چٹھی رساں کا قتل

پرانی کہاوت ہے کہ دو گروہوں کے تصادم میں پہلا جانی نقصان سچ کا ہوتا ہے۔ پاکستان سے زیادہ کون اس کہاوت کی تصدیق کرے گا۔ جب سے انتہا پسندوں نے پاکستانیوں کی مسجدوں‘ کلیساؤں‘ مندروں‘ گلی کوچوں اور جنازوں پر جان لیوا حملے شروع کئے ہیں‘ صحافی مارے جا رہے ہیں۔ صحافیوں کو مارنا آسان ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہوتا‘ زیادہ سے زیادہ ایک قلم اور کیمرا ہوتا ہے۔ ان کو اپنی مرضی کے مطابق لکھنے یا رپورٹ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کریں اور معروضیت کا دامن تھامے رہیں تو انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ چٹھی رساں کے قتل سے چٹھی لکھنے والے کے خلاف انتقامی کارروائی تو مکمل نہیں ہوتی۔
ایک نیا ویڈیو‘ جسے نام نہاد خلافت اسلامیہ (داعش) سے منسوب کیا جاتا ہے‘ امریکی صحافی سٹیون جے سوٹلوف (Steven J. Sotloff ) کا سر قلم کیے جانے کا ہولناک منظر دکھاتا ہے۔ یہ گروہ شام اور عراق کی بین الاقوامی سرحد کو تسلیم نہیں کرتا اور ترکوں کی خلافت کو‘ جو پہلی جنگ عظیم کے بعد جنرل کمال اتاترک اور ان کے ساتھیوں نے ختم کر دی تھی‘ بحال کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آخری خلیفہ عبدالحمید نے جلال الدین افغانی کو یہ مشن اور بہت سے پیسے دے کر برطانوی ہند بھیجا تھا۔ گاندھی اور ان کے مسلم کانگرسی ساتھیوں نے اس کا خیر مقدم کیا‘ مگر قا ئد اعظم نے اسے مسترد کر دیا۔ خواتین اس مشن کی اصل غرض و غایت سے بے خبر تھیں۔ ایک طرف وہ ایسے گیت گا کر کمال اتاترک کو خراج تحسین پیش کرتی تھیں ''غازی مصطفیٰ پاشا کمال وے تیریاں دور بلاواں‘ تینوں روندے سمرنا دے بال وے تیریاں دور بلاواں‘‘ اور دوسری جانب یہ کہہ کر اس کی مذمت کرتی تھیں ''یہ بولیں اماں محمد علی (جوہر) کی‘ جان بیٹا خلافت پہ دینا‘‘۔ یہ فکری انتشار اب تک چلا آ رہا ہے۔ خلافت عثمانیہ میں سعودی عرب اور خلیج کے دوسرے ملک بھی شامل تھے۔ داعش کو خوش فہمی ہے کہ وہ مسلم اکثریت کے تمام ملکوں کی سرحدیں مٹا دے گی اور بہت سے مسلمان‘ جو مسلم اکثریت کے ملکوں کی باہمی چپقلش سے تنگ ہیں‘ اس کی حمایت کرتے ہیں اور اسی طرح اس کی یلغار کی داد دیتے ہیں جیسا کہ پاکستان اور افغانستان کے بہت سے لوگوں نے کابل پر طالبان کی لشکرکشی کا ساتھ دیا تھا‘ مگر وہ سولہ سو میل لمبی ڈیورنڈ لائن کے خاتمے کی حمایت نہیں کر سکتے۔
داعش نے ایک مہینے میں دوسری بار ایک صحافی کے قتل کی ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈالی ہے۔ اس سے پہلے وہ فوٹو جرنلسٹ جیمز فولی (James Foley) کا سر قلم کرنے کا منظر دکھا چکی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ امریکی بمباری کے جواب میں ایسا کر رہی ہے‘ جبکہ امریکی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ داعش رضا کار بھرتی کرنے کے لئے مغربی صحا فیوں کو تہ تیغ کر رہی ہے۔ نائب صدر جو بائڈن نے انتہا پسندوں کو انتباہ کیا کہ ''ہم جہنم کے دروازوں تک تمہارا تعاقب کریں گے کیونکہ آ خرکار یہی تمہارے رہنے کا مقام ہے‘‘۔ امریکہ نے عراق پر فوج کشی کی غلطی کرنے کے بعد مشرق وسطیٰ کی سیاست کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس نے فولی کے قتل کے بعد داعش پر ایک سو سے زیادہ ہوائی حملے کئے اور موصل ڈیم کو ان کی یلغار سے بچایا ہے‘ مگر شام کی خانہ جنگی میں مداخلت نہیں کی‘ اگرچہ واشنگٹن چاہے گا کہ باغیوں کو فتح نصیب ہو اور وہ بشارالاسد کی مطلق العنانی کا تختہ الٹ دیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ خواہش مداخلت کے لیے کافی جواز نہیں۔
سوٹلوف کی عمر اکتیس سال تھی۔ وہ ٹائم‘ فارن پالیسی میگزین اور دوسرے رسالوں میں لکھتا تھا۔ فولی بھی تقریباً انہی اخباروں اور رسالوں کو تصویریں مہیا کرتا اور روزی کماتا تھا۔ داعش نے انہیں مغربی سمجھ کر موت کے گھاٹ اتارا۔ قاتلوں میں سے کچھ نے انہیں مغربی طاقتوں کا آلہ کار تصور کیا ہو گا۔ بچپن میں سرد جنگ کے پروپیگنڈا کے زیر اثر میں بھی اسی گمان میں تھا‘ مگر ستر کے عشرے میں امریکہ آ کر جب میں نے ویت نام کی جنگ کے خلاف بڑے بڑے جلوس دیکھے‘ پینٹاگان پیپرز کی کہانی پڑھی‘ مائی لائی (جنوبی ویتنام) کے قتل عام سے واقف ہوا‘ گوانتانامو بے کے حالات سے آگہی حاصل کی‘ واٹر گیٹ سکینڈل کو ابھرتے دیکھا‘ ابو غرائب جیسے جگر خراش مناظر دیکھے‘ وکی لیکس سے باخبر ہوا اور ایڈورڈ سنوڈن کے فرار کی رپورٹیں دیکھیں‘ تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام تر امریکی صحافت کو امریکی حکومت کی آلہ کار کہنا درست نہ ہو گا۔ یہ سب اخباری اطلاعات حکومت کی خفت کا باعث تھیں‘ جو امریکی رپورٹروں نے مہیا کی تھیں۔ یاد پڑتا ہے کہ سفیر این ایم رضا نے واشنگٹن پوسٹ میں جوزف السوپ کے کالم سے خوش ہو کر ایک پاکستانی قالین اسے تحفے میں بھیجا تھا‘ جو اس نے واپس کر دیا۔ بیشتر امریکی اخبار نویس ''نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا‘‘ کے اصول پر کام کرتے ہیں۔ (صدر ذوالفقار علی بھٹو نے واشنگٹن سے واپس جا کر ریٹائرد جنرل رضا کو سبکدوش کر دیا تھا)
یہاں میں پینٹاگان پیپرز کی کچھ تفصیل بیان کرتا ہوں۔ سرکاری طور پر اس رپورٹ کا نام تھا :Vietnam Relations (1945-67) ۔ ڈینیل ایلسبرگ‘ جو صدر جانسن کے وزیر دفاع رابرٹ میکنامارا کے ساتھ کام کر چکے تھے‘ ان دنوں رینڈ کارپوریشن سے وابستہ تھے۔ وہ محکمہ دفاع (پینٹاگان) کی اس رپورٹ کے مندرجات سے واقف تھے اور یہ واقفیت ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی تھی۔ دوسری باتوں کے علاوہ اس میں کہا گیا تھا کہ جانسن ایڈمنسٹریشن نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جھوٹ بولا‘ نہ صرف عوام بلکہ کانگرس کے سامنے بھی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ حکومت نے ہمسایہ کمبوڈیا اور لاؤس پر بم برسا کر اور شمالی ویتنام کے ساحلی علاقوں پر حملے کر کے‘ جن میں سے ایک بھی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ نہیں کیا تھا‘ جنگ کا دائرہ وسیع کر دیا تھا۔ ایلسبرگ نے رپورٹ کی 43 جلدیں نیو یارک ٹائمز کے رپورٹر نیل شیہان کے حوالے کیں اور اخبار نے قانونی صلاح مشورے کے بعد تیرہ جون 1971 ء کو ان کی اشاعت شروع کر دی۔ نتیجے میں رپورٹ کو جو تشہیر ملی اس سے اس کا نام پینٹاگان پیپرز پڑا۔ گلی کوچوں میں مظاہرے ہوئے۔ سیاسی بحث و تکرار ہوتی رہی اور مقدمے چلے۔
سنوڈن کو الیکٹرانی جاسوسی بالخصوص برازیل اور جرمنی جیسے اتحادی ملکوں کے سربراہوں کی مخبری سے متعلق امریکی حکومت کے سرکاری راز فاش کر کے روس میں پناہ لینا پڑی‘ مگر واشنگٹن پوسٹ محفوظ رہا۔ اسی طرح نیویارک ٹا ئمز پہلی ترمیم کے دامن میں پناہ گزین ہوا مگر ایلسبرگ پر سازش‘ جاسوسی اور چوری کا الزام لگا‘ جو بعد میں منسوخ ہو گیا‘ کیونکہ واٹر گیٹ کے معاملے کی تفتیش کرنے والوں نے جلد ہی دیکھا کہ نکسن انتظامیہ نے بھی ایلسبرگ کو بدنام کرنے کا غیر قانونی کام وائٹ ہاؤس کے نام نہاد پلمبرز کو سونپا تھا۔ ایلسبرگ نے کہا: ''دستاویز سے ظاہر ہوا کہ صدور نے‘ خواہ وہ ریپبلیکن تھے یا ڈیموکریٹ‘ ایک غیر آئینی رویہ اختیار کیا تھا۔ میں نے ایک غلط جنگ کو ختم کرنے کی غرض سے یہ پیپرز (رپورٹ) لیک کئے‘‘۔ اب دانشوروں اور قانون دانوں میں بحث اس سوال پر ہے کہ ایلسبرگ کی طرح سنوڈن کو غدار قرار دیا جائے یا وسل بلور۔ (whistle blower) ایک قانونی اصطلاح ہے جو ایسے لوگوں پر صادق آتی ہے جو سرکاری کام میں کوئی بے ضابطگی پا کر سیٹی بجاتے ہیں یعنی اعلیٰ حکام اور باقی قوم کو خبردار کرتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں