واشنگٹن کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں مگر بقول کھنہ بھارت میں اٹل بہاری واجپائی کی جگہ نریندر مودی نے لے لی ہے جن کے انتخابات کی تکمیل ( سولہ مئی) کے بعد وزیر اعظم چنُے جانے کی صورت میں ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ۔
کریمیا کی آبادی بیس لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جن میں تین لاکھ تاتاری مسلمان ہیں جو اس ادغام سے خوش نہیں ہو سکتے۔ کشمیر میں بھی مسلمانوں کی تعداد کم و بیش اسی قدر تھی مگر ان میں80فیصد، مسلمان ہیں ۔صلاح الدین احمد نے روی کھنہ سے کہا کہ میں تمہیں سری نگر سے فون کروں گا ۔میں نے ان سے کہا کہ آپ سری نگر سے دہلی چلے کیوں نہیں جاتے ؟ اس پر احمد نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ پر امریکہ آئے تھے اس لئے سری نگر میں پیدا ہونے کے باوجود انہیں نئی دہلی کا ویزا نہیں ملتا اور وہ ایک کشمیری کی حیثیت سے راولپنڈی سے سری نگر جانے والی بس ہی پکڑ سکتے ہیں ۔کھنہ نے بتایا کہ مودی نے اپنی خارجہ پالیسی کا اظہار نہیں کیا البتہ ان کی پاکستان دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔با لواسطہ طور پر انہیں ریاست گجرات کے مسلمانوں کا قاتل سمجھا جاتا ہے اور اسی بنا پر وہ اب تک امریکی ویزا سے محروم ہیں۔وہ کانگرس کے علاوہ ''عام آدمی پارٹی‘‘ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے جس کے ایک لیڈر نے کہہ دیا تھا کہ اگر کشمیر میں اتنی زیادہ فوج رکھنی ہے تو کشمیریوں سے بھی پوچھ لیا جائے ۔
کشمیر کا مسئلہ اسی قدر پرانا ہے جتنا کہ مسئلہ فلسطین۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی باہمی بات چیت کا موجودہ مرحلہ ناکام ہو چکاہے۔ شملہ کانفرنس کے بعد بھارت بھی کشمیر کے معاملے کو بین الاقوامی نہیں دو طرفہ خیال کرتا ہے ۔امریکہ بقول کھنہ فلسطین کی طرح اس معاملے میں بھی بھارت کا مو ید ہے۔ مگر وہ افغانستان میں بھارت کو نہیں پاکستان کو اپنا جانشین دیکھنا چاہتا ہے ۔نواز شریف ایک کاروباری شخصیت ہیں مگر وہ بھارت کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ کریمیا کی طرح کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام نہیں کر سکتے ۔اس کے لئے انہیں فوجی قوت کے بل پر پاکستان کے ساتھ کشمیر کا الحاق کرنا ہو گا یا امریکہ سے امداد مانگنی ہوگی ۔دونوں صورتیں آزمائی جا چکی ہیں ۔ دریں اثنا کشمیری الا صل اور پاکستان کا چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناتے وہ وقتاً فوقتاً کشمیر کے سوال کا ذکر کرتے رہیں گے اور یہ زبانی جمع خرچ کشمیریوں کے کام نہیں آئے گا ۔
سرد جنگ کے بعد جوہری ا سلحے اور خلا کے میدانوں میں امریکہ اور روس کے تعلقات تیزی سے آگے بڑھے تھے جو اب تک سلامت نظر آتے ہیں ۔جس روز صدر اوباما نے روس کے خلاف تعزیروں کا اعلان کیا، ایک روسی ٹیم سان فرانسسکو پہنچی اور اس نے خاموشی سے دور مار امریکی ہتھیاروں کی جانچ پڑتال کی ۔یہ معائنہ اس عمل کا حصہ تھا جس پر تین سال قبل دونوں ملکوں نے صاد کیا تھا اور جسے New Startکا نام دیا گیا تھا ۔اسی طرح دو روسی اور ایک امریکی خلا باز چھ ماہ ایک بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر گزار کر انہی دنوں واپس آئے ہیں اور بقول ایک ا مریکی اہلکار دونوں ملکوں کے خلائی ادارے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ روس نے بھی 35 سال کے اس عرصے میں بہت کچھ سیکھا ہے ۔وہ قابض کی بجائے مددگار کے طور پر افغانستان واپس جا رہا ہے اس نے مصر کی صدارت کے امیدوار (ریٹائرڈ جنرل) عبد الفتح السیسی کا استقبال کیا ہے اور اب پاکستان کے لیڈر کا منتظر ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں