تیل کی دھار دیکھو

اپنی فورڈ ونڈسٹار میں تیل بھروانے کے لئے محلے کے ایک پٹرول پمپ(Gas Station) پہنچا تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پٹرول کے دام سالِ گزشتہ کے انہی دنوں کی نسبت تقریباً ایک ڈالر فی گیلن کم ہو چکے ہیں ۔ حیرت میں خوشی کی ملاوٹ اس لئے نہیں کی کہ یہ کمی مانگ اور رسد کے پرانے اقتصادی نظریے کا نتیجہ تھی اور مانگ میں اضافے کی صورت میں اوپر بھی جا سکتی تھی۔ کمی کے لئے نہ تو موٹر سائیکل اور بس والوں نے سڑکوں پر ٹائر جلا کر انہیں مسدود کیا اور نہ ایک دن کی ہڑتال کی ۔امریکہ قدرتی گیس کے معاملے میں خود کفیل ہو چکا اور اگلے سال تیل میں بھی خود کفالت کی منزل کو پانے والا ہے ۔ پٹرول کی قیمت حکومت نہیں یہی اقتصادی نظم و نسق کا دقیانوسی نظریہ مقرر کرتا ہے۔ 
دو ڈالرانتالیس سنٹ فی گیلن کے حساب سے وین کا ٹنک بھروانے کے بعد گھر آیا۔ بیشتر محلے دار عزیز و اقارب کے ساتھ یوم تشکر منانے کے لئے دُور و نزدیک کی منزلوں کو روانہ ہو رہے تھے اور اپنے سالانہ معمول کے بر عکس موٹر گاڑیاں باہر نکال رہے تھے ۔سمجھ گیا کہ لوگ پٹرول سستا پا کر ڈرائیو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے بس‘ ریل اور ہوائی جہاز کے سفر منسوخ کر دیے ہیں ۔امریکن آٹو موبیل ایسوسی ایشن نے اعلان کیا کہ اس سال تعطیلات پر سڑک کے سفر میں چار فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ۔یہ گیس سٹیشن ایک انڈین کی ملکیت ہے۔ دوسری جانب ایک گیس سٹیشن کا مالک ایک پاکستانی امریکی ہے مگر پمپ کی آبائی قومیت ظاہر نہیں ہوتی ۔ مکان کے قریب بڑی سڑک پر تھوڑے تھوڑے فاصلوں سے تین پمپ اور بھی ہیں اور ان پر پٹرول کے دام ایک دو سنٹ زیا دہ رہتے ہیں ۔مالکان ہر صبح پٹرول کے نرخ نامے پر نظر ثانی کرتے ہیں اور نئے نرخ دو تین مقامات پر نمایاں طور پر آویزاں کئے جاتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ یہ نرخ محلے داروں کی مالی حالت کے مطابق وضع کئے جاتے ہیں۔ متمول شہری علاقے‘ عمومی شہری علاقے‘ نیم شہری علاقے اور دیہی علاقے کے نرخوں میں کمی بیشی دیکھی جاتی ہے ۔ایک رفیق کار‘ جن کا مکان ساتھ والی کاؤنٹی میں تھا‘ اکثر تیل خریدنے کے لئے میری کاؤنٹی میں آیا کرتے تھے۔ ایک بار میں نے پوچھا: بھائی صاحب‘ یہ ماجرا کیا ہے؟ کہنے لگے کہ میرے ہاں تیل مہنگا اور تمہارے ہاں سستا ہے‘ اس لئے چلا آتا ہوں۔ میں نے کہا: اور آنے جانے پر جو پٹرول جلاتے ہو؟ کہنے لگے: یہ نکتہ تو میرے دماغ میں آیاہی نہیں۔ 
تیل کمپنی ویسٹ ٹیکسس انٹرمیڈیٹ کی‘ جسے اکثر امریکی قیمتوں کا بنچ مارک مانا جاتا ہے‘ قیمتیں 2010ء کے بعد پہلی بار گر کر ستر ڈالر فی بیرل پر آ گئیں ۔یہ سلسلہ جاری ہے جب کہ جون میں تیل فی بیرل سو ڈالر میں فروخت ہو رہا تھا ۔اگر چہ اطلاعات کے مطابق پاکستان میں تیل سستا ہونے کے بعد کمیاب ہو گیا ہے اور متعلقہ اشیائے صرف کے دام بھی جوں کے توں ہیں مگر امریکہ میں تیل کی مصنوعات کی رسد میں کوئی کمی نہیں ہوئی ۔اس کا اثر امریکی معیشت پر مثبت رہا اور بلیک فرائڈے ( یوم تشکر سے اگلا دن)کی خریداری زوروں پر رہی‘ جو کرسمس تک جاری رہنے کا امکان ہے ۔
تیل کی قیمتوں میں کمی کے پس منظر میں OPECکا حالیہ فیصلہ ہے‘ جو پیدا وار کو قطع کرنے کے خلاف تھا ۔یہ بارہ قوموں کا ایک اجارہ ہے جس کاصدر دفتر وی آنا (آسٹریا) میں واقع ہے اور جسے تیل کی عالمی منڈیوں پر غیر معمولی اثرو رسوخ حاصل ہے ۔ وہ عالمی کھپت کا چالیس فیصد پیدا کرتے ہیں ۔اس تنظیم میں سعودی عرب اور ایران بھی شامل ہیں۔ اس سال ان کی میٹنگ چونکہ گرتی ہوئی قیمتوں کے درمیان آئی‘ اس لئے بے حد اہم تھی ۔ہر کوئی جاننا چاہتا تھا کہ آیا اوپیک نرخوں میں گراوٹ کو روکنے کے لئے کوئی اقدام کرے گی؟ تنظیم نے یہ فیصلہ اپنے مفاد کے بر عکس کیا۔ رکن ملکوں کا خیال تھا کہ قیمتوں میں کمی کے رجحان کا سا منا کیا جائے ۔
طویل مدتی وجوہ میں امریکہ اور دنیا کے باقی حصوں میں خام تیل کی بڑھتی ہوئی پیداوار‘ یورپ اور جاپان میں تیل کے استعمال میں کمی اور موٹر گاڑیوں میں ایندھن کے استعمال میں کفایت کو بھی دخل ہے ۔بہت سے تجزیہ کاروں کی سب و شتم اور اپنی خارجہ پالیسی کو مشرقِ وسطی کے گرد رکھنے سے قطع نظر‘ امریکہ میں تیل کی پیدا وار میں اضافہ‘ نئی ٹیکنالوجی کا مرہون منت سمجھا گیا ہے جو Shale Oil انقلاب کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ اس میں افقی کھدائی شامل ہے جس کے ساتھ زمین کی گہرائی میں hydrocarbons تک رسائی ممکن ہے۔ 2000ء کے مقابلے میں تقریباً دو گنا خام تیل روزانہ نکالا جا رہا ہے ۔دوسرے ملکوں میں بھی تیل کی پیدا وار بڑھی ہے‘ مثلاً کینیڈا‘ اپنی پیداوار 3.3ملین بیرل یومیہ پر لے گیا جب کہ صرف پانچ سال پہلے وہ 2.5 ملین بیرل روزانہ پیدا کرتا تھا۔ روس نے اسی عرصے میں اپنی پیداوار 9.5 ملین سے بڑ ھا کر دس ملین بیرل کر دی اور لبیا 2011ء کے اندرونی خلفشار کے بعد اپنے بہترین تیل کے ساتھ واپس منڈی میں آ رہا ہے ۔
امریکہ میں ڈرائیور کم پٹرول استعمال کر رہے ہیں کیونکہ ان کی نئی گاڑیاں زیادہ کار گزار ہیں ۔ان کی ایندھن کی بچت یوں ہوئی کہ 2008ء میں جو گاڑی 20.8میل فی گیلن کرتی تھی اس سال 25.3میل فی گیلن کر رہی ہے۔ تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔کیا کمی کا رجحان جاری رہے گا ؟ پاکستان میں اشیائے صرف کے دام اوپر جاتے ہیں اور کبھی واپس نہیں آتے ۔امریکہ میں رسد اور کھپت کے پرانے اصول کے مطابق‘ چیزوں کے نرخ گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ کچھ وجوہ کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ واپسی ممکن ہے با لخصوص اگر یورپ کی اقتصادی بحالی ہوتی ہے اور بھارت اور پاکستان زیادہ توانائی استعمال کر نے لگتے ہیں۔ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں تیل کے نرخ سیاسی مقا صد کے لئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ تیس برسوں میں موٹر سائیکل آمد و رفت کا بڑا ذریعہ بن گیا ہے اور لوگ پورا کرایہ ادا کرنے کے باوجود بس کی چھت پر بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر سفر کرتے ہیں۔ ترقی پزیر ملکوں میں توانائی کی کھپت میں اضافہ نا گزیر ہے اس لئے تیل کے دام بھی دوبارہ اوپر جائیں گے۔ 
تیل کے نرخ نیچے آنے سے دنیا میں سرمایہ داری نظام کو خاصا دھچکا لگا ہے ۔تیل پیدا کرنے والے بڑے ملک زیادہ بڑے نقصانات کا سا منا کر رہے ہیں۔ نتیجے میں دولت کی از سر نو تقسیم معرض وجود میں آسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ جوہری ایرانی منصوبے پر بین الاقوامی مذاکرات سے لے کر امریکی سنٹرل بینک کی پالیسی اور معیشت کو مزید توانا کرنے کی کوشش تک کو ضعف پہنچے۔ ایران کے تیل کے امور کے وزیر بیجان نامدار زنگانا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اوپیک کا فیصلہ اچھا نہیں ۔ تیل کے منافع میں کمی کے اثرات ایران کے خلاف مغربی تعزیروں کو سخت تر کریں گے اور روس کو بھی یوکرائن پر تعزیروں کی نسبت زیادہ کڑی سزا دیں گے ۔سعودی عرب نے‘ جو روزانہ 9.7 ملین بیرل پیدا کرتا ہے‘ قیمتیں گرنے دی ہیں اور اس طرح وہ عالمی منڈی میں اپنے حصے کی خاطر لڑ رہا ہے۔ آج کل روزانہ عالمی مانگ 94ملین بیرل سمجھی جاتی ہے ۔ روس سمیت جو ملک تیل کی آمدنی سے قومی بجٹ متوازن کرتے ہیں ان کو سخت مشکلات کا سامنا ہو گا ۔ا س حکمت عملی کا بڑا ہدف امریکی شیلف آئل ہے جس کی پیداوار چھ سال قبل نہ ہونے کے برابر تھی اور اب وہ چار ملین بیرل روزانہ پیدا کر رہا ہے ۔امریکی ڈرائیور ہر روز جون کے مقا بلے میں 630ملین ڈالر کم خرچ کر رہے ہیں۔ اگر ایک سال بعد پٹرول کی قیمتیں دوبارہ اوپر گئیں تو وہ کوئی جلوس نکالے بغیر کم تیل استعمال کرنا شرع کر دیں گے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں