امریکی مسلمانوں کی دعا

امریکی مسلمانوں کی دعا تھی کہ ایک جیوش کمیونٹی سنٹر کے باہر فائرنگ سے تین افراد ہلاک کرنے والا، مسلمان نہ ہو ۔ پاکستانی تارکین وطن دعا مانگ رہے تھے کہ اگر حملہ آور، مسلمان ہے تو وہ ایسا ہونا چاہیے جس نے پاکستان میں قائم کسی کیمپ میں گولی چلانے کی تربیت حاصل نہ کی ہو۔ اگلے دن انہوں نے یہ سُن کر سُکھ کا لمبا سانس لیا کہ کینسس میں فائرنگ کرنے والا ، دائیں بازو کا مسیحی ہے اور وہ انتہا پسند اور آئین دشمن تنظیم KKKکا سر گرم کارکن ہے ۔ پولیس نے اس کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے کے جرم میں مقدمہ درج کر لیا ہے جس کا فیصلہ عدالت مجاز کر ے گی۔
روائتی طور پر، مسلمانوں سے زیادہ عیسائی ، یہود سے نفرت کرتے ہیں ۔ یہودیوں کی عید ، Passoverکی ہفت روزہ تقریبات دو دن بعد شروع ہونے کو تھیں جو غلامی کے خاتمے اور مصر سے حضرت موسی علیہ السلام کی قیادت میں موعودہ سر زمیں (فلسطین) کی طرف ان کی مراجعت کی یاد دلاتی ہے ۔مسیحی لٹریچر ، یہود دشمنی سے بھرا پڑا ہے ۔یہاں تک کہ سیکولر لٹریچر میں بھی یہود دشمنی نمایاں ہے ۔شیکسپیئر کا ڈراماThe Merchant of Venice اس کی ایک مثال ہے جس میں یہودی سود خور شائی لاک ، برطانوی اشرافیہ کے ایک نو جوان انطونیو سے مطا لبہ کرتا ہے کہ اگر اس نے بروقت اصل زر ادا نہ کیا تو وہ اس کے جسم سے ایک پونڈ گوشت نکال لے گا۔ یہ باسٹن میراتھون میں دو چے چن تارکین وطن کے ہاتھوں تین افراد کی ہلاکت اور 264کے اپاہج یا زخمی ہونے کی پہلی برسی بھی تھی۔ اس لئے امریکی مسلمانوں کی فکر مندیاں دو چند تھیں ۔
کلو کلیکس کلین(KKK) نام ہے نسل پرست امریکیوں کی ایک ایسی جماعت کا جو امریکی نظام کو رد کرتی ہے اور ایک عرصے سے اس ملک پر ایک گوری حکومت مسلط کرنے کے لیے کو شاں ہے ۔ وہ ایسے ہر فرد کو جو اینگلو سیکسن نہیں ہے امریکی نہیں مانتی۔ اس کے نزدیک یہودی ، مسلمان ، ہندو اور دوسری تمام نسلی یا مذہبی اقلیتوں کے لوگ قابل گردن زدنی ہیں یہاں تک کہ وہ افریقی امریکیوں اور لاطینی امریکیوں کو بھی، جن کی بھاری اکثریت ان کی ہم مذہب ہے، اس ملک کے شہری تسلیم نہیں کرتی ۔ صدر بل کلنٹن کے مطابق موجودہ صدی کے شروع تک پر امریکہ، سفید فام نہیں رہا اور آج اس ملک کا سربراہ بھی سیاہ فام ہے مگرKKKبدستور مخالفوں کی آواز دبانے اور ان پر حکم چلانے کے لیے ہتھیار بند ہے۔ امریکی خانہ جنگی اور شہری حقوق کی تحریک اسی ذہنیت کے خلاف تھیں جو بظاہر کامیاب دکھائی دیتی ہیں ۔
جس روز کینسس میں فائرنگ ہوئی نائجیریا سے یہ اطلاع آئی کہ دارالحکومت ابو جا میں قدامت پرست مسلمانوں نے، جو ملک کو ایک اسلامی ریاست دیکھنے کے آرزو مند ہیں، 71ہم وطنوں کو موت کے گھاٹ اتارا 124 کو مجروح کیا اور درجنوں بسوں کو جلا کر راکھ کر دیا ۔ اگلے دن انہوں نے شمال مشرقی صوبے میں ایک سو طالبات کو اغوا کیا ۔ایسی ہی خبریں فلپائن ، بھارت اور مسلم اقلیت کے دوسرے ملکوں سے آتی رہتی ہیں ۔کچھ مسلمان ، اپنا نظریہ دوسروں پر مسلط کرنے کے خواہشمند رہتے ہیں یا انہیں ایسا کرنے کے لئے اشتعال دلایا جاتا ہے ۔مسلم اکثریت کے ملکوں میں بھی کچھ کو اکثریت کی رائے کا احترام نہیں ۔عرب ملکوں میں دو سال قبل جو '' بہار‘‘ آئی تھی وہ خزاں میں بدل رہی ہے ۔اگر لوگ بادشاہی یا آمریت کے خلاف آواز اٹھاتے تو سب کی سمجھ میں آتی مگر وہ گروہی ڈفلیاں بجا رہے ہیں ۔پاکستان میں بھی ایک چھوٹا سا گروہ ، جمہوری نظام کے خلاف لڑ رہا ہے اور حکمران اسے رام کرنے کی کوشش میں ہیں ۔یوں امن و امان کا مسئلہ ، سیاسی نوعیت اختیار کر گیا ہے ۔امریکہ اور پاکستان سمیت کوئی بھی ملک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کی رٹ ملک کے چپے چپے پر چل رہی ہے ۔بھارت میں عام انتخابات ہو رہے ہیں جہاں ایک علیحدگی پسند تنظیم نکسل باڑی ان انتخابات کو ڈھونگ کہتی ہے اور ملک کے کئی جنوب مشرقی دیہات پر حکمران ہے ۔افغانستان میں حکومت ، کابل، قندھار، جلال آباد اور چند دوسرے شہروں تک محدود ہے ۔ پاکستان کے عوام کو ملک میں نہ ختم ہونے والی بد امنی سے ڈر کر جمہوریت کی صف پھر لپیٹنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
امریکی مسلمان ایسی اطلاعات سُن سُن کر زچ ہیں کہ واشنگٹن میں خالد شیخ محمد کے خلاف مقدمہ شروع ہونے کو ہے یا نیو یارک میں اُسامہ بن لادن کے داماد کو طویل قید کی سزا ہوگئی ہے ۔ بوسٹن کی بمباری کی پہلی برسی پر مسلم پبلک افیرز کونسل نے مسلم نوجوانوں کو شدت پسندی سے دُور رکھنے کے منصوبے کا اعلان کیا ۔ وہ یہاں نیشنل پریس کلب میں اخبار نویسوں سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ باسٹن کی دوڑ میں ہم وطنوں کے زیاں نے اپنے پریشان حال نوجوانوں کے معا ملات میں مسلمانوں کی زیادہ موثر مداخلت کی ضرورت اجاگر کی ہے ۔'' پولیس ایسے حملوں کو روکنے کی کوشش میں ایک خاص حد تک جاسکتی ہے ۔اپنی قوم کو محفوظ رکھنے کے لیے، امریکن مسلم کمیونٹی کو شدت پسندی سے متاثر ہونے والے افراد کی نشان دہی میں ایک موثر کردار ادا کرنا ہو گا‘‘۔
بوسٹن کے دھما کوں میں عمر قید کی سزا پانے والے ایک نوجوان نے سرکاری ا ہلکاروں کو بتایا تھا کہ وہ اور اس کا بڑا بھائی عراق اور افغانستان کی امریکی جنگوں کے باعث شدت پسندانہ عقائد سے متاثر ہوئے اور انہوں نے القاعدہ کی ویب سائٹ سے بم بنانے کی ترکیبیں سیکھیں ۔ذاکر سا میف ریاست میسا چوسٹس کی ایک کال کوٹھڑی میں بند ہے اور اس کا بھائی تیمور، پولیس سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا ۔اس کی عمر چھبیس سال تھی اور اس کا چھوٹا بھائی انیس برس کا ہوا تھا ۔چار سو میل جنوب میں ، لڑکوں کے چچا نے بے ساختہ طور پر ٹیلی ویژن پر آکر کہا تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور روس سے ترک وطن کے بعد پُر امن زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے تیمور کو نماز میں مداخلت کرنے پر ایک مسجد سے نکال دیا گیا تھا۔
کونسل کے واشنگٹن چیپٹر کے صدر حارث ترین نے کہا کہ مساجد کے امام اور اسلامی انجمنوں کے دوسرے عہدیدار عام طور پر تشدد آمیز خیالات کے حامل افراد کو بُرا بھلا کہتے ہیں یا انہیں اپنی صفوں سے نکال باہر کرتے ہیں ۔انہیں چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کا اعتماد حاصل کریں اور ان کی امداد کی سعی کریں جن کو وہ ذہنی لحاظ سے غیر متوازن سمجھتے ہیں ۔ اس اجتماع میں امام ولیم صہیب وب بھی بولے جو بوسٹن سے آئے تھے اور میرا تھون کے بعد دوسرے مسلم نوجوانوں کو انتہا پسندی سے احتراز کا مشورہ دے چکے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے ڈرانے کے رجحان پر بھی، جسے انہوں نے Islamophobia Industryکہا، نکتہ چینی کی اور بتایا کہ ریڈیو والے اس رجحان کو ہوا دے رہے ہیں اور خود ان کو القاعدہ کے گماشتے بتایا گیا ہے ۔
مسلم کونسل اپنے منصوبے کو مسلمانوں کے لیے ایکTool Kit کہتی ہے ۔اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک علاقے کے مسلمان سوشل سروسز سے رابطہ کریں گے ، سابق انتہا پسندوں سے مشورہ لیں گے ، والدین اور علمائے دین کی تربیت کا اہتمام کیا جائے گا اور کب پولیس کو مشتبہ طرز عمل کی اطلاع دی جائے گی یا مداخلت کی جائے گی۔
کچھ مسلمان، امریکی حکومت اور امریکی صحافت کو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے سمجھتے ہیں حالانکہ انہی دنوں اخبار واشنگٹن پوسٹ نے عوامی خدمت کے کئی پلٹزر پرائز جیتے ہیں جو اسے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے شہریوں کی جاسوسی کی خبریں دینے پر پیش کئے گئے۔ یہ خبریںسی آئی اے کے ایک ٹھیکیدار ایڈورڈ سنو ڈن کے انکشافات پر مبنی تھیں جو ان دنوں رازداری کے امریکی قانون سے بھاگ کر ماسکو میں پناہ گزین ہے۔ اس سے پہلے نیو یارک ٹائمز کے سیمور ہرش، مائی لائی، ویٹ نام کے قتل عام اور ابو غرائب کی عراقی جیل میں قیدیوں سے بدسلوکی کو بے نقاب کر چکے ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں