لڑکا یا لڑکی؟ پسند آپ کی

چیلسی کلنٹن نے اعلان کیا کہ وہ اور ان کے شوہر خزاں میں والدین بن جائیں گے۔ نیویارک شہر میں ایک تقریب کے بعد چیلسی نے کہا کہ لڑکا ہو یا لڑکی‘ وہ اپنے کنبے میں اس اضافے پر یقیناً شاداں ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں پرورش پائے گا یا پائے گی جو بہت سی مضبوط اور جواں ہمت عورتوں سے پُر ہے ۔ چونتیس سالہ چیلسی نے امید ظاہر کہ وہ اسی طرح اپنے بچے کی اچھی ماں بنیں گی کہ جس طرح اس کی ماں ہیں ۔سابق وزیر خارجہ ہلیری راڈم کلنٹن پاس ہی کھڑی تھیں اور مسکرا رہی تھیں ۔ ایک بار سابق صدر کلنٹن سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کی بیوی ملک کی صدر بنیں گے یا گرینڈ مدر؟ انہوں نے جواب دیا تھا کہ وہ گرینڈ مدر بننا زیادہ پسند کریں گی ۔ وہ ساس تو بن نہیں سکتیں کیونکہ ان کے ہاں نرینہ اولاد نہیں ہوئی مگر ایک پاکستانی خاتون‘ اسلام آباد کی ایک مجلس میں انہیں ساس بنا چکی ہیں‘ پاکستان کی ساس‘ صدر کلنٹن کے بعد دو آدمی صدر چنے گئے وہ دونوں بھی اولاد نرینہ سے محروم ہیں مگر انہوں نے کبھی اس کمی کو محرومی سے تعبیر نہیں کیا ۔جارج بش کے ہاں دو جڑواں لڑکیاں ہوئیں جنہوں نے عام لڑکیوں کی طرح پرورش پائی اور ان میں سے ایک تو ٹیکسس میں ایک دکان سے بیئر خر یدتے ہوئے گرفتار بھی ہوئی کیونکہ وہ ابھی بالغ نہیں ہوئی تھی اور ایک جعلی شنا ختی کارڈ استعمال کر رہی تھی۔ صدر اوبامہ کی لڑکیوں نے صدارتی آداب سیکھ لئے ہیں اور وہ حال ہی میں ماں کے ہمراہ چین کا دورہ بھی کر چکی ہیں ۔
جس تقریب کے بعد یہ حیران کن اعلان آیا‘ وہ ایسٹ سائڈ گرلز کلب میں ہوئی تھی جس کا مقصد جواں سال عورتوں کو زیا دہ با اختیار کرنا ہے ۔اعلان کے بعد جن عورتوں نے چیلسی کو گلے لگایا ان میں ہما عابدین سر فہرست تھیں جو پاکستانی تارکین وطن کی اولاد ہیں ۔ گزشتہ سال جب وہ بے راہ کانگرس مین انطنی وینر سے علیحدہ ہو رہی تھیں تو مسز کلنٹن نے کہا تھا کہ میرے ہاں اگر اور بچہ ہوتا تو وہ ہما ہوتی۔ ہما‘ کلنٹن گھرانے کا فرد اور چیلسی کی بڑی بہن سمجھی جاتی ہیں ۔تقریب کے فوراً بعد چیلسی ایک اور تقریب میں گئی جہاں اس نے یہودیوں اور مسلمانوں کے تعلقات پر ایک دستا ویزی فلم کا افتتاح کیا ۔وہ ایک امریکی یہودی سے جو سٹینفورڈ یونیورسٹی میں ان کا ہم سبق تھا‘ بیاہی ہوئی ہیں اور ایک ٹیلی وژن نیٹ ورک میں کام کرتی ہیں۔ ان کی والدہ‘ اگلے سال اپنی دوسری صدارتی مہم شروع کرنے والی ہیں جس میں وہ ڈیموکریٹک ٹکٹ کی امیدوار ہوں گی۔
انہی دنوں نیو یارک شہر سے نکلنے والے ایک ہفتہ وار اردو اخبار میں ایک چوتھائی صفحے کا اشتہار شائع ہوا جس میں کہا گیا ہے۔ ''بیٹے یا بیٹیاں... فیصلہ آپ کے ہاتھ میں‘ سب سے پہلے ہم نے یہ راز پا لیا ہے‘‘۔ اشتہار کے اردو سیکشن میں بتا یا گیا ہے ''پری جنڈر‘ پری کنسپشن ٹیسٹ ہی ایک متوازن خاندان کی خواہش پوری کرنے کا قدرتی طریقہ ہے ‘‘۔ ''بیٹے یا بیٹی کی خواہش دل میں لئے بھاگ دوڑ کے دن گزر چکے ۔ہم پہلے ہی دن بچے کی جنس کا تعین کر سکتے ہیں‘‘۔ امریکہ میں والدین‘ بچے کے کپڑے تیار کرنے یا اس کی دوسری اشیا خریدنے کے لئے اس کی جنس معلوم کرنے کے مشتاق ہوتے ہیں اور حا ملہ اٹھارہ تا بیس ہفتے بعد الٹرا ساؤنڈ کراتی ہے جس سے عام طور پر بچے کی جنس کا پتہ چل جاتا ہے مگر ہمیشہ نہیں ۔ آج تک کسی اخباری اشتہار میں پہلے دن بچے کی جنس متعین کرنے کا دعویٰ کسی نے نہیں کیا ۔ تعین ممکن ہوتا ہے مگر بہت تاخیر سے‘ اس وقت رحم مادر میں بچے سے کوئی تعرض ماں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اُردو اخبار کے اشتہار میں آدھی سے زیادہ عبارت انگریزی میں ہے جس کے ایک جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اشتہار دینے والا جو بدیہی طور پر کوئی میڈیکل ڈاکٹر نہیں ہے‘ امریکہ ہی میں ہے ۔اس میں دیے گئے فون نمبر اور ویب سائٹ کا پتہ یہی بتاتے ہیں جب کہ اس ملک میں اور باقی مغرب میں لڑکے لڑکی میں کوئی امتیاز نہیں ہے ۔
لڑکیوں اور عورتوں پر مظا لم پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں روا رکھے جاتے ہیں ۔پاکستان میں مختاراں مائی اور ملالہ یوسف زئی پر حملے ہوئے اور بلوچستان میں ایک پنچایت کے حکم پر تقریباً ایک درجن عورتوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیا گیا یا قتل کیا گیا ۔ایک بار ایک مرکزی وزیر کے بھائی اور دوسری بار ایک سابق وزیر اعظم اس غیر قانونی عدالت کی سر براہی کر رہے تھے ۔ سندھ میں جہاں مبینہ طور پر ایک ترقی پسند گروہ حکمران ہے‘ ایک سال کے اندر 202عورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ قاتل بالعموم ان کے بھائی یا باپ تھے ۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حالات زیادہ بہتر نہیں۔ ان وارداتوں کو علاقے کے لوگوں کی روایتی کارروائی کہہ کر نظر انداز کیا گیا۔ حالا نکہ عورتوں نے پسند کی شادی کی خواہش ظاہر کی تھی یا انہوں نے اس خواہش پر صاد کیا تھا ۔ہندوستان میں ایک چلتی بس کے اندر ایک طالبہ پر حملہ ہوا اور اس کے دوست کو زخمی کرکے باہر پھینک دیا گیا ۔ کچھ عرصے کے بعد طالبہ بھی چل بسی۔ بھارت میں عورتوں پر جنسی تشدد مسلسل ہو رہا ہے اور اس جرم کی سزا‘ موت کرنے سے بھی نہیں رکا ۔نیو یارک کے اخباری اشتہار کا روئے سخن پاکستان سے زیادہ بھارت کی طرف ہونا چاہیے تھا جہاں عورتوں پر مجرمانہ حملے بدستور ہو رہے ہیں کیونکہ نچلے متوسط طبقے کے کچھ افراد‘ جہیز کی روائت کے پیش نظر آج بھی لڑکیوں کو اپنے کندھوں کا بوجھ خیال کرتے ہیں اور ان کی تعداد کم کرنے کے لئے قدرت کے نظام سے چھیڑ چھاڑ سے باز نہیں آتے۔ یہ نظام پہلے ہی لڑکوں کے حق میں ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ایک سو نوزائیدہ لڑکیوں کی نسبت105 لڑکے پیدا ہوتے ہیں۔ 
یہ طلب اور رسد کا سوال ہے۔ بھارت میں ایسے نیم حکیموں کی کمی نہیں جو ''روز اول‘‘ سے بچے کی جنس بتانے کی صلاحیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور در پردہ لڑکیوں کو رحم مادر میں تلف کرنے کی پیشکش کرتے ہیں ۔ پاکستان میں کچھ لوگ اسلامی تعلیمات کے خلاف لڑکیوں کو اپنی جاگیر کا جزو خیال کرتے ہیں اور ان کے مستقبل کا فیصلہ اپنی بھیڑ بکریوں کی طرح کرتے ہیں ۔ وہ زرعی مقاصد اور دیوانی مقدمات کی ضرورت کے پیش نظر لڑکو ں کی خواہش کرتے ہیں اور کثرت اولاد پر پھُولے نہیں سماتے ۔ 
لڑکے اور لڑکی کا امتیاز ختم ہونا چاہیے۔ تقریباً آدھی انسانی آبادی‘ عورتوں پر مشتمل ہے جو مردوں کے برابر سلوک کی مستحق ہیں اور پاکستان کی بعض درسگاہوں کے بیان کے مطابق وہ مردوں سے بڑھ کر اعلیٰ تعلیم حا صل کر رہی ہیں۔ امریکہ‘ یورپ اور کئی ایشیائی ملکوں نے عورت کو یہ حق دیا ہے اور وہ ترقی کر رہے ہیں ۔ایشیا اور افریقہ کے زیا دہ حصے اس ترقی سے محروم کیوں ہیں ؟
ہاں‘ جدید سائنسی تحقیق کی بدولت تکنیکی لحاظ سے قبل از وقت جنین کی جنس معلوم کرنا ممکن ہے مگر یہ ٹیکنالوجی برابر کی موثر اور دستیاب نہیں ہے اور ہر کوئی اس کا مالی اعتبار سے متحمل بھی نہیں ہو سکتا ۔یہ سیاحت کے ارادے سے خلائی جہاز کا ٹکٹ خریدنے سے بھی مہنگی ہو گی اور اس کے کامیاب ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہو گی ۔یہی وجہ ہے کہ امریکی صدور خواہ وہ ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلکن‘ اپنے عوام کے سامنے نمونے کا شہری بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سائنسدان ذیا بیطس‘ سرطان‘ گٹھیا اور دوسری نا قابل علاج بیماریوں پر قابو پانے کے لئے بنیادی خلیے (Stem cell) پر تحقیقات کر رہے ہیں اور اس تحقیقات کے ایک نتیجے میں انہوں نے ڈولی نام کی ایک بھیڑ پیدا کی ہے اور ایک زندہ انسان کا چربہ بھی تخلیق ہو سکتا ہے مگر اس تحقیقات پر اخلاقی ماہرین کے اعتراضات اور رقوم مہیا کرنے میں حکومتوں کا تامل ٹھوس ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں