متبادل رضا کار کی تلاش

عاطف کے بیٹے راشد نے بارہ سال دورانیے کا ہائی سکول پاس کیا تھا اور اس خوشی میں اس کے گھر پارٹی ہو رہی تھی ۔پارٹی میں اس کا بڑا بھائی احسن اور چھوٹا آ صف اپنے کنبوں سمیت شریک تھے ۔ باقی مہمانوں میں سفید اور سیاہ فام امریکیوں کے علاوہ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش سے نقل وطن کرنے والے لوگ بھی شامل تھے ۔میز پر انواع و اقسام کے بین الاقوامی کھانے رکھے تھے مگر عاطف قدرے فکر مند تھا ۔پوچھنے پر بتایا کہ اس نے سکول کی گریجوایشن پارٹی کے لئے خود کو والنٹیئر کر رکھا ہے جو رات گئے تک جاری رہے گی جبکہ صبح کو جاب کے سلسلے میں اسے بوسٹن جانا ہے لہٰذا وہ ایک متبادل رضا کار کی تلاش میں ہے ۔
احسن کو اعتراض ہے کہ اس کے بھائی کی رہائش عظیم تر واشنگٹن میں ہے مگر ملازمت ڈھائی سو میل دُور شمال میں کرتا ہے اور تقریباً روزانہ بوسٹن کا ہوائی جہاز لیتا ہے ۔اسے یہ بھی گلہ ہے کہ راشد نے کالج کے لئے فلسفے کے مضمون کا انتخاب کیا ہے جب کہ اس میدان میں نوکریاں تقریباً معدوم ہیں ۔عا طف کو ان شکایتوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اسے تو صرف متبادل رضاکار کی تلا ش تھی جو بیوی کی شکل میں گھر سے مل گیا اور اس نے اطمینان کا ایک لمبا سانس لیا۔ 
سترہ اٹھارہ سال کے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے سکول کی پارٹی کا مطلب ؟ اس کی وضا حت عاطف نے مختصراً یوں کی: سکول کے حکام کو معلوم ہے کہ بچے ہائی سکول سے گلو خلاصی کا جشن منانے کے لئے کلبوں‘ ریستورانوں اور شراب خانوں کا رخ کرتے ہیں‘ ہر قسم کی خرمستیاں روا رکھتے ہیں اور صبح ہونے پر اکثر نشے کی حالت میں گھر لوٹتے ہیں ۔انہوں نے سکول کے اندر ہی فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کے لئے ''ہول سم فن‘‘ کا اہتمام کر دیا ہے جو بالغ رضاکاروں کی نگرانی میں رات بھرجاری رہتا ہے اور جس میں رقص و سرود‘ کھیل تماشے اور جدید میوزک شامل ہوتے ہیں مگر منشیات اور دوسری بے ہودگیوں کو دور رکھا جاتا ہے ۔
یہاں ہر معاشرتی عمل تعلیم کے گرد گھومتا ہے ۔ہائی سکول تک تعلیم لازم اور مفت ہے ۔ یہ امر صرف آئین کا جزو نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کے لئے پورا اہتمام کیا گیا ہے جس کا ایک ثبوت زرد رنگ کی وہ بسیں ہیں جو ہر کاؤنٹی میں صبح شام دوڑتی بھاگتی دکھائی دیتی ہیں اور سکول سے ایک میل سے زیادہ دُور رہنے والے بچوں کو ان کے گھروں سے اٹھا تی اور تعلیم کے اوقات کے بعد واپس اتارتی ہیں۔ بچے‘ دوپہر کا کھا نا سکول کے کیفے ٹیریا میں کھا تے ہیں اور جو بچے مالی لحاظ سے اس کے متحمل نہ ہو سکیں وہ اشیائے خورونوش مفت لے سکتے ہیں۔ اٹھارہ سال کی عمر پانے والے طلبا کو ڈرائیونگ پرمٹ مل جاتا ہے اور اکیس سال کی عمر میں وہ الکوحل اپنے پاس رکھ سکتے ہیں ۔ جب بش جونیئر کی جڑواں بیٹیاں انیس سال کی عمر میں اپنی آبائی ریاست ٹیکساس میں بیئر خریدنے کی کوشش میں گرفتا رہوئیں‘ ایک جعلی شنا ختی کارڈ استعمال کرنے کی بنا پر اور دوسری مطلوبہ عمر کو پہنچے بغیر الکوحل پاس رکھنے کے جرم میں‘ تو ان کے والد صاحب ملک کے صدر تھے ۔ با ایں ہمہ قانون کی عملداری مکمل ہو کر رہی ۔چونکہ امریکہ میں سٹیٹ اورمذہب الگ الگ رکھے گئے ہیں‘ اس لئے سرکاری سکولوں میں مذاہب کے ثقافتی پہلو کی تعلیم تو دی جاتی ہے مگر کسی مذہب یا عقیدے کا پرچار یا مخالفت آئینی لحاظ سے ممنوع ہے۔ جو لوگ اپنے بچوں کو اپنے عقائد کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں وہ انہیں نجی سکولوں میں داخل کراتے ہیں‘ جہاں بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں‘ مگر جو تعلیم یا سہولتوں کے اعتبار سے سرکاری سکولوں سے بڑھ کر نہیں ہیں ۔تعلیم کے بعد سب سے زیادہ توجہ بچوں کی صحت پر دی جاتی ہے اور ہائی سکول سے نکلنے والے بچوں کے لئے پارٹی کا اہتمام اسی پالیسی کا حصہ تھا ۔
موجودہ صدی میں امریکہ میں سکولوں اور کالجوں میں گولی چلنے کے جو واقعات رونما ہوئے‘ ان میں کم و بیش ایک سو بچے جاں بحق ہوئے ۔ بیشتر معاملات میں گولی چلانے والا ذہنی مریض نکلا اور اس نے اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کر لیا۔ اکثر نے اپنے والدین کے نام پر رجسٹرڈ آتشیں اسلحہ استعمال کیا۔ اس کے بعد گن کنٹرول کی ایک اور لابی مہم جاری ہوئی جو اب تک پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی۔ گن لابی کا کہنا ہے کہ بندوق نہیں اس کا گھوڑا دبانے والا قاتل ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں ورجینیا ٹیک کی مثال دی جاتی ہے جو ایک مشہور ریاستی یونیورسٹی ہے اور جہاں ایک طالب علم نے 33ہم سبقوں کو موت کی نیند سلانے کے بعد خودکشی کر لی۔ اسی لئے سکولوں میں بچوں کی حفا ظت (سیفٹی) کے انتظامات میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے ۔پاکستان میں بھی سکولوں بالخصوص طالبات کی درس گاہوں کو دہشت گردی کا آسان شکار سمجھا جاتا ہے اور ملالہ یوسف زئی کا زخمی ہو کر جلا وطن ہونا اس کی ایک مثال ہے ۔
امریکی سکولوں میں بچوں کو جو تعلیم دی جاتی ہے‘ اس کا لب لباب یہ ہے کہ زندگی قدرت کا بیش بہا عطیہ ہے‘ جو ایک ہی بار ملتا ہے اور اسے دانشمندی سے مکمل نہ کرنا نادانی ہے ۔ زندگی کی حفاظت کے لئے قوانین بنائے جاتے ہیں جن کی بنیاد اس کلیے پر ہوتی ہے کہ انسان موت سے ڈرتا ہے ۔ اسپتالوں کا نظام کس لئے ہے ؟ یہER اورICU کیوں ہیں؟ حکومتیں دوا دارو کا انتظام کیوں کرتی ہیں ؟ یہ عدالتیں کس لئے بیٹھی ہیں ؟ سرکاری افسر اور دولت مند لوگ طبی معائنہ کے لئے ملک سے باہر کیوں جاتے ہیں ؟ جاں بلب افراد کے لئے امداد کی اپیلیں نشر کیوں ہوتی ہیں؟ اپنے وطن میں اجڑنے والے کون ہیں ؟ لوگ جان بچا کر کیوں بھاگتے ہیں ؟ یہ چور سپاہی کا کھیل کیا ہے ؟ سالہا سال تک یہ سکھایا جاتا رہا کہ زندگی عارضی ہے اور اصل حیات 'بعد از موت‘ ہے جو لافانی ہے۔ آج کئی مسلمان بقول امام کعبہ جنت میں جانے کی عجلت میں خود کش دھماکے کرتے ہیں ۔ ہم مغرب پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہماری بہت سی ا قدار لے اُڑا اور ان پر عمل پیرا ہو کر ترقی کر رہا ہے ۔حکم ہوا کہ علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔کسی غزوے میں بہت سے دشمن لڑاکے جنگی قیدی ہو کر آئے تو حکم ہوا کہ جو کوئی مسلمانوں کو تعلیم دے گا اسے آزادی ملے گی ۔ اب سکولوں میں روایات کو حقائق کا رنگ دیا جاتا ہے اور مدرسوں میں مسالک کی تعلیم دی جاتی ہے ۔جب تعلیم کے احکامات آئے دینی اور دنیاوی کا امتیاز نہیں کیا گیا ۔چین جانا یا جنگی قیدیوں سے دینی تعلیم کی امید رکھنا عبث تھا۔ 
مسلمانوں سمیت بیشتر امریکی ایک بچے کی پرورش پر آنے والے اخراجات کا حساب رکھتے ہیں اور اپنی آمدنی کی بنا پر بچے پیدا کرتے ہیں‘ اسی لئے احسن اور اس کے بھائیوں نے فی خاندان دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کئے۔ چین کی آبادی ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ ہم اس کی ترقی کا تذکرہ تو اکثر کرتے ہیں مگر آسانی سے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اس نے ایک بچہ فی خاندان کو قومی پالیسی بنا رکھا ہے ۔ایک آفت سماوی کے دوران ایک ٹیلی وژن چینل پرایک عورت کو یہ وا ویلا کرتے سنا کہ آٹھ بچے تو میرے ہیں اور نو میری سوتن کے‘ اب حکومت کو ان کی دیکھ بھال کرنی چاہئے ۔ بچوں کی تعداد اور دوسری یا تیسری شادی کرنے پر ہمارے ہاں عملاً کوئی پابندی نہیں رہی ۔ حکومت بھی ایسی اپیلوں پر لبیک کہنے کے لئے ہمیشہ تیار نظر آتی ہے ۔وہ زائد کرنسی نوٹ چھاپتی ہے اور متاثرہ کنبوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ اس سے مہنگائی میں اضافہ ہو تا ہے‘ لوگ پھر اس پر وا ویلا کرتے ہیں اور بعض اوقات اسے رمضان مبارک کا تحفہ کہتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں