ایبولا کا خوف

پاکستان سے یہ کہنا کہ دنیا ایبولا کی زد میں آگئی ہے‘ ایک دردناک مذاق کے مترادف ہے ۔ملک پہلے ہی پولیو کی لپیٹ میں ہے اور قوم کا مستقبل انتہا پسندوں کا یرغمال ہے۔ رائفل بم اور راکٹ کے بعد اب وائرس ان کا ہتھیار ہے‘ جو بچوں کو فالج کی روک تھام کے قطرے پلانے میں رکاوٹ بن گیا ہے ۔یوم انسدادِ پولیو کے حالیہ موقع پر بھارت اور نائیجیریا کو اس وبا سے پاک قرار دے دیا گیا۔اب صرف افغانستان اور پاکستان اس مرض میں مبتلا ہیں اور عالمی ادارہ صحت نے پاکستان سے باہر جانے والوں پر سفر کی پابندیاں سخت کرنے کی سفارش کی ہے ۔ہر مسافر کو اس سے قبل اس مضمون کا ایک سرٹیفکیٹ ہوائی اڈے کے حکام کو پیش کرنا ہوتا ہے کہ وہ پولیو سے مامون ہے ۔سخت تر قدغن کے تحت نہ جانے مسافروں کو اور کیا ثبوت پیش کرنا پڑے گا؟ حکومت‘ جسے شورش پسندوں سے لڑائی کے علاوہ آئی ڈی پیز کے مسائل کا سا منا ہے اور توانائی کا بحران قابو سے باہر ہو گیا ہے‘ روزمرہ کے اصول پر خرچ کر رہی ہے اور کوئی دور رس منصوبہ بنانے سے قاصر ہے ۔اگر ایبولا پاکستان میں داخل ہوا تو حکومت کیونکر اس سے عہدہ برآ ہوسکے گی؟
ایبولا کی علامات میں بخار اور اس کی تھکن‘ رگ پٹھوں کا درد‘ درد سر اور گلے کی خرابی شامل ہیں۔ اس کے بعد قے ' اسہال اور جلد کی خراشیں نمودار ہوتی ہیں اور بعض اوقات گردے اور پھیپھڑے کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔اندرونی اور بیرونی جریانِ خون بھی ہو سکتا ہے ۔امریکہ میں ایبولا سے اب تک ایک موت واقع ہوئی ہے مگر خوف وسیع ہے اور وبا خبروں پر چھائی ہوئی ہے۔ مرنے والا غیر امریکی تھا اور لائبیریا مغربی افریقہ سے آیا تھا۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والی نرس کو وبا کے اثرات سے پاک قرار دیا گیا اور اس نے وائٹ ہاؤس میں صدر اوباما سے ملاقات بھی کی ہے‘ جنہوں نے اسے گلے لگایا۔یہ امریکیوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش تھی کہ ایبولا میں مبتلا کوئی فرد صحت یاب بھی ہو سکتا ہے یا طبی نگرانی میں رہنے کے بعد اسے تندرست بھی کہا جا سکتا ہے۔ بیماریوں کی روک تھام کے مرکز سی ڈی سی کے عہدیدار لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ ایبولا جسمانی مائع (پسینہ‘ تھوک اور مادہ منویہ وغیرہ)کے تبادلے کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی لوگوں میں خوف وہراس بڑھتا جا رہا ہے اور کم از کم چھ ریا ستوں نے مغربی افریقہ سے آنے والوں کو اکیس دن قرنطینہ میں رکھنے کا حکم صادر کیا ہے‘ جس پر ایک ملک گیر بحث چھڑ گئی ہے۔ امریکہ میں اس وقت ملٹری کے لئے ایک قانون ہے اور سول کے لئے دوسرا۔
مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ نیو یارک‘ نیو جرسی اور الی نائے کے گورنروں کا یہ اقدام سراسر سیاسی ہے اور وبا کی سائنس سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔مخالفین کہتے ہیں کہ یہ معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ اسے ''رضا کاروں‘‘ کے رحم و کرم نہیں چھوڑا جا سکتا۔سی ڈی سی نے مسافروں کو رضاکارانہ بنیادوں پر قرنطینہ کی پابندی قبول کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ریاست نیو یارک نے اس مباحثے سے گھبرا کر اپنی پالیسی میں ترمیم کی ہے ۔ اب اس کا کہنا ہے کہ عملہ صحت کے ارکان‘ جو ایبولا کے مریضوں کے ساتھ رابطے میں رہے مگر مہلک وبا کے آثار ظاہر نہیں کر رہے‘ اپنے گھروں کو لوٹ سکتے ہیں مگر انہیں گھر میں قید رہنا ہو گا تا وقتیکہ صحت کے حکام ان کو محفوظ قرار نہیں دے دیتے۔باقی دو ریا ستوں کے فیصلے برقرار ہیں‘ جہاں نیو آرک اور شکاگو ملک کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شامل ہیں ۔ان علاقوں سے لائبیریا‘ سیرا لیون‘ گنی اور مغربی افریقہ کے دوسرے ملکوں کا رخ کرنے والے کچھ ڈاکٹر اور نرسیں کہہ رہی ہیں کہ واپسی پر جب انہیں ہوائی اڈے کی کسی نکڑ یا علاقائی اسپتال کے کسی گوشے میں اکیس دن قید تنہائی میں گزارنے ہیں تو رضاکا رانہ طور پر سفر کا حذر اٹھانے کی کیا ضرورت ہے ؟ پھر بھی سینکڑوں امریکی منروویا‘ لائبیریا گئے ہیں اور ہزاروں راہ میں ہیں ۔
بیرونی دنیا کے بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ لائبیریا امریکیوں کا بسایا ہوا ملک ہے ۔سو سال سے زیادہ عرصہ پہلے جب اس ملک کے سیاہ فا موں میں آزادی کی ہوا چلی تو تازہ تازہ غلامی سے رہائی پانے والے بہت سے کالے اوقیانوس کے پار مغربی افریقہ ہجرت کر گئے تھے اور آج تک ترقی پذیر ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ میں رہنے بسنے والے بالخصوص افریقی امریکی اس نازک مرحلے پر ان کی امداد کو جانا فرض خیال کرتے ہیں ۔ ایبولا کور ڈاکٹروں‘ نرسوں‘ سائنسدانوں‘ سپاہیوں‘ ہوا بازوں‘ کا ریگروں اور انجینئروں پر مشتمل ہے ۔سرکاری ملازموں کے لئے اس لڑائی کی کوئی تنخواہ نہیں صرف پانچ ڈالر یومیہ خطرناک علاقے میں کام کرنے کی اجرت ہے ۔پھر بھی ہزاروں امریکی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں۔سا زش کے نظریہ باز اس میں بھی امریکہ کی ہوس ملک گیری کا سراغ لگانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ مغربی افریقہ میں امریکی نفری‘ افغانستان اور عراق میں ان کی موجودگی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مغربی افریقہ میں امریکی فوج کی تعداد زیادہ سے زیادہ چار ہزار ہو گی جو دو ملکوں پر قابض فوج کا عشر عشیر بھی نہیں ۔
گو یہاں صدر فریڈرک ڈی روزویلٹ کا یہ مقولہ کہ‘‘ صرف ایک چیز جس سے ہمیں خوف کھانا چاہیے خود خوف ہے ''اکثر نقل کیا جاتا ہے مگر بیشتر امریکی ایبولا سے ڈرنے لگے ہیں کیونکہ دنیا میں اس وائرس کے مریضوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور کم و بیش ڈھائی ہزار اس میں مبتلا ہو کر مر چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مغربی افریقہ میں ایبولا وائرس کسی پلیگ کی طرح انسانی تاریخ بدلنے کی طاقت رکھتا ہے تاہم منروویا سے ڈبلیو ایچ او کی تازہ رپورٹ کے مطابق وبا کا زور ٹوٹ رہا ہے ۔
وائرس کا پتہ چلانے کی خاطر دو ٹسٹ منظور کئے جا چکے ہیں اور دوا ساز اداروں کو امید ہے کہ مرض کی روک تھام کی دوا (ویکسین) جلد تیار ہو جائے گی۔ تجرباتی طور پر ایک دواZmapp وائرس سے متاثر دو امریکیوں کو دی گئی۔ وہ اب روبصحت ہیں۔ دو نرسوں کے علاوہ ایک ڈاکٹر بھی‘ جو ایبولا کا وائرس لائبیریا سے لایا تھا‘ روبصحت ہے۔اس سے پہلے سائنس کی دنیا چیچک‘ تپدق‘ انفلواینزا‘ ڈینگی‘ ایچ آئی وی‘ ریبیز اور چُھوت کی دوسری بیماریوں کا علاج کامیابی سے کر چکی ہے ۔امریکہ میں ایبولا سے نبٹنے میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں مگر انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے ۔
دشواری یہ ہے کہ قرنطینہ نزاع ایک انتشار خیز مباحثے میں بدل گیا ہے جس میں سیاست‘ سائنس اور قانون کار فرما ہیں۔ مغربی افریقہ سے واپس آنے والوں پر پابندیوں کے قواعد تقریباً روزانہ بدل رہے ہیں اور ریاستوں کی جغرافیائی اور سیاسی آب و ہوا کے مطابق ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔مثلاً محکمہ دفاع نے اعلان کیا ہے کہ جو فوجی اٹلی میں اپنے ہوم بیس پر واپس ہو گا اسے اکیس دن قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔ یہ پالیسی وائٹ ہاؤس کے موقف کے منافی ہے جس کا کہنا ہے کہ صرف ان لوگوں کو جبری پابندی میں ڈالا جائے جو مرض کے آثار لے کر افریقہ سے لوٹتے ہیں ۔ قومی دار الحکومت سے متصل ورجینیا اور میری لینڈ کی ریاستیں واپس آنے والے مسافروں کا بغور مشاہدہ کریں گی اور اگر انہوں نے وائرس کے آثار ظاہر کئے تو ان کو قرنطینہ میں رکھا جائے گا ۔ وہ مشرقی ساحل کی ان چھ ریاستوں میں شامل ہیں جو سرگرمی سے مسافروں کا معا ئنہ کرتی ہیں ۔ ایک عورت واشنگٹن کے علاقے کے ایک ہوائی اڈے ڈلس پر اتری جو مغربی افریقہ سے آئی تھی مگر بظاہر اس میں وبا کی علامات نہیں تھیں۔اسے ہدایات کا ایک کتابچہ دے کر روانہ کر دیا گیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں