امن کا کوئی نعم البدل نہیں!

ایک ایسے وقت پر جب پاکستان اور بھارت ایک بار پھر ایک دوسرے پر گولہ باری کر رہے تھے اور دونوں ملکوں کے ڈیڑھ درجن سے زیادہ لوگوں کو موت کی نیند سلا چکے تھے ،سویڈش نو بیل اکیڈمی نے ان قوموں میں پُر امن مقاصدکی خاطر کام کرنے والے دو افراد کے لئے امن کے انعام کا اعلان کر دیا ۔ ''یہ بچوں اور جواں سال لوگوں پر جبر اور تعلیم پر سب بچوں کے حق کے لئے جدوجہد کرنے ‘‘ کا صلہ ہے ۔ پاکستان کی سترہ سالہ ملالہ یوسف زئی نے یہ اعلان برمنگھم میں ا پنے سکول کی استانی سے سنا اور امن کا نوبیل پرائز قبول کرتے ہوئے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو دعوت دی کہ دسمبر میں جب وہ اوران کا بھارتی ساجھے دار کیلاش ستیارتھی پندرہ لاکھ ڈالر کا عالمی امن انعام وصول کرنے کے لئے اوسلو جائیں تو وہ بھی ناروے آئیں اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف سے مذاکرات کے ذریعے باہمی مسائل کو حل کرنے کی سعی کریں ۔ جواں سال خاتون نے وزیراعظم نواز شریف کو بھی نوبیل انعامات پیش کرنے کی تقریب میں حصہ لینے کی دعوت دی ۔لیڈروں نے امن کا نوبیل انعام جیتنے پر دونوں افراد کو مبارک باد پیش کی مگر دعوت کا جواب نہیں دیا ؛اہم جوہری اسلحے سے لیس دونوں ملکوں میں جنگ کی بالواسطہ اور بلا واسطہ حمایت کرنے والوں کی کمی نہیں ۔ 
یہ سچ ہے کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرونے ریاست جموں وکشمیر کے نزاع کا معاملہ اقوام متحدہ میں بھجوایا تھا اور امریکہ کے (ریٹائرڈ) جنرل چیسٹر ولیم نمٹز علاقے میں استصواب کرانے کے لئے چلنے والے تھے ،مگر دونوں ملکوں میں کشیدگی شروع ہوگئی جو بالآخر 1965ء کی جنگ پر منتج ہوئی۔اعلانِ تا شقند اور چھ سال بعد معاہدہ شملہ نے سب کچھ بدل دیا ۔بنیادی بات یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کثیر قومی نہ رہا، دو طرفہ ہو گیا ۔ دونوں ملکوں کو اب بھی یہ مسئلہ جنگ سے نہیں امن سے حل کرنا ہے اور موجودہ لیڈر سیاسی دباؤ کے باوجود تصفیے کی بہترین صلاحیت کے مالک ہیں ۔نواز شریف اس پارٹی کی وراثت کا دعویٰ رکھتے ہیں جس نے پاکستان بنایا تھا اور نریندر مودی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز راشٹریہ سیوک سنگھ کے رضا کار کی حیثیت سے کیا تھا ،جو اکھنڈ بھارت کاعلمبردار تھا ۔اس زمانے میں مہتر چترال اور امیر ہنزہ، تخت سری نگر کے باجگزار تھے ،آج وہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات ہیں ۔اس وقت بہت سے مسلمان ایک ہندوستان کے حامی تھے مگر آج وہ پاکستان کی مرکزی سیاست کے دھارے میں شامل ہیں ۔ پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی جس قدر ہے ،اسی قدر بھارت میں بھی ہے اور دونوں ملکوں میں لڑائی کی صورت میں وہ ایک دوسرے پر گولی چلانے پر مجبور ہیں ۔بی آر بی سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اب دونوں ملکوں میں امن ہونا چاہیے۔
دشواری یہ ہے کہ کچھ معا ملات پر سیاست کا سایہ ہے ۔جو امور پاکستان کے بیانیہ میں شامل ہیں ،ان میں کشمیر کے مستقبل کا سوال بھی ہے ۔ہم مہاراشٹر، آندھرا پردیش یا اتر پردیش کے مسلمانوں کے مستقبل کی فکر نہیں کرتے مگر کشمیر کے مسلمانوں کی پروا کرتے ہیں ۔وزیراعظم نواز شریف نے غالبا ًسیاسی حریفوں کو نیچا دکھانے کے لئے اقوام متحدہ میں کشمیر کا سوال اٹھایا اور حل میں ان اجزائے ترکیبی کا ذکر کیا جو ساٹھ سال پہلے مستند تھے مگر اب جنہیں امریکہ' روس اور چین غرض کوئی بھی بڑی طا قت قبول نہیں کرتی ۔یہی نواز شریف تھے ،جنہوں نے مودی کی پارٹی بی جے پی کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی سے امن کے مذاکرات کئے اور فوجی جانشین پرویز مشرف ان سے بغاوت کرکے بھی ان کی پیروی میں آگرہ پہنچے ۔وزیراعظم نواز شریف کا یو ٹرن سیاسی دباؤ کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے ۔ نو وارد بلاول بھٹو زرداری نے ، جو پنجاب میں پیپلز پارٹی کی ساکھ بحال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قیادت
قائم کرنے کو کوشش کررہے ہیں ،سارا کشمیر لینے کا عزم ظاہر کیا ہے اور یوں وہ اپنے سیاسی حریف نواز شریف کو مات دینے کی سعی کر رہے ہیں ۔اس اثنا میں بڑی حد تک نجی شعبے میں ٹیلی وژن کے ظہور کی بدولت تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے نام سے دو نئی جماعتیں ابھری ہیں ۔ وہ اپنا سارا زور پبلک کرپشن کے خاتمے پر صرف کر رہی ہیں مگر انہوں نے کشمیر کو اپنی مہمات کا جز نہیں بنا یا وگرنہ ہمارا فارن آفس ،جو کشمیریوں کو اخلاقی اور سفارتی امداد مہیا کرتا ہے ،اور زیادہ خفیف ہوتا۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارت جموں و کشمیر کا وہ حصہ کبھی پاکستان کے حوالے نہیں کرے گا جو اب اس کے قبضے میں ہے اور جسے ہم مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں ۔میرے ایک ہم عصر ،جو پاکستانی امریکن ہیں ،حال ہی میں سری نگر سے واپس آئے ہیں ،جو ان کی جائے پیدائش ہے ۔ ان کے عزیز و اقارب کو حالیہ بارش اورسیلاب سے بھاری نقصان کا سامنا ہوا ہے مگر وہ کسی رائے شماری میں حصہ نہیں لیں گے ۔ان ساٹھ برسوں میں انہوں نے بے پناہ ترقی کی ہے اور وقت مقررہ پر ووٹ کر کے اپنے لیڈر چنے ہیں ۔سب کے گھروں کے اندر باتھ روم ہیں ،جن میں ٹھنڈا اور گرم پانی چلتا ہے ۔ آزادی کی ساٹھویں سالگرہ پر مجھے بھی سرحد کے پار بیاس کے کنارے اپنے آبائی گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تو میں اسے پہچاننے سے قاصر تھا ۔ جس گاؤں میں بجلی نہیں تھی اور میں ذیلدار کے گھر جا کر ان کے بیٹے بلدیو سنگھ کے ساتھ سرسوں کے تیل سے جلنے والے ایک دیے کی روشنی میں پڑھا کرتا تھا ، اس میں بجلی کے تاروں کا جال بچھا ہوا تھا اور جس گاؤں میں صرف ایک موٹر سائیکل ہو تا تھا ،وہاں بہت سے عورتیں بجاج سکوٹر پر اپنے لال دوپٹے ہوا میں لہراتی کام کاج میں مصروف دکھائی دیں ۔ بلدیو کومیں نے لدھیانہ میں ڈھونڈ نکالا ۔اب وہ ڈاکٹر بلدیو سنگھ ڈھلوں تھا اور ایگریکلچر یونی ورسٹی سے ریٹائر ہو کر کینال کالونی میں اپنی بیوی ورندر کے ساتھ رہتا تھا ۔ میں نے اس سے رخصت ہوتے وقت کہا: تمہیں بھارت ورش مبارک ہو اور اس نے جواب دیا:تمہیں پاکستان مبارک۔
مسلمانوں کو حکم تھا کہ علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چین جانا پڑے ۔ ہم چینیوں کی سرمایہ کاری کے تو متلاشی ہیں لیکن ان کی حکمت عملی سے احتراز برتتے ہیں ۔ چین، پاکستان سے دو سال بعد آزاد ہوا اور دونوں کو کچھ یکساں مسائل ورثے میں ملے تھے ۔ ہانگ کانگ اور تائیوان کے مسائل چین کے حصے میں آئے اور کشمیرکا سوال پاکستان کو ملا ۔چین نے دو جزیروں پر قبضہ کرنے کے لئے فوجی پیش قدمی نہیں کی بلکہ ان مسائل کو پچھلے چو لہے پر دھر دیا ۔وہ امریکہ سے بھی اپنے اختلافات بھُلا کر اس کا سب سے بڑا تجارتی ساجھے دار بن گیا ہے ۔Xi Jinping باہمی مسائل کو پس پشت ڈال کر نئی دہلی جاتے ہیںاور ہندوستان کے ساتھ مالی اور تجارتی معاہدے کرتے ہیں ۔پا کستان، کشمیر کے سوال پر بھارت سے دو سے زیادہ جنگیں کر چکا ہے ۔ اس نے جب بھی مسئلے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اسے سیاسی مخالفت کا سا منا ہوا۔مخالفین کا ،خواہ وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی، مفاد اس مسئلے کے حل نہ ہونے سے وابستہ ہے اور ان میں متعلقہ علاقوں کی انتظامیہ بھی شامل ہے ۔نواز شریف کے سوا ، جنہیں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کا دعویٰ ہے ،کون یہ تالہ توڑنے کی ہمت رکھتا ہے مگر وہ بھی سیاسی مصلحتوں کے تابع معلوم ہوتے ہیں ۔وہ یا ان کی ہم خیال سیاسی جماعتیں اپنے عمل اور کارگزاری سے کیوں یہ امید نہیں کرتیں کہ ہا نگ کانگ کی طرح ، کشمیر کا پھل پک کر ان کی جھولی میں گرے گا؟ وقت آ گیا ہے کہ ہم بھارت سے اپنا موازنہ اور مقابلہ ترک کر دیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں