پاکستان کی ساس

ہلیری کلنٹن کی کتاب‘ بازار میں آگئی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ 2016ء میں وہ صدارتی الیکشن میں ڈیمو کریٹک ٹکٹ کی امیدوار ہوں گی ۔سابق خاتون اول نے بارک اوباما کے مقابلے میں بھی اپنی انتخابی مہم چلائی تھی مگر پارٹی نے پہلی عورت کی بجائے پہلے سیاہ فام مرد کو امیدوار نامزد کر دیا ۔اوباما صدر چنے گئے تو انہوں نے مسز کلنٹن کو وزیر خارجہ مقر رکیا۔ ان کی خودنوشت "Hard Choices" بڑی حد تک اسی چار سالہ دور کی یادداشتوں پر مبنی ہے‘ جن کا ایک حصہ پاک امریکہ تعلقات کا احاطہ کرتا ہے۔2مئی 2011ء کو رات ایک بجے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خفیہ ٹھکانے پر بحری فوج کے ایک خاص الخاص دستے 'Seals‘ کے 24آدمیوں کے حملے کا بیان: ''جب سپاہی بھیس بدل کراحاطے کے کورٹ یارڈ سے گزر رہے تھے اور بن لادن کی تلاش میں اندر جا رہے تھے ہم نے ایک ویڈیو فیڈ پر یہ منظر دیکھا۔ کچھ خبروں اور فلموں میں آپ جو دیکھتے ہیں‘ اس کے برعکس ہمارے پاس یہ دیکھنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا کہ عمارت کے اندر کیا ہو رہا ہے ۔ہم زمین پر اپنی ٹیم کی جانب سے تازہ اطلاعات کا انتظا ر کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے ۔میں نے صدر کی جانب دیکھا ۔ وہ پُرسکون تھے۔ ان کے شانہ بشانہ کام کرنے پراس سے زیادہ افتخار شاذ و نادر ہی پایا تھا جو اس روز میں نے محسوس کیا‘‘۔ 
ری پبلکن لیڈر اور حکمت عملی کے ماہرین‘ ہلیری کلنٹن کی ساری عملی زندگی میں کیڑے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ مگر ظاہر ہے کہ وہ عرب بہار کے بعد بحرانی کیفیات سے نپٹنے‘ لبیا میں ایک سفیر اور تین دوسرے امریکیوں کی ہلاکت اور یوکرائن 
کے معاملے میں روس سے تعلقات پر نظر ثانی میں ان کی مبینہ ناکا می پر زیادہ توجہ دیں گے ۔خاتون اور اوباما حکومت کے دوسرے ارکان ان سوالوں کے جواب دے چکے ہیں ۔اپنی انتخابی مہم کے دوران مسز کلنٹن‘ بن لادن کی ہلاکت کو اپنی وزارت کا سب سے بڑا کارنامہ بتائیں گی ۔انہوں نے صدر اوباما کا ارادہ پختہ ہونے سے پہلے اور نائب صدر جو بائڈن اور وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کی پیہم مخالفت کے باوجود پاکستان پر حملے کی بھر پور تائید کی تھی۔ وہ لکھتی ہیں: ''یہ ایک ذاتی سفر بن گیا‘ جو میں نے اس سفارش تک پہنچنے میں طے کیا کہ صدر کے سیلز (Seals) کو چھاپے کا حکم دینے کی خاطر خواہ وجوہ موجود ہیں‘‘۔ 
واقعہ ایبٹ آباد‘ ہلیری کلنٹن کی وزارت خارجہ پر ایک کتاب 'HRC‘ میں زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جو سال رواں کے شروع میں شائع ہوئی تھی ۔ کتاب کے مصنف دو صحافی لکھتے ہیں: ''لیون پنیٹا‘ جو ان دنوں سی آئی اے کے سربراہ تھے‘ کہتے ہیں کہ سات مارچ کو لنچ پر انہوں نے وزیر خارجہ مادام کلنٹن کو بتایا کہ ان کے تجزیہ کاروں کے مطابق ایجنسی کو بن لادن کے خلاف عملی کارروائی کا پہلا اشارہ ملا ہے‘ جو ایبٹ آباد تک جاتا ہے ۔انہوں نے نیم شہری علاقے میں اس احاطے کی تفصیلات ان کے سامنے رکھیں جہاں بن لادن کی رہائش بتائی گئی تھی۔انہوں نے وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کے ان افسروں کے شکوک و شبہات دور کرنے 
میں خاتون کی امداد چاہی جو اس کارروائی کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ خاتون بلا تاخیر رضا مند ہو گئیں اور موقع ملتے ہی انہوں نے صدر کو سفارش کر دی‘‘۔ وہ کہتی ہیں: ''صدر کے سر کردہ مشیر بٹے ہوئے تھے ۔جاسوسی اچھی تھی مگر یقینی ہونے سے کوسوں دور تھی ۔ناکامی کے خطرات حوصلہ شکن تھے‘‘۔ واردات کے بعدپاکستان کی جانب سے امریکہ کو جس سفارتی برہمی کا سا منا ہوا اس سے عہدہ برآ ہونا وزیر خارجہ کلنٹن کی ذمہ داری بنا ۔
وزیر خارجہ مسز کلنٹن کے دور میں پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بالعموم کھردرے رہے۔26نومبر 2011ء کو مہمند ایجنسی فاٹا میں سلالہ کی سرحدی چوکی پر نیٹو فوجوں کے ہوائی حملوں میں دو درجن سے زیادہ فوجیوں کی شہادت اور رد عمل کے طور پر پاکستان کے راستے نیٹو کی رسد بند ہونے کے واقعا ت اسی دور میں رونما ہوئے اور اگلے سال تین جولائی کو امریکہ کی جانب سے مسز کلٹن کے معا فی مانگنے پر یہ رسد بحال ہوئی۔ پاکستان‘ دہشت گردی سے جنگ میں گو ہزاروں فوجی اور سول شہری قربان کر چکا تھا ( اور کر رہا ہے ) پھر بھی امریکہ کی جانب سے مزید کچھ کرکے دکھاؤ یعنی ''Do More‘‘ کی تلقین اکثر سنائی دیتی تھی۔ شاید اسی تلقین سے تنگ آ کر پشاور کی ایک خاتون نے مسز کلنٹن کو ''پاکستان کی ساس‘‘ کہا اور انہیں کھل کر ہنسنے کا موقع دیا۔ انہوں نے کہا: ''یہ تشبیہ میں نے پہلے کبھی نہیں سنی‘‘۔ اس کے بعد جلد ہی چیلسی کی شادی ہو گئی مگر روایتی ساس کہلانے کی حسرت ان کے دل ہی میں رہی کیونکہ ان کے ہاں نرینہ اولاد نہیں تھی؛ تاہم امریکی رائے دہندگان کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق خاتون کی کار کردگی اس عہدے پر فائز ہونے والی دو دوسری عورتوں ‘ میڈلین آلبرائٹ اور کنڈولیزا رائس‘ کی نسبت بہتر رہی اور اگر ان کے حلقے میں آج صدارتی رائے شماری ہو تو نائب صدر بائڈن سمیت آٹھ ڈیموکریٹوں کے مقابلے میں 69فیصد ووٹ انہیں پڑیں گے۔ 
ریپبلکن‘ جو سینٹ اور وائٹ ہاؤس پر قبضے کے خواب دیکھ رہے ہیں‘ مسز کلنٹن کے اس کام کو چیلنج نہیں کریں گے کیونکہ بن لادن کو‘ جنہیں نائن الیون کے قتل عام کا مفرور سمجھا گیا‘ ما رنا سیاست سے بالاتر ہے۔ کٹھن فیصلے کرنے میں مسز کلنٹن کے کردار کو اجاگر کرنا‘ خطرے سے خالی نہیں ۔ڈیمو کریٹک پارٹی کے کچھ لبرل خبر دار کرتے ہیں کہ اس سے خاتون کا عقابی کردار اُجاگر ہوگا لیکن وہ چھاپے کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کا کریڈٹ لینے سے انکار نہیں کریں گی۔ 
وہ افغانستان میں تیس ہزار فوجیوں کی تازہ دم کمک بھیجنے پر اوباما انتظامیہ کے اند ر اٹھنے والی بحث کا بھی ذکر کرتی ہیں ۔وہ اور وزیر دفاع کمک کے حق میں تھے جب کہ نائب صدر نہیں تھے؛ تاہم مسز کلنٹن نے صدر کے اس اعلان پر نکتہ چینی کی کہ تعیناتی کے آٹھ ماہ بعد امریکی سپاہی گھر لوٹنے لگیں گے۔ وہ لکھتی ہیں: ''یہ تاریخ میری توقعات سے زیا دہ دو ٹوک تھی‘‘۔ جو بات کتاب سے واضح نہیں‘ یہ ہے کہ آیا ان بحثوں کے دوران کبھی انہوں نے اس ڈیڈ لائن کی مخالفت بھی کی تھی؟
اپنی کتاب میں مسز کلنٹن عراق کے خلاف جنگ کے حق میں ووٹ دینے سے تائب ہوتی ہیں ۔وہ لکھتی ہیں کہ اس وقت تک جو ثبوت سامنے آیا وہ سجدہ سہو کا ہی تقاضا کرتا تھا۔ مگر اصل حقائق بعد میں منظر عام پر آئے اور کئی دوسرے سینیٹروں نے بھی اس غلطی کا اعتراف کیا۔ سینیٹر بارک اوباما نے قرار داد کے خلاف ووٹ دیا اور وہ جنگ مخالف انتخابی منشور کی بنا پر صدارتی میدان میں نکلے تھے ۔ ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار جان ایڈورڈزنے اپنی غلطی کا اعتراف کیا تھا۔ ہلیری کلنٹن بھی اگلا صدارتی الیکشن اوباما کے انتخابی منشور کے بل پر لڑنا چاہتی ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ اس کتاب کے مطابق ابھی انہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا مگر کتاب کی پذیرائی کی جو مہم شروع کی جارہی ہے وہ ایک صدارتی مہم سے ملتی جلتی ہے۔ یادداشتوں کی فروخت منگل کے دن شروع ہوئی اور ہلیری کلنٹن اس تقریب کے لیے ناشر کے ایک سٹور میں جا پہنچیں۔ اس موقع پر ایک طالبہ نے ان سے پوچھا: ''کیا آپ صدر بننے کی صلاحیت اور وژن رکھتی ہیں؟‘‘ خاتون نے جواب دیا۔ ''ہاں‘ اگر میں نے الیکشن میں حصہ لیا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں