جس کا انتظار نہیں تھا

خیبر پختونخوا میں اس مفہوم کے کتابچے تقسیم کئے گئے کہ داعش پاکستان پہنچ گئی ہے اور وہ طاغوتی طاقتوں سے لڑائی کے لئے کچھ ایماندار مسلمانوں کی تلاش میں ہے۔ منتخب امیدواروں کو معقول مشاہرہ پیش کیا جائے گا اور اگلے جہان میں جنت کی ضمانت دی جائے گی۔ کتابچے کے آخر میں جس شخص کا فرضی نام پتہ درج تھا‘ وہ وہی ہے جو اس سے پہلے تحریک طالبان پاکستان کی ترجمانی کرتا رہا ہے۔ کتابچے کا نام الفتح رکھا گیا ہے۔ یہ پاکستان کے بے روزگار اور اسلام پسند لوگوں کے نام ایک اپیل تھی۔ ملک کے مختلف حصوں میں داعش کا سیاہ پرچم بھی لہرایا گیا‘ جو پیغمبر اسلام کے جھنڈے سے ملتا جلتا ہے۔ چند ہفتوں کے بعد کراچی‘ ملتان اور لاہور میں دیواروں پر داعش زندہ باد کے نعرے لکھے گئے اور پھر لندن سے الطاف حسین کا یہ بیان آ گیا کہ داعش پاکستان میں داخل ہو چکی ہے مگر اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے‘ اسی انداز میں جس طرح ایک عشرہ پہلے طالبانائزیشن سے متعلق ان کے بیان کا مذاق اڑایا گیا۔ طالبان‘ القاعدہ‘ بوکو حرام اور داعش وغیرہ اسی ذہنیت کے نام ہیں‘ جو ایک لباس میں ہارنے کے بعد دوسرے میں سامنے آ رہی ہے۔ اس ذہنیت کا موقف واضح ہے۔ وہ اپنے سوا ہر مسلمان کو غیرمسلم کہتی ہے اور اسے موت کی سزا دیتی ہے۔ وہ چند راسخ العقیدہ مسلمانوں کی بجائے ایک محفوظ جگہ کی تلاش میں ہے جہاں اپنی حکمرانی قائم کر سکے۔ داعش نے شام اور عراق کی بین الا قوامی سرحد کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ ڈیورنڈ لائن کو بھی رد کرے گی‘ جسے طالبان نے بھی افغانستان پر اپنے چار سالہ راج کے دوران تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس کا لیڈر ابو بکر البغدادی اپنے آپ کو امیرالمومنین کہتا ہے۔ وہ مسلمانوں سے بیعت کی امید کر رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر علمائے دین‘ اس دعوے کو رد کرتے ہیں۔
امریکہ کا طرز عمل بھی ایسا ہی ہے۔ اس نے عراق اور شام پر ''مملکت اسلامیہ‘‘ کے ٹھکانوں پر ہوائی حملے شروع کر دیے ہیں۔ جائنٹ چیف آف سٹاف مارٹن ڈیمپسی کو موقع پر حالات کا جائزہ لینے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ شام میں بھی بالآخر امریکی فوجوں کے داخلے کا اندیشہ ہے۔ خلافت کے لڑاکے قدرتی طور پر ان واقعات سے ناخوش ہیں۔ انہوں نے ایک اور زیر حراست امریکی کا سر قلم کر دیا ہے اور اس واردات کی وڈیو بنا کر ذرائع ابلاغ کو بھجوائی ہے۔ چھبیس سالہ پیٹر کیسگ‘ جو شام میں امدادی کارروائیوں میں مصروف تھا‘ گو قید کی حالت میں خلیفہ کا اسلام قبول کر چکا تھا اور عبدالرحمن کیسگ اس کا نام رکھا گیا تھا‘ مگر وہ اپنی جان بچانے سے قاصر رہا۔ وہ تیسرا امریکی تھا‘ جسے قید کی حالت میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ داعش امریکہ کو اشتعال دلا کر جنگ کی بھٹی میں لانا چاہتی ہے۔ وہ اپنی تخریبی سرگرمیوں کا دائرہ سعودی عرب‘ یمن‘ الجزائر‘ کویت اور دوسرے عرب ملکوں تک‘ جو امریکہ کے اتحادی ہیں‘ وسیع کرنا چاہتی ہے۔ اس نے لیبیا کے ایک حصے پر بھی قبضہ کر لیا ہے اور یوں یورپ کے لئے خطرہ بن گئی ہے۔ مملکت اسلامیہ‘ اسلامی ملکوں کی تقسیم اور فرقہ بندی کے خلاف ہے اور جو بھی اس کے راستے میں آئے اس کے خلاف ''جہاد‘‘ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے البغدادی کو موساد کا ایجنٹ کہا ہے اور ایک ترک تجزیہ کار یہ کہہ کر مملکت اسلامیہ کو رد کرتا ہے کہ وہ نہ تو مملکت ہے اور نہ ریاست۔ تین سال پہلے صدر اوباما نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق عراق کی جنگ بند کی تھی۔ اب وہی صدر امریکی بوٹ شام کی سرزمیں پر لانے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔
صدر اوباما نے مسٹر کیسگ کے انجام پر اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ''خالص بدی کے ایک اقدام نے عبدالرحمن کو ہم سے چھین لیا‘ جس پر ساری دنیا نے دہشت پسند گروہ کو بجا طور پر انسانیت سوز قرار دیا ہے۔‘‘ اس سے پہلے وائٹ ہاؤس نے سولہ منٹ کی اس وڈیو کی تصدیق کر دی تھی‘ جس میں ایک جلاد برطانوی لہجے میں امریکی ناظرین کو بتاتا ہے کہ ''یہ پیٹر ایڈورڈ کیسگ ہے جو آپ کے ملک کا شہری ہے اور جس نے عراق میں مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔‘‘ برطانیہ اور امریکہ نے اس جلاد کا پس منظر معلوم کر لیا ہے مگر حفاظتی وجوہ کی بنا پر اسے خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب مغربی اتحادیوں نے ایشیا اور افریقہ کے حصے بخرے کئے تو ترک ہی‘ خلافت عثمانیہ کے امین تھے‘ جو خلافت کو رد کرتے ہیں۔ حالیہ اگست میں خلافت کا اعلان اور عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مملکت اسلامیہ کا قبضہ‘ پندرہ سال پہلے‘ کابل پر طالبان کی کامیاب یلغار کی یاد دلاتا ہے۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ طالبان سے پاکستان کا رشتہ وہ نہیں جو نوے کی دہائی میں ہوا کرتا تھا‘ ہم انہیں سمجھانے کی کوشش کریں گے۔ ''جو بھاگ گئے سو بھاگ گئے‘ جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کے خلاف آپریشن ضرب عضب ہو رہا ہے اور حقانی نیٹ ورک بھی اس کی زد میں ہے‘‘۔ اسی سانس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو ''شدت پسند ہمارے لئے خطرہ نہیں ہیں‘ ان کو نشانہ کیوں بنائیں؟‘‘ یہ تقریباً وہی موقف ہے جس کا اظہار چند سال پہلے پنجاب کے لیڈر نے کیا تھا اور اسے نکتہ چینی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ بیان دفتر خارجہ کے اس اصرارکی بھی نفی کرتا ہے کہ دہشت پسندوں کے خلاف پاک فوج کی کارروائی بلا تفریق اور بلا امتیاز ہے‘ اور ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب ورلڈ بینک (واشنگٹن) کے سابق نائب صدر اشرف غنی‘ جو اب افغانستان کے صدر ہیں‘ پاکستان کا دو روزہ دورہ کرکے وطن واپس جا چکے ہیں اور پاکستان کے آرمی چیف راحیل شریف امریکہ کے دورے پر ہیں۔ صدر غنی نے منصب کا حلف اٹھاتے ہی چین اور سعودی عرب کا دورہ کیا‘ جو ہمارے اتحادی ہیں۔ پاکستان میں افغان لیڈر کا یہ بیان کہ ہم امن اور ترقی کے سفر میں ایک ساتھ ہوں گے‘ خطے کے لئے خوش آئند ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں سرتاج عزیز کا انٹرویو اس انتشار سے پُر لگتا ہے جس کا تاثر موجودہ حکومت کے آنے کے بعد عام ہوا ہے۔ اس سے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بقول سرتاج عزیز بہتر ہو رہے ہیں اور امریکی محکمہ خارجہ نے سفارتی انداز میں ان کی تائید میں یہ بیان دیا ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ ''طویل مدتی‘‘ تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ امریکی عہدیدار آئے دن اس مفہوم کے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان دہشت کاروں سے لڑائی میں بھرپور تعاون نہیں کر رہا ہے‘ اس کا آپریشن سیلیکٹو ہے اور وہ بعض افغان لڑاکوں کو پناہ دے رہا ہے۔ سرتاج عزیز تو یہی تا ثر دیتے ہیں کہ شدت پسندوں کے خلاف پاکستان کی کارروائی سیلیکٹو (منتخبہ) ہے۔
جنرل راحیل شریف نے ٹمپا (فلوریڈا) سے امریکہ کے دورے کا آغاز کیا‘ جہاں سنٹرل کمانڈ کاصدر دفتر ہے‘ جو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے دفاع کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ ایک دن بعد وہ جنوب سے واشنگٹن آئے‘ پینٹاگون میں نائب وزیر دفاع باب ورک اور جنرل ڈیمپسی سے ملاقاتیں کیں اور امریکی فوج کے ایک دستے نے انہیں سلامی دی۔ جنرل راحیل شریف نے دوسری تقریبات میں بھی شرکت کی مگر ملک کے دو بڑے اخبارات واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز نے ان کی مصروفیات کے بارے میں ایک سطر بھی شائع نہیں کی۔ امریکی ٹیلی وژن نیٹ ورک بھی اس بارے میں تقریباً خاموش رہے۔ ایک ہفتہ پہلے وزیر دفاع چک ہیگل نے انڈونیشیا سے آئے اپنے ہم منصب سے بات چیت کی تھی اور امریکی ذرائع ابلاغ چپ رہے تھے۔ پاکستانی پریس کا یہ طرز عمل کبھی نہیں تھا۔ اسلام آباد اور واشنگٹن کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید اب اسے اپنایا جا رہا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں