کوئلہ جلاؤ‘ بجلی بناؤ

صدر بارک اوباما کو اگلا الیکشن تو لڑنا نہیں‘ زیادہ سے زیادہ 2016ء کے عام انتخابات میں اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کی ساکھ بحال کرنا ہے‘ جو سینٹ کے بعد ایوان نمائندگان میں بھی اکثریت کھو چکی ہے‘ یا اپنے ترکے کو بہتر بنانا بھی ان کا مقصود ہو سکتا ہے‘ جس میں منصب کی دوسری اور آخری چار سالہ مدت میں ان کی پچاس فیصد مقبولیت اور امریکی معیشت کی اٹھان شامل ہیں۔ غالباً اسی غرض سے انہوں نے بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں حصہ لینے اور نئے وزیر اعظم نریندر مودی سے رسم و راہ بڑھانے کے لئے یہ دورہ رکھا تھا‘ جو ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مسلمانوں کے قتل عام سے نظریں چرانے کی بنا پر امریکی ویزا سے محروم رہے تھے۔نئی دہلی میں دونوں لیڈروں نے تجارتی امور پر بات چیت کے بعد کہا کہ انہوں نے سول نیوکلیائی تعا ون میں دیرینہ جمود کے تصفیے میں پیش رفت کی ہے۔ اوباما نے کہا کہ امریکہ اور بھارت نے ایک (Breakthrough Understanding) رکاوٹ توڑ افہام و تفہیم حاصل کی ہے۔ ''یہ غلط ہے‘‘۔ نئی دہلی میں دفاعی امور کے تجزیہ کا ر آر آر سبرامنیم نے کہا: ''بھارتی حکومت شہر میں جائے گی اور رکا وٹ توڑ کامیابی کی رٹ لگائے گی مگر بہت سے سوال اب بھی جواب طلب ہیں۔‘‘ اور یہاں واشنگٹن میں نجی نیوکلیائی صنعت کے ترجمان کرسٹوفر وائٹ احتیاطاً بولے:'' ہم حکومتوں کے مابین ہونے والے سمجھوتوں پر نظر ثانی کے منتظر ہیں‘‘۔ امریکہ اور جاپان کی مشترکہ فرم جی ای ہٹاچی کی جانب سے مسٹر وائٹ نے ایک بیان میں کہا: ''کمپنی ایک ایسا سمجھوتہ چاہتی ہے جو بھارت کو ضمنی معاوضہ پر اس بین الاقوامی معاہدے کی حدود میں لائے جو سانحے کی صورت میں مالی ذمہ داری کی آخری حد مقرر کر تا ہے‘‘۔
دنیا بھوپال کا سا نحہ نہیں بھولی جس میں یونین کاربائڈ کے جراثیم کش کارخانے سے MICگیس لیک کر جانے سے مدھیہ پردیش کی تصدیق کے مطابق تین ہزار سات سو ستاسی افراد مر گئے تھے‘ جن کے لواحقین کو معاوضہ دینے کا کام تین عشروں میں بھی مکمل نہیں ہوا جب کہ کمپنی دیوالیہ ہو چکی ہے۔ بھارتی قانون ایسے کارخانے بنانے اور لگانے والوں کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیتا ہے اس لئے بین الاقوامی کمپنیاں ان کارخانوں میں روپیہ لگانے سے گریز کرتی ہیں۔ صدر اوباما کے پیشرو جارج بش نے ایسے ہی ایک دورے میں بھارت کو سول نیوکلیر ٹیکنالوجی پیش کی تھی اور اس وقت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اس پیش کش کو بسر وچشم قبول کیا تھا مگر دونوں ملکوں میں نیوکلیائی مواد پر نظر رکھنے پر اتفاق نہ ہوا۔ صدر اوباما کہتے ہیں‘ یہ افہام و تفہیم بھارت کے ایٹمی بجلی گھروں میں سرمایہ لگانے والی امریکی اور دوسری کمپنیوں کا کام آسان کر دے گی۔ نئی تفہیم میں ایسی ٹھوس مثالیں نہیں دی گئیں۔ یہ متعدد سوالوں میں سے دو کا جواب مہیا کرتی ہے۔صدر کہتے ہیں :ہم تعمیل کے لئے قدم آگے بڑھانے کے پابند ہیں اور ایسا قدم یہ دکھانے کے لئے کہ ہم اپنے رشتوں کی سطح بلند کرنے کے لئے مل جل کر کام کر سکتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے واضح کیا کہ سمجھوتے کی تعمیل کی غرض سے انشورنس پْول بنائے جائیں گے اور مالی ذمہ داری کو 2008ء کے سمجھوتے کی حد تک کم کیا جائے گا۔امریکی کمپنیاں کہہ رہی ہیں کہ ان کو بیمے کی حد اور نیوکلیائی ساز و سامان کی ترسیل پر سمجھوتے کی کوئی تفصیلات مو صول نہیں ہوئیں ؛تاہم ایک امریکی خبر رساں ایجنسی نے ایک بھارتی عہدیدار کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ایک سو بائیس ملین ڈالر کا ایک انشورنس فنڈ قائم کیا جائے گا ‘جس میں ان کی حکومت بعد میں اپنا حصہ ادا کرے گی۔
ایٹمی عدم پھیلاؤ کے امریکی ماہرین سوال کرتے ہیں کہ آیا اوباما کو جوہری سازو سامان کی نقل و حمل پر نظر رکھنے کے تقاضے سے استثنا دینے کا اختیار ہے؟ جو 2006ء کے قانون میں شامل تھا اور جس نے بھارت کو دوسری امریکی برآمدات پر پابندیوں کو نرم کر دیا تھا۔ سابق وزیر اعظم نے اپنے منصب کی پہلی مدت امریکہ کے ساتھ ایک سول نیوکلیائی سمجھوتے سے نتھی کردی تھی جس سے تین عشروں کی بھارتی تنہائی ختم ہوئی اور اس نے امریکی کمپنیوںکو اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچانے اور ہزاروں آسامیاں نکالنے کا اہتمام کیا تھا۔بھارتی پارلیمنٹ نے2010ء میں جب ذمہ داری کا قانون منظور کیا تو امریکی حکومت اور کمپنیاں دنگ رہ گئیں۔اس کے بعد سال 2011ء آ گیا اور جاپان میں ایک ایٹمی حادثہ رو نما ہوا توجوہری ترقی کے بھارتی ارادوں پر اوس پڑ گئی۔جوہری بھٹیاں لگانے کے لئے جگہیں حاصل کرنا بھی دشوار ہو گیا۔اب وہاں بجلی کی مجموعی پیداوار میں نیوکلیئر پاور صرف دو فیصد ہے۔
اوباما اور مودی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ آب و ہوا میں تبدیلی جیسے مسائل پر بھی بات آگے بڑھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بتدریج کاربن کے دھوئیں سے نجات پانے پر متفق ہیں اور اسی سال بعد میں پیرس کانفرنس میں آب و ہوا کا ایک مضبوط عالمگیر معاہدہ حاصل کرنے کی سعی کی جائے گی۔ اب تک چین اور بھارت ہی ایسے کسی معاہدے کے خلاف تھے۔ امریکہ نے چین کو رضامند کر لیا ہے اور اب بھارت بھی اپنا قوم پرستانہ موقف ترک کرنے پر آمادہ ہے۔وہ تینوں اقتصادی ترقی کی خاطر زیادہ آلودگی پھیلاتے ہیں۔ امریکہ نے تو عشروں کی پیش رفت کے بعد یہ منزل حاصل کر لی مگر چین اور بھارت آب و ہوا میں تبدیلی روکنے کے لئے اب اس پر آمادہ ہوئے ہیں۔ اگر وہ معدنی کوئلے کا استعمال کم کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے تو اوزون کو جو انسان کو مضر صحت شعاؤں سے محفوظ رکھتاہے‘ کمزور کرنے کے سزا وار ہوتے۔
پاکستان میں زیادہ دھیان کوئلہ جلاؤ بجلی بناؤ پر ہے۔بجلی پیدا کرنے میں کوئلے کا ستعمال پرانا اور سستا ہے۔بجلی کی پیداوار جلد سے جلد بڑھانا پاکستان کی ترجیح ہے‘ او زون کے گھسنے‘ گلیشیر کے پگھلنے اور سمندروں کی سطح بلند ہونے کو روکنا اس کا مقصود نہیں ہو سکتا۔کا لا باغ ڈیم نہیں تو کچھ نہیں۔وہ چھوٹی ٹربائنوں اور ہوا اور دھوپ جیسے قابل تجدید وسائل پر انحصار نہیں کرے گا۔ ملک میں موٹر گاڑیوں کی ریل پیل اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیںکے باعث دوپہر تک دھند چھائی رہتی ہے اور موٹروے پر ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ آئے دن لاہور سے باہر جانے والی بہت سی پروازیں منسوخ کرنا پڑتی ہیں اور مختلف شہروں کے درمیان آمد و رفت معطل کر دی جاتی ہے۔یہ مظہر بھارت اور پاکستان سے خاص نہیں‘ ایک بار میں سنگا پور سے جکارتہ جا رہا تھا تو سارا راستہ دھند کی لپیٹ میں تھا۔اس وقت عام لوگ یہ وضاحت کرتے تھے کہ آس پاس کے جنگلوں میں آگ لگی ہوئی ہے یا زرعی مقاصد کے لئے یہ آگ بھڑکائی گئی ہے۔بھارت اور امریکہ قابل تجدید توانائی کے فروغ پر بھی کار بند ہیں۔اگرچہ ہوا اور دھوپ سے حاصل کردہ توانائی مہنگی ہے مگر امریکہ‘ اس ضمن میں بھی بھارت کی امداد کر رہا ہے۔ بھارت میں تین کروڑ لوگ اب بھی بجلی کے بغیر زندہ ہیں اور پاکستان کی طرح دیسی کوئلے سے بجلی حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔امریکہ‘ گیس کے معاملے میں خود کفیل ہو چکا ہے اور تیل کے ضمن میں ہونے والا ہے اور اوباما انتظامیہ اس معاملے میں نجی صنعت کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔اس نے ماحولیاتی فکر مندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بحر اوقیانوس کے ساحل سے دُور تلاش کے کام کی اجازت دی ہے۔اگر اس اجازت نے قانون کا درجہ حاصل کیا توپہلی بار مغربی ساحل کے بعد مشرقی ساحل پر بھی تیل کے پلیٹ فارم دکھائی دیں گے مگر انسان جس شے کو مادی ترقی کہتا ہے قدرت کو وہ منظور نہیں۔اوکلا ہوما میں ایسی اجازت دی گئی تھی۔ریاست میں زلزلوں کی تعدا د ایک سال میں چھ گنا بڑھ گئی اور سائنسدان ‘تیل اور گیس کی فروغ پزیر صنعت کو قصوروار کہہ رہے ہیں۔پھیپھڑوں کا سرطان اس پر مستزاد ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں