سو فُٹ کا سفر

امریکی فلمسازوں اور بھارتی اداکاروں کے نام دلکش تھے‘ اس لئے کشاں کشاں محلے کے ایک سنیما گھر جا پہنچا ۔فیچر فلم دیکھ کر پتہ چلا کہ یہ ممبئی کے ایک مسلمان گھرانے کی کہانی پر مبنی ہے جو اپنا گھر اور کاروبار سیاسی بلوائیوں کی بھینٹ چڑھا کر فرانس کا رخ کرتا ہے اور ایک گاؤں میں ایک ریستوران کھول کر آباد ہو جاتا ہے۔ کہانی کار سٹیون نائٹ نو واردوں کے مذہب اور ترکِ وطن کی مشکلات کی بحث میں نہیں پڑا۔ ان کے دین کا اندازہ ان کے ناموں سے ہوتا ہے ۔یہ قدم خاندان کا قصہ ہے جس کے سربراہ کا کردار (پاپا) اوم پوری ادا کرتا ہے اور جس کا ہیرو حسن حاجی (منیش دیال) ہے۔ کہانی کے دوسرے بڑے کردار منصور (امیت شاہ)، کم عمر حسن حاجی (روہان چند ) اور ایک جواں سال بہن ہیں۔ فلمسازوں میں سٹیون سپیل برگ اور اوپرا ونفری جیسے بڑے نام دکھائی دیتے ہیں اور انہوں نے سرکردہ اداکا روں میں بین الاقوامی ستارے ہیلن مائرن ( مادام میلری) اور شارلٹ لبون ( مار گریٹ) بھی شامل کئے ہیں مگر پوری فلم دیکھ کر ایک با ریک بین تماشائی یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ دلچسپ اور جاذبِ نظر ہونے کے باوجود یہ ایک فارمولا فلم ہے ۔
فلم The Hundred-Foot Journey کا آغاز ممبئی میں قدم خاندان کے ایک کامیاب ریستوران سے ہوتا ہے جس پر الیکشن کے بینر اٹھائے ایک ہجوم کا حملہ ہوتا ہے۔ سامان کو آگ لگا دی جاتی ہے اور ماما (جوہی چاولہ) زندہ جل جاتی ہے۔ پاپا گھر کے باقی افراد کو لے کر مغربی فرانس کا رخ کرتا ہے اور اہلِ خانہ کی مخالفت کے با وصف ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک ہندوستانی ڈھابہ کھولتا ہے ۔دوسری جانب سو فٹ کے فاصلے پر مادام میلری کا فرنچ ریستوران ہے ۔ یہ ایک ہندوستانی اور ایک فرانسیسی ریستوران کی کاروباری رقابت کی کہانی ہے جو بالآخر مصالحت پر ختم ہوتی ہے۔ مادام میلری اپنا فرنچ ریستوران حسن کے حوالے کرکے ریٹائر ہو جاتی ہے اور حسن کو فرنچ ریستوران کی ویٹریس مارگریٹ میں اپنی دیرینہ محبت مل جاتی ہے۔ یوں پاپا اور اس کا بیٹا سو فٹ کا سفر مکمل کرتے ہیں ۔
ہدایت کار لیس ہارلسٹون نے دو تہذیبوں میں چپقلش کی داستان بڑی معروضیت سے پیش کی ہے ۔ پاپا منڈی سے وہ تمام خام اشیا خرید لیتا ہے جن پر مادام میلری کے ریستوران کی تجارتی کامیابی کا انحصار ہے اور مادام اپنے ایک مستقل گاہک‘ جو ایک صوبائی وزیر ہے‘ کے ذریعے پاپا کو دھمکی دیتی ہے کہ اس نے اپنے ریستوران کی عمارت میں کچھ غیر قانونی تبدیلیاں روا رکھی ہیں۔ پاپا ریستوران کا خول‘ جو اسے تاج محل کی جھلک دیتا ہے‘ خود گرا دیتا ہے۔ حسن باعث فخر بھارتی کو زین کو فرانس کا شہرت یافتہ تڑکہ لگاتا ہے اور پیشہ ورانہ کامرانی کی منزلیں طے کرتا ہوا پیرس کے سب سے بڑے ریستوران میں شیف لگ جاتا ہے ۔پاپا کی ثا بت قدمی کے سامنے مادام اپنے ہتھیار ڈال دیتی ہے اور ایک صبح وہ انڈین ریستوران کی بیرونی دیوار پر درج کرائی گئی در فنطنی (گریفٹی) کو کھرچ کر مٹاتی دکھا ئی دیتی ہے ۔ حسن پیرس میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد وا پس گاؤں آ جاتا ہے اور مادام اور مارگریٹ سے ملتا ہے۔ اسے گاؤں کی سادگی اور اس کے کرداروں کی محبت کھینچ لاتی ہے۔ سینماٹوگرافر نے گاؤں کے قدرتی مناظر کو بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔
امریکہ میں فلم کو ایک امریکی پروڈکشن اور ایک کامیڈی کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔جب میں تھیٹر میں داخل ہوا تو ٹریلر شروع نہیں ہوئے تھے مگر ہال تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا‘ جو سب فلم کی ابتدا کے منتظر تھے ۔پاپا کے کنبے کے افراد بعض اوقات ہندی (اردو) میں اور کچھ وقت فرانسیسی میں بات کرتے ہیں۔ تماشائی ان مکالموں پر چپ رہتے ہیں مگر تہذیبوں کے تصادم پر قہقہے لگا کر داد دیتے ہیں۔ ایسا ایک مرحلہ اس وقت آتا ہے جب پیرس سے حسن کی پیشہ ورانہ مصروفیات کی تصویریں موصول ہوتی ہیں اور پاپا ایک تصویر کو دیکھ کر یہ الفاظ ادا کرتا ہے: ''لڑکا تو کوئی دہشت پسند لگتا ہے‘‘ تو تماشائی ہنس دیتے ہیں ۔فلم کی موسیقی اے آر رحمن نے ترتیب دی ہے جو مغربی میوزک کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ تماشائی موسیقی کی بھر پور داد دیتے ہیں مگر اکثر موسیقار کی عظمت اور شہرت سے بے خبر ہیں حالانکہ وہ چار سال قبل ایک اور امریکی پروڈکشن Slumdog Millionaire پر آسکر ایوارڈ جیت چکے ہیں ۔
صغیر طاہر نے چوتھی بار نیو ہمپشائر ریاستی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد اپنی کامیابی کا راز یہ بتا یا تھا: ''میرے حلقے میں کوئی پاکستانی ووٹر نہیں ہے‘‘۔ وہ سیاست میں معراج کو پانے والے پاکستانی تھے ۔اگرچہ سردار دلیپ سنگھ سوندھ کے عرصہ بعد اب دو مسلمان وفاقی ایوان نمائندگان کے رکن ہیں مگر وہ دونوں امریکہ میں پیدا ہونے والے سیاہ فام ہیں اور گلہ کرتے ہیں کہ امریکی مسلمان دینی مقاصد پر تو فراخدلی سے ڈالر خرچ کرتے ہیں مگر پیہم اپیلوں کے با وجود سیاسی عہدوں کے لئے کھڑے ہونے والوںکو چندہ نہیں دیتے (اس ملک میں پچانوے فیصد امیدوار عوام اور خواص کے عطیات سے الیکشن لڑتے ہیں)۔ بھارتی امریکیوں نے یہودی امریکیوں کی طرح مسلمان سیاسی عہدیداروں کی یہ بات پلے باندھ لی ہے اور وہ امریکی معاشرے کے ہر شعبے میں نمایا ں دکھائی دیتے ہیں۔ لوزی آنا اور ساؤتھ کیرولائنا کے گورنر بھارتی تارکین وطن کی اولاد ہیں مگر وہ امریکی رائے دہندگان کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں۔ محکمہ بین الاقوامی امداد اور قومی دارالحکومت کے سربراہ بھارتی اصل کے لوگ ہیں ۔ اس سال ان میں سے ایک ''مس امریکہ‘‘ چنی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ وہ سول سروس‘ ذرائع ابلاغ‘ یونیورسٹیوں‘ ہالی وڈ‘ فیشن‘ کاروبار‘ مسلح افواج‘ مذہب‘ ادویات‘ کھیل اور خورونوش کے اداروں اور صنعتوں میں نمایاں ہیں ۔
ہمارا فلمی ہیرو ہنستے کھیلتے شیف کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔ اس سے پہلے حقیقی دنیا میں وکاس کھنہ ان معدودے چند بھارتی امریکیوں میں سے ایک تھے‘ جو اس مقام تک پہنچے۔ وہ ایک ریستوران چلانے کے علاوہ مصنف‘ ٹی وی میزبان اور فلمساز بھی ہیں ۔ایچ جے دنیش نے امریکن ویگن سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی ۔
ناول نگار رچرڈ موریس نے‘ خورونوش میں جسے کلنری آرٹس کے شایان شان نام سے پکارا جاتا ہے‘ بھارت کی عظمت اجاگر کی ہے اور بھارتی امریکیوں نے سٹیک کی دنیا میں ویجی ٹیرین کوزین‘ سبزی خوری کو رواج دیا ہے ۔ وہ دال اور بعض سبزیوں میں پروٹین کی موجودگی کی نشان دہی کرتے ہیں اور گوشت کی جملہ اقسام کے علاوہ مرغی کے انڈے سے بھی پرہیز بتاتے ہیں جس کی زردی کولیسٹرول کی زائد پیداوار کا سبب بن سکتی ہے ۔حال ہی میں جدید طبی احتیاطیں ان کی تائید کرنے لگی ہیں۔ (اس سے پہلے وہ امریکہ میں یوگا کی بنیادیں مضبوط کر چکے ہیں) تاہم ناول یا فلم میں گوشت خوری اور سبزی خوری کا امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں