لڑکیوں کو دریا بُرد کرنے کا رواج

امریکی صدر کے خاندان کے افراد پریس کوریج کا ہدف نہیں بنائے جاتے ۔ اس کی ممانعت کا کوئی قانون نہیں‘ بس روایت ہے جس کی خلاف ورزی کرنے والے کو مخالف پارٹی اور صدر کے نقاد بھی پناہ نہیں دیتے ۔گزشتہ دنوں تو کانگرس کی ایک اہلکارکو‘ بارک اوباما کی بیٹیوں کو سوشل میڈیا پر نیک مشورہ دینے کی بنا پر اپنے منصب سے الگ ہونا پڑا۔الزبتھ لاٹن (Elizabeth Lauten) ایک ریپبلکن کانگرس مین کے دفتر میں ڈائریکٹرتعلقات عامہ تھیں۔ انہیں ڈیموکریٹک صدر کے مخالفین کی حمایت بھی نہ ملی اور وہ وقوعہ سے صرف تین دن کے اندر مستعفی ہو گئیں ۔صدر مملکت یوم تشکر(Thanksgiving day) سے ایک دن پہلے ایک ٹرکی کو امان دیتے ہیں اور ان کا کنبہ اس قدیم رسم میں ان کا ساتھ دیتا ہے ۔اس سال ٹیلی وژن کے لاکھوں ناظرین نے یہ مختصر منظر دیکھا جس میں مالیا اور شاسا بھی دکھائی دیں مگر لاٹن نے اپنی ویب سائٹ پر انہیں یہ مشورہ دے ڈالا کہ اُنہیں (منظرِ عام پر) کسی قدر ''کلاس‘‘ کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اور ایسے ملبوسات سے گریز‘ جیسے وہ ایک ''بار‘‘ پر جگہ کی تلاش میں ہیں۔ گو اگلے دن انہوں نے فیس بک پر معافی مانگ لی مگر بلاگر اور ٹویٹر والوں نے لاٹن کے الفا ظ ساری دنیا میں پھیلا دیے تھے اور ان سے معذرت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یوں ٹرکی پرندے کی جان تو بچ گئی مگر لاٹن کی خطیر تنخواہ پر چھری چل گئی ۔
یہ صدر کے بچوں بالخصوص نابالغ بچیوں کو میڈیا کوریج کا موضوع بنا کر مستعفی ہونے کی پہلی مثا ل نہیں۔ جو چیز لاٹن کو کانگرس کے لئے کام کرنے والوں سے الگ کرتی ہے‘ وہ تیز رفتاری ہے جس سے وہ روزگار سے محروم ہو ئیں ۔ انہیں ہر طرف سے مذمت کا سا منا تھا ۔وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جاش ارنسٹ نے کہا: ''یہ بات بڑی حد تک عام فہم ہے کہ صدر کے بچے نکتہ چینی کی حد سے باہر ہونے چاہئیں۔ خاتون نے معذرت نامہ پوسٹ کرکے مناسب اقدام کیا‘‘۔ ڈیموکریٹک وائٹ ہاؤس کے مخالف‘ کسی نے اتنا بھی نہیں کہا کہ مس لاٹن چونکہ ری پبلکن تھیں اس لیے انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
کئی اخبارات اور ٹیلی وژن نے گزشتہ ہفتے توجہ دلائی تھی کہ مالیا‘ عمر 16 سال اور ساشا‘ عمر 13 سال بیزار دکھائی دیتی تھیں جب ان کے والد‘ قبل از یوم تشکر تقریب میں تقریر کر رہے تھے۔ لڑکیوں کے ستے ہوئے حلیے‘ ٹرکی کو معافی دینے کی رسم کا شریفانہ مذاق اڑانے کے لئے استعمال کئے گئے تھے ۔بعض اخبارات نے صدر کا مخول بھی اڑایا اور کوریج کو چبھتی ہوئی سرخیوں کے ساتھ پیش کیا ۔ان میں کثیر الاشاعت روزنامہ USA Today بھی شامل تھا‘ جو ملک کے تقریباً ہر بڑے شہر سے شائع ہوتا ہے ۔معاشرتی اصول کے مطابق‘ لڑکیوں کو اب ڈیٹ پر بھی جانا چاہیے۔ ایک دو بار وہ وائٹ ہاؤس سے باہر بھی نکلیں مگر پریس نے اس واقعے کو اہمیت نہیں دی ۔ان کے خیال میں اس میں کوئی خبریت نہیں تھی ۔
دو سال قبل بہار کی تعطیلات پر مالیا سیر و تفریح کے لئے میکسیکو گئی تو یہ کو ئی خبر نہ تھی مگر جونہی ملحقہ علاقوں میں زلزلہ آیا تو اس کے ذاتی دورے کو پریس کوریج کے پر لگ گئے ۔اس سال گرمیوں میں اس نے ہالی وڈ میں شاگردی (Internship) اختیار کی تو اس کی خبر بن گئی ۔وائٹ ہاؤس کے ایک سابق ترجمان نے پریس اور وائٹ ہاؤس میں ایک غیر تحریری سمجھوتے کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا۔ ''جب وہ نا بالغ تھیں اور اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کر رہی تھیں تو یہ افہا م و تفہیم موجود تھی کہ ان سے تعرض نہیں کیا جائے گا‘‘۔ امریکہ میں ریاستی سطح پر تعلقات عامہ کا کوئی محکمہ نہیں اور مرکز میں کسی پی آئی ڈی یعنی پریس انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ کا وجود نہیں پھر بھی وائٹ ہاؤس سمیت ہر سرکاری محکمے‘ ہر کمپنی اور ہر اہم عہدیدار کے ساتھ ایک یا ایک سے زیادہ انفرمیشن افسر موجود ہیں جو ہر صبح اخبار والوں کو بریفنگ دیتے ہیں یا اپنے صاحب یا صاحبہ کی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرتے رہتے ہیں‘ خواہ ان کا پریس نوٹ شائع ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ۔
یہ عجیب اتفاق ہے بلکہ میں اسے حسن اتفاق کہوں گا کہ اوباما سے پہلے ضعیف العمر رونلڈ ریگن کو چھوڑ کر ہر صدر اور خاتون اول کا وائٹ ہاؤس بیٹیوں سے معمور رہا ہے ۔ میں جمی کارٹر سے پیچھے نہیں جا سکتا ۔ ڈیموکریٹک لیڈر کے ساتھ ایمی آئی جو اس وقت نو سال کی تھی ۔جب 1976ء میں اس کے والدین نے جارجیا سے واشنگٹن منتقل ہونے کے بعد اسے سکول میں داخل کرانا چاہا تو یہ خبر بن گئی۔ اگلے سال ایک مقبول ٹیلی وژن شو پر سکول میں ایمی کے لیل و نہارکا مذاق اڑا مگر بیشتر ناظرین نے کوریج‘ بے مزہ قرار دی۔ امریکہ میں چونکہ ہر جنس کے لئے برابر کے اقتصادی مواقع موجود ہیں اس لئے لڑکے یا لڑکی کا امتیاز نہیں برتا جاتا۔ صدور کی تمام بیٹیاں بر سر روزگار اور اپنے گھروں میں آباد و شاد ہیں ۔ خود کشی کی وارداتیں یہاں بھی ہوتی ہیں مگرکسی غریب کو بھی اپنی بیٹیاں دریا برد کرکے اپنے آپ کو مارنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سانحہ پشاور سے پہلے کم و بیش ایک ہزار سکولوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں بیشتر لڑکیوں کے تھے۔14جولائی 2008ء کو بلوچستان میں پانچ عورتوں کو ان کے عمرانی قبیلے سے اغوا کرکے با با کوٹ‘ ضلع جعفر آباد میں گولی ماری گئی اور پھرمرنے سے پہلے وہیں ایک گڑھے میں دبا دیا گیا۔ ان میں تین لڑکیاں تھیں جو اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی تھیں اور جنہیں بڑی عمر کی دو عورتوں کی حمایت حا صل تھی ۔ ان سب کے قاتل کہاں ہیں؟
ری پبلکن جارج بش آئے تو ان کے ساتھ دو بیٹیاں تھیں۔ جینا اور باربرا جڑواں تھیں اور ان کی عمر انیس سال تھی ۔جب وہ آسٹن‘ ٹیکسس میں نابالغ ہونے کے باوجود الکوحل پاس رکھنے کی بنا پر گرفتار ہوئیں تو صدر کے خاندان کو خاصی تشہیر ملی‘ جس کا موقف تھا کہ ایسے واقعات ہر گھر میں پیش آتے ہیں‘ اس میں خبریت کہا ں سے آ گئی ؟ 1993ء میں ایک قدامت پرست ری پبلکن ٹاک شو ہوسٹ نے چیلسی کلنٹن کو ایک کتے سے تشبیہ دی۔ چیلسی اب خود ایک ٹاک شو ہوسٹ ہے۔ اس نے پچھلے دنوں ایک بچے کو جنم دیا اور مسز کلنٹن‘ جو کبھی پاکستان کی ساس قرار دی گئی تھیں‘ اب نانی بن گئی ہیں ۔دادی تو وہ بن نہیں سکتیں کیونکہ سابق امریکی وزیر خارجہ کے ہاں اولاد نرینہ نہیں ہوئی ۔وہ وائٹ ہاؤس کے لئے ایک کوشش کر چکی ہیں۔چونکہ سیاست بڑی حد تک خدمت ہے اس لئے ایسا لگتا ہے وہ ڈیموکریٹک نامزدگی کے حصار سے نکلنے کی جدو جہد میں ہیں۔ ''صدر کی ملازمت ذہنی دباؤ سے عبارت ہے ۔یہ تیز رفتار فیصلوں کا تقاضا کرتی ہے خواہ آپ اس پر سونے کی ضرورت محسوس کرتے ہوں‘‘۔ سابق امریکی وزیر خارجہ نے اکیسویں صدی کی صدارت کے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے باسٹن‘ میسا چوسٹس میں کہا: ''ٹیکنالوجی فوری طور پر آپ کو دنیا سے منسلک کرتی ہے جب کہ ایسے فیصلوں کے بارے میں آپ کی آرا سے متعلق مسلسل سوال پوچھے جاتے ہیں‘ خواہ آپ ان کے لئے مزید سوچ بچار کا ارادہ کیوں نہ رکھتے ہوں‘‘۔ 
بہرحال‘ الزبتھ لاٹن جیسے عہدیداروں کے لئے ایک ریپبلکن مشورہ ہے: ''بچے بالخصوص دختر اوّل (پریس کوریج کی ) حدود سے باہر یعنی off limitہیں۔ اگر (صدر کی بیٹیوں کے لباس پر) تبصرے نامناسب تھے تو مین سٹریم میڈیا کی جانب سے اس تقریب کی کوریج بھی افسوس ناک ہے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں