محاسبے کا امریکی سٹائل

یہ امریکی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے ۔رچمنڈ میں سات مردوں اور پانچ عورتوں پر مشتمل ایک جُوری نے ورجینیا کے ایک سابق گورنر اور ان کی اہلیہ کو پبلک کرپشن کا قصوروار قرار دیا ہے۔یہ نشست یکے از آبائے قوم ٹامس جیفرسن کے تصرف میں رہی جو صاف ستھری حکومت کے بانی سمجھے جاتے تھے۔ ریاستی دارالحکومت کے باہر مانٹے چیلو میں ان کا مکان جمہوریت پسندوں کی زیارت گا ہ بنا ہوا ہے ۔ انہوں نے پیشگوئی کی تھی کہ ہمارا نظام حکومت کسی دن زوال پذیر ہو کرانتخابی خودسری (elective despotism) میں بدل جائے گا۔
جمہوریت ہر جگہ مسلسل ارتقا پذیر ہے مگر اس کا کوئی نعم البدل تلاش نہیں کیا جا سکا ۔جمہوری رویوں کی ایک چھوٹی سی مثال انہی دنوں سامنے آئی جب بلدیہ واشنگٹن کے ایک سابق امیدوار کو انتخابی کرپشن کے الزام میں ساٹھ دن کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔ اسے ایک لاکھ چالیس ہزار ڈالر کے عطیات وصول کرنے اور انتخابی مہم کے دفتر کو جھوٹی اور گمراہ کن رپورٹیں دینے کی بنا پر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہی دنوں 140سے زیادہ احتجاجیوں کو‘ جن میں میری لینڈ اسمبلی کی ایک رکن بھی شامل تھیں‘ وائٹ ہاؤس کے باہر سے گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ وہاں دھرنا دیے بیٹھے تھے اور لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کے لئے ملک بدری (deportation) سے تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ آئے دن ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ عہدیدار قانون کی گرفت میں رہتے ہیں۔ سابق فوجیوں کے اسپتالوں میں مریضوں سے مبینہ بد سلوکی کی بنا پر سیکرٹری ایرک شنسکی سے استعفیٰ طلب کیا گیا۔ نیو جرسی کے کانگرس مین رابرٹ اینڈریوز اپنے انتخابی فنڈ کے بے جا استعمال کی تحقیقات کے دوران اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور ورجینیا کی ریاستی اسمبلی کے رکن فلپ پکٹ نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا‘ یہ سوچے بغیر کہ وہ ایوان کا کنٹرول ری پبلیکنز کے حوالے کر رہے ہیں ۔سزا اور جزا کا یہی نظام معاشرے میں امن و سکون کا ضامن ہے ۔
یہاں Trial By Jury کا رواج ہے جب کہ سابق بیشتر برطانوی نو آبادیوں میں اب تک Trial By Sessions کا ورثہ چلا آ رہا ہے ۔امریکہ میں FIR نہیں ہوتی ۔یہاں ایک تفتیشی افسر‘ شکایت کنندہ کے الزامات کی تفتیش کے بعد عدالت کے سامنے ایک حلفی بیان دیتا ہے اور مقدمے کی سماعت شروع ہو جاتی ہے ۔جج کسی کو قصور وار قرار نہیں دیتا۔ وہ جُوری کے لئے قانونی ہدایات جاری کرتا ہے ۔سزا کے لئے اس نے چھ جنوری مقرر کی ہے ۔رابرٹ مکڈانل اور مورین کو اپیل کا موقع ملے گا ۔استغاثہ کے بڑے وکیل نے عدالت کے باہر کہا‘ انصاف کا تقاضا پورا ہو گیا۔ ''عوامی خدمت اکثر قربانی کا تقاضا کرتی ہے اور تقریباً ہر بار یہ قربانی مالی ہوتی ہے ‘‘۔ 
پچاس میں سے 29 گورنر ریبپلیکن ہیں۔ وہ صحت‘ جنگ‘ نقل وطن‘ ہم جنسی کی شادی‘ اسقاط حمل اور کئی دوسرے قومی مسائل پر ڈیموکریٹوں کے خون کی پیاسے ہیں۔ حکومت ڈیموکریٹ ہے۔ سینیٹ میں ان کی اکثریت ہے ۔دو ریپبلیکن گورنروں کے خلاف فرد جرم عائد ہوئی ہے مگر کسی نے اس اقدام کو سیاسی نہیں کہا۔کسی نے اسے انتقام نہیں کہا۔ شاید اس لیے کہ احتساب کے دستانے کا سائز ایک ہے اور وہ سب کے فٹ بیٹھتا ہے ۔اس سے پہلے ریپبلیکن صدر رچرڈ نکسن سرکاری اختیارات کے غلط استعمال کے الزام کی زد میں آکر گھر جا چکے ہیں اور ڈیمو کریٹک صدر بل کلنٹن قانون کی عملداری میں رکاوٹ ڈالنے اور دروغ حلفی کے مقدمے کا سامنا کرنے کے بعد بری ہوچکے ہیں۔ یہ سارا عمل ایک غیر جانبدار انتظامیہ کی مو جودگی کی بدولت مکمل ہوا۔
استغاثہ کے مطابق‘ ورجینیا کے گزشتہ چیف ایگزیکٹو رابرٹ مکڈانل اور ان کی اہلیہ مورین نے رشوت لے کر گورنر کے منصب کی ساکھ بیچ دی ۔وہ ایک دولت مند کاروباری شخص جانی ولیمزسینئر کے جیٹ میں اڑا کیے‘ اس کی فراری چلائی‘ اس کی دی ہوئی رولیکس کلائی پر سجائی‘ اس کے خرچ پر چھٹیاں منائیں‘ بیٹی کی شادی کی‘ اس سے قرض لیا اور یوں اس کی کمپنی کی بنائی ہوئی ایک دوا کی تشہیر کے عوض 1,77,000 ڈالر وصول کئے ۔مسٹر مکڈانل کی صفائی یہ ہے کہ ان کی شادی مشکل میں ہے اس لئے ولیمز کے تحفے قبول کرنے میں میاں بیوی میں ''سازش‘‘ کا سوال پیدا نہیں ہوتا؛ تاہم انہوں نے الزامات کی تردید نہیں کی۔ ''میں نے اپنی (سیاسی) زندگی کا توازن کھو دیا میں محاسبہ کے لائق ہوں‘‘۔ ان کے وکیل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ساٹھ سالہ مورین‘ ہائی سکول کے زمانے سے جانی پر فدا (کرش) تھیں اور سابق گورنر نے کہا کہ سابق (ریاستی) خاتون اوّل نے ولیمز سے کوئی سودا کیا ہو تو وہ ان کے علم میں نہیں ۔یہ ملزموں کا دفاع تھا جس پر مسز مکڈانل چُپ رہیں ۔
دوسرے ریپبلیکن گورنر‘ جو قانون کی گرفت میں آئے‘ ٹیکسس کے رک پیری ہیں ۔ فائر برانڈ پیری پر الزام ہے کہ انہوں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور ایک سرکاری عہدیدار پر مستعفی ہونے کے لئے دباؤ ڈالا ۔الزام کی نوعیت:انہوں نے انسداد رشوت کے ایک ادارے کو دھمکی دی کہ وہ اس کے فنڈ روک لیں گے۔ یہ ادارہ ایک کاؤنٹی کی ڈسٹرکٹ اٹارنی (سرکاری وکیل) راس میری لمبرگ (ڈیمو کریٹ) کے ماتحت ہے جو شراب کے نشے میں موٹر کار چلاتے ہو ئے پکڑی گئی تھیں ۔خاتون نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا اور گورنر نے اس الزام کی تردید کی ۔پھر بھی انہیں ہتھکڑی لگائی گئی اور ان کے مگ شاٹ (مجرموں کے فوٹو) ہوئے۔ 
فلو ریڈا میں ریٹائر ہونے والے ایک پاکستانی امریکن قا نون دان کہتے ہیں کہ امریکی معاشرے میں رواداری کم ہو گئی ہے ۔وہ اپنی ریاست اور پھر ہمسایہ مزوری میں سیاہ فام اقلیت پر سفید فام اکثریتی پولیس کی ہلاکت خیز فا ئرنگ اور ان واقعات پر احتجاج کے حوالے دے رہے تھے۔ جب یہ واقعات رونما ہوئے صدر اوباما واشنگٹن میں نہیں تھے۔ وہ ساٹھ میل شمال مغرب میں کیمپ ڈیوڈ نام کی سرکاری رہائش گاہ میں فرو کش تھے ۔اس پر مخالفین نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں داعش (آئی ایس آئی ایس) نے یکے بعد دیگرے دو امریکی صحافیوں اور ایک برطانوی امدادی کارکن کے سر قلم کئے اور سیکڑوں شامی اور عراقی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتا ر کر ان کے ہولناک مناظر کے ٹیپ انٹر نیٹ پر ڈالے‘ روس یوکرائن کی حکومت کو لے اڑا اور فرگوسن مزوری میں پولیس کے ہاتھوں ایک نوجوان کی ہلاکت پر بہت سے کالے سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ چھٹیاں منا رہے ہیں ۔
رواداری اتنی بھی کم نہیں ہوئی کہ ملک کی بنیادی اخلاقی قدریں نظر انداز کر دی جائیں ۔رائے دہندگا ن کی اکثریت ملک کے نظام عدل پر اعتماد رکھتی ہے ۔ عام ووٹنگ میں جارج بش‘ ایل گور سے پانچ لاکھ ووٹوں سے ہار گئے تھے مگر سپریم کورٹ نے فلوریڈا میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی عملاً روک دی اور یوں بش نے الیکشن جیت لیا ۔ عدلیہ کی رولنگ پر سب نے صا د کیا ۔ نظام کی اساس اس کلیے پر ہے کہ لوگ بڑی حد تک سچ بولتے ہیں۔ اگر مغربی ملکوں نے اس اصول کو سینے سے لگا کر اقتصادی اور روحانی میدانوں میں قدم آگے بڑھائے ہیں تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔
امریکہ میں صدر مملکت ہم خیال افراد کو جج مقرر کرتا ہے اور سینیٹ اس تقرر کی توثیق کرتی ہے مگر فرائض کی انجام دہی میں وہ اس کے کام میں مداخلت نہیں کرتا ۔ایک وجہ یہ ہے کہ جج کا تقرر تا حیات ہوتا ہے۔ وہ تنخواہ‘ ترقی یا توسیع کے معا ملات میں صدر یا ان کی انتظامیہ کا محتاج نہیں ہوتا۔ایف بی آئی قانون کو نافذ کرنے والے اداروں میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ادارہ آزادی اور خود مختاری سے بڑے جرائم کی تفتیش کرتا ہے اور اس کے کام میں مداخلت کی خبر کم سننے میں آتی ہے ۔ہر ریاست میں ایک ''ڈسٹرکٹ اٹارنی‘‘ سرکاری وکیل‘ متعدد وکیلوں کی معاونت سے مقدمے چلاتا ہے ۔اسے گواہ بلانے کا اختیار ہے جو بلا خوف و تحریص عدالت کی امداد کرتا ہے اور اسے سرکاری تحفظ حاصل رہتا ہے ۔ہار نے اور جیتنے والے سب جج کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں