امریکی مسلمان‘ جائیں تو جا ئیں کہاں؟

نارتھ کیرولینا میں بیک وقت تین جواں سال مسلمانوں کے قتل پر صدر اوباما نے جو بیان دیا اس کے الفاظ غور طلب ہیں۔انہوں نے اس ''وحشیانہ اور ظالمانہ‘‘ قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ''ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں محض اس بنا پر کسی کو ہدف (ٹارگٹ) نہیں بنایا جا سکتا کہ وہ کون ہے‘ کیسا دکھائی دیتا ہے اور کیسے عبادت کرتا ہے‘‘۔ صدر نے بدھ کے دن بھی امریکی مسلمانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ دہرائے اور زور دے کر یہ بات کہی کہ اسلام سے انتہا پسندی کا کوئی تعلق نہیں۔ مسٹر اوباما نے جمعرات کے روز ساٹھ ملکوں کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''اپنا جواز منوانے کے لئے بے تاب ''اسلامک سٹیٹ‘‘ کو شکست دیں گے۔ دنیا کے ایک ارب سے زیا دہ مسلمان کہتے ہیں کہ وہ اسلامی ہے نہ ریاست‘ وہ اسلام کو بد نام کر رہے ہیں‘‘۔ امریکہ میں صدر کے موقف پر نکتہ چینی کرنے والوں کی کمی نہیں اور ان میں مسٹر اوباما کی اپنی پارٹی کے کچھ لوگ بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس‘ متشدد دہشت گردی کے توڑ کی لڑائی میں اصطلاح ''ریڈیکل اسلام‘‘ استعمال کیوں نہیں کر رہا۔ صدر نے جواب دیا کہ ایک متشدد انتہا پسند یا دہشت کار کا کوئی ایک خاکہ (پروفائل) نہیں ہے۔ مخالف یہ بھی کہتے ہیں کہ صدر نے عملاً داعش کو شکست دینے کا کوئی لائحہ عمل پیش نہیں کیا۔
پاکستان کی طرح یہاں بھی امن و امان کی حفاظت ایک ریاستی معاملہ ہے۔ چند معاملات‘ جن میں مرکز کو دخیل ہونے کا اختیار ہے‘ اُن میں سے ایک منافرت ہے جو امریکہ کی بنیادی اقدار میں سے ایک ہے۔ جس دن داعش نے ایک زیر یرغمال امریکی عورت کی ہلاکت کا اعلان کیا‘ اسی روز یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے تین طلبا کو‘ جن میں سے ایک نو بیاہتا جوڑا اور تیسری دلہن کی بہن تھی‘ گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ وہ سب عربی النسل تھے۔ اسلامی حیا داری کا لباس پہنتے تھے اور امریکہ میں پیدا ہو ئے تھے۔ لڑکے کا آبائی وطن شام تھا اور رضاکارانہ طور پر اس نے ترکی میں شامی مہاجروں کے ایک کیمپ میں کچھ رفاہی کام بھی کیا تھا۔ وہ دندان سازی کی ڈگری کے لئے پڑھ رہا تھا۔ صدر پر دباؤ بڑھ گیا تھا کہ وہ اس اقدام کو ایک وفاقی جرم قرار دیں اور تفتیش کا کام مقامی پولیس سے لے کر ایف بی آئی کو سونپیں۔ صدر کو یہ بھی احساس تھا کہ جن ووٹوں سے وہ دو بار کامیاب ہوئے ان میں امریکی مسلمانوں کی پرچیاں بھی شامل تھیں؛ چنانچہ انہوں نے مقتولوں کو سامنے رکھ کر ایک بیان لکھا اور جاری کیا‘ اس سے پہلے کہ وفاقی ادارہ ضروری تفتیش کے بعد یہ طے کرتا کہ آیا یہ منافرت انگیزی تھی یا پارکنگ کی جگہ کا دیرینہ جھگڑا جو اس جرم کا محرک بنا۔ وہ ملزم کے ہمسائے تھے اور ایک کنڈومینئم یا مشترکہ ملکیت کی عمارت میں رہتے تھے۔ یہ عمارت چیپل ہل سے کچھ فاصلے پر ہے‘ جہاں یونیورسٹی کا کیمپس ہے اور جس میں ایف سی کالج لاہور کے پروفیسر فیض الرحمن فیضی تین سال پہلے وفات پانے تک اقتصادیات پڑھاتے رہے اور آج کل ڈاکٹر ممتاز احمد اسلامیات کی تعلیم دیتے ہیں۔ علاقے میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
وائٹ ہاؤس گزشتہ خزاں سے انتہا پسندی کی روک تھام پر ایک سہ روزہ کانفرنس کی تیاریاںکر رہا تھا کہ پیرس‘ کوپن ہیگن‘ یمن اور لیبیا میں دہشت خیزی کے واقعات نے اس میں بین الاقوامی دلچسپی دوچند کر دی۔ صدر‘ امریکی مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب کرنے کے بعد محکمہ خارجہ میں پاکستان‘ افغانستان اور بھارت سمیت ساٹھ ملکوں کے سفیروں سے ملے۔ کانفرنس کے شرکا نے سات ماہ کا ایک لائحہ عمل مرتب کیا۔ ستمبر میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہو گا تو اس منصوبے کی تاثیر کا امتحان ہو گا۔ منصوبے کا مقصد ایک ایسے امریکی فریم ورک کا نفاذ ہے‘ جس سے اندرون ملک دہشت گردی کے حملوں کی روک تھام ہو سکے گی۔ نائن الیون کی طرح اس منصوبے پر شک کرنے والے امریکی بھی موجود ہیں‘ جو کہتے ہیں کہ اگر حکومت‘ دین کا کام کرنے میں مصروف لوگوں کی جاسوسی کا ارادہ رکھتی ہے تو یہ ناکام ہو گا۔ ان میں عبدالسلام آدم بھی شامل ہیں‘ جن کا آبائی تعلق صومالیہ سے ہے‘ جو سکول ٹیچر اور امام مسجد ہیں اور جن کا کام اتنا مباح ہے کہ اس کانفرنس کے دوران اسے اجاگر کیا گیا ہے۔ صدر نے کچھ معروف دہشت گروںکا حوالہ دیتے ہوئے اس خیال کو رد کر دیا کہ مفلسی‘ متشدد انتہا پسندی کا سبب بنتی ہے البتہ انہوں نے کرپشن کو اس کا ذمہ دار گردانا۔ انہوں نے استدلال کیا کہ اگر امریکی اس ملک میں داعش اور القاعدہ میں بھرتی کی کوشش کا توڑ چاہتے ہیں تو انہیں تشدد آمیز نظریات کو ناکام بنانا ہو گا۔ مسلمان امریکی معاشرے کا لازمی جزو ہیں۔
پاکستانی مسلمان کہتے ہیں کہ انتہا پسندی کے نام پر ایک بار پھر ٹیکس دینے والے امریکیوں کا مال اڑایا جائے گا۔ اگلے سال کے صدارتی بجٹ میں پندرہ ملین ڈالر محکمہ قانون کے لئے مختص کئے گئے‘ جنہیں وہ انتہا پسندی کے توڑ کا کام کرنے والوں میں بانٹے گا۔ اس میں محکمہ خارجہ کے لئے بھی تین سو نوے ملین ڈالر کی ایک رقم رکھی گئی ہے‘ جو دہشت گردی کے توڑ اور متشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے لئے صرف کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ رقوم چونکہ سرکاری ادارے تقسیم کریں گے‘ اس لئے امکان ہے کہ بیشتر مسلم لیڈر انہیں قبول نہیں کریں گے‘ جب کہ بعض امریکی مسلمان یہ بھی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی مخالفت کے لئے جو رقوم مختص کی جاتی ہیں وہ صحیح اسلامی تنظیموں تک نہیں پہنچتیں۔ امریکہ‘ انتہا پسندی سے لڑنے والی حکومتوں کو بھی امداد دیتا ہے۔ اس کے پاس ان رقوم کے مصرف کا کوئی یقینی پیمانہ نہیں ہے۔ وہ تو اتنا چا ہتا ہے کہ شارلی ایبدو کا امریکی ایڈیشن مت نکلے۔
عرب بہار‘ خزاں میں بدل گئی۔ مشرق وسطیٰ میں لڑائی ہو رہی ہے اور یہ پتہ نہیں چلتا کہ کون کس سے لڑ رہا ہے۔ جب بھی مشرق وسطیٰ یا مغربی ایشیا میں خونریزی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے لوگ امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں اور لامحالہ اس طرح امریکی مسلمان متاثر ہوتے ہیں۔ اس جنگ کو روایتی شیعہ سنی لڑائی کا رنگ دیا گیا۔ داعش نے آ کر دونوں فرقوں کی پٹائی کی اور عراق اور شام کے درمیان نو آبادیاتی طاقتوں کی کھینچی ہو ئی لکیر ختم کرکے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کر لیا۔ وہ اپنے موقف کی تشہیر کے لئے بیک وقت قدیم اور جدیدٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہے۔ ورجینیا کے نو آبادیاتی دارالحکومت ولیمز برگ میں‘ جو سیاحوں کے کام آتا ہے‘ اب تک وہ گلوٹین موجود ہے جو مجرموں کی گردن اڑانے کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔ اب امریکہ کی بعض ریاستوں میں سزائے موت ختم کر دی گئی ہے اور باقی میں مجرموں کو زہر کا ٹیکہ لگا کر موت کی نیند سلایا جاتا ہے۔ داعش نے اب تک دو بار ''دشمنوں‘‘ کا سر قلم کرکے اور اس عمل کا وڈیو بنا کر جاری کیا ہے۔ ان میں امریکی صحا فی اور امدادی کارکن بھی شامل تھے چنانچہ امریکیوں کا مشتعل ہونا قدرتی تھا۔ با ایں ہمہ اب تک اس نے دنیا میں ہونے والی خونریزی کو ''اسلامی دہشت گردی‘‘ کے نام سے نہیں پکارا کیونکہ وہ اسے صلیبی جنگوں کا نام نہیں دینا چاہتا۔ حقیقت یہ ہے کہ داعش کے ٹھکانوں پر پیہم بمباری کرنے اور ایسی بمباری میں اردن‘ مصر اور لیبیا کا ساتھ دینے کے باوجود وہ اپنے آپ کو حالت جنگ میں نہیں پاتا۔ طاقت ور عراقی لیڈر مقتدیٰ الصدر کا تازہ بیان اس مناقشے سے تاریخی شیعہ سنی نزاع کو الگ کرتا ہے۔ انہوں نے داعش کے خلاف شیعہ ملیشیا کی تمام کارروائیاں معطل کر دی ہیں اور یہ واضح کیا ہے کہ ملیشیا فوجیں نجف اشرف اور کربلائے معلیٰ کی حفاظت کے لے معرض وجود میں لائی گئی تھیں‘ کسی فرقہ وارانہ لڑائی کے لئے نہیں۔ داعش زور دے رہی ہے کہ اس کی لڑائی فرقہ وارانہ نہیں وہ تو خلافت کی بحالی کے لئے کو شاں ہے۔ وہ خلافت عثمانیہ کی بات نہیں کرتے جس کا صدر مقام ترکی تھا اور جو پہلی جنگ عظیم کے آخر میں خود ترکوں نے ختم کر دی تھی۔ ان حالات میں امریکی مسلمان جائیں تو جائیں کہاں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں