اقبالِ جرم

کانگرس کے ایک مشترکہ اجلاس میں ‘ ایران کے جوہری منصوبے پر اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی تقریر کے بعد کوئی چار درجن ریپبلکن سینیٹروں نے ایرانی حکومت کو ایک خط لکھا‘ جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اس نے اس سلسلے میں امریکی حکومت سے کوئی سمجھوتہ کیا تو اسے رد کر دیا جائے گا۔یہ قوم کو دو لخت کرنے اور ملک کی خارجہ پالیسی چلانے کی کوشش ہے۔ اس کے لیے عوام نے ڈیمو کریٹک صدر بارک اوباما کو منتخب کیا‘ جو روس اور چین سمیت دنیا کی پانچ طاقتوں کے ہمراہ اس بارے میں ایرانیوں سے بات چیت بھی کر رہے ہیں ۔ اس دوران مشرق مغرب کے کسی لیڈر یا کسی اخبار نے یہ نہیں بتایا کہ ایران تو اسرائیل ہی کے نقش قدم پر چل رہا ہے‘ جس طرح پاکستان نے بھارت کی پیروی میں ایٹم بم بنایا تھا۔چند سال پہلے جب میں قاہرہ میں تھا تو دیکھ رہا تھا کہ حسنی مبارک کے صاحبزادے جمال صاحب‘ باپ کی جانشینی کے شوق میں مصری بم بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ظاہر ہے کہ اگر ایران نے بم بنایا تو اسرائیل کا ہمسایہ بھی ایسا ہی کرے گا خواہ مصر میں جنرل عبدالفتح السیسی کی حکومت ہو یا کوئی اور حکمران۔ایٹم بم زندہ رہنے کے لئے غریب آدمی کا دفاع بن چکا ہے اور اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں اپنی جہدا للبقا کے لئے نہ صرف ایٹم بم کا ایک ذخیرہ جمع کر رکھا ہے بلکہ اسے شست پر بھی لگالیا ہے۔پاکستان نے بھی بھارت کے جارحانہ عزائم سے بچنے کے لئے ایسا ایک ہتھیار بنایا ہے اور اسے ہدف تک پہنچانے کے لئے اسی کی پیروی میں راکٹ کے تجربے کر رہا ہے۔ بم کو نشانے پر پہنچانے کے لئے اس کی تاثیر اور مار میں توسیع اب ہر ایٹمی ملک کا معمول بن چکا ہے ۔
اسرائیل نے بھارت سے بھی پہلے بم بنانے کا کام شروع کیا اور اپنی سرگرمیاں خفیہ رکھیں۔ساٹھ سال پہلے صحرائے نجو میں اس کی اولین تنصیبات پوشیدہ تھیں۔اب اس کے پاس دو سو ایٹم بم اور میزائل وار ہیڈ ہیں۔ نیتن یاہو امریکی مقننہ کو بتا رہے تھے کہ ایران نہ صرف انسپکٹروں کی حکم عدولی کرتا ہے بلکہ وہ ان کے ساتھ لکن میٹی اور دھوکہ دہی کا کھیل بھی کھیلتا ہے۔اب تک ایسا بیان یا مضمون نظر سے نہیں گزرا جس میں کہا گیا ہو کہ اسرائیل بھی امریکی معائنہ کاروں کے ساتھ یہ کھیل کھیلتا رہا ہے۔جب اسرائیل فرانس کی امداد سے اپنا پہلا ری ایکٹر تعمیر کر رہا تھا تو اس نے اسے کپڑا بننے کا کارخانہ ( ٹیکسٹائل پلانٹ) کہا تھا اور بعد میں اسے دھاتوں پر تحقیق کے ادارے کا نام دیا۔دسمبر 1960ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ ڈیمونا میں چوبیس میگاواٹ کا ری ایکٹر چار سال میں تعمیر نہیں ہو سکتا اور جب وہ بنے گا تو اس کا استعمال پْر امن مقاصد کے لئے ہو گا۔4جنوری 1961ء کو امریکی سفیر سے ایک ملاقات میں بن گوریان نے سائنسدانوں کو ری ایکٹر کے مشاہدے کی اجا زت دے دی مگر اس شرط کے ساتھ کہ معلومات راز میں رکھی جائیں گی۔اگلے سال بن گوریان اور صدر جان ایف کینیڈی کی ملاقات میں بتایا گیا کہ دوسرا ری ایکٹر بجلی بنائے گا مگر ہو سکتا ہے کہ چند سال میں اسرائیل پلوٹو نیم کو الگ کرنے والا پہلا پلانٹ لگائے لیکن سرِدست ہتھیاروں کی صلاحیت پیدا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘ ایران کا جوہری منصوبہ بھی اسی مرحلے میں ہے مگر جب تہران سے ایسا بیان آتا ہے تو امریکی عوام کا ایک حصہ اسے رد کرتا ہے۔اس وقت صدر کینیڈی نے اسرائیلی وزیر اعظم سے کہا تھا: مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو یہ باور کرانا امریکہ اور اسرائیل کے مفاد میں ہے کہ ری ایکٹر اور ملحقہ عمارتیں پْر امن مقاصد کے لئے بنائی گئی ہیں؛ تاہم ستمبر 1962ء میں جب امریکی سائنسدان دوسری بار اسرائیل گئے تو انہوں نے وہ منظر دیکھا جس کی انہیں امید نہ تھی۔یہ بجلی کا کارخانہ یقیناً نہیں تھا۔اگرچہ جوہری اسلحے کی تیاریوں کا ثبوت ان کی نظر سے نہیں گزرا مگر انہیں تنصیبات کے مشاہدے کے لئے صرف چالیس منٹ دیے گئے تھے اور ایک بڑی عمارت تک ان کی رسا ئی روک دی گئی تھی۔یہ جان کر کہ اسرائیلی تیسری بھٹی لگانے کو ہیں کینیڈی وائٹ ہاؤس میں شیمون پیریز سے ملے۔ پیریز نائب وزیر دفاع تھے مگر کینیڈی کو معلوم تھا کہ اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کے انچارج بھی وہی ہیں۔کینیڈی نے ڈیمونا میں اسرائیلی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا تو پیریز بولے: ''میں واضح طور پر آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہم خطے میں جوہری ہتھیار متعارف نہیں کریں گے اور یقیناً ہم اس معاملے میں پہل نہیں کریں گے۔‘‘ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ایٹمی اسلحہ متعارف کرا چکا ہے اور اب نہیں چاہتا کہ ایران یا مصر ایسا کرے۔ ایران کے امکانی ہتھیار کو وہ '' اسلامی بم‘‘ کہتا ہے۔یہ وہ الزام ہے جس کا سا منا پاکستان بھی کر چکا ہے۔مغربی میڈیا اب یہ اندیشہ ظاہر کر رہا ہے کہ خلافت جو مغرب کی بمباری کے باوجود شام اور عراق کے درمیان ایک وسیع خطہ ارض پر قابض ہو چکی ہے یہ بم چوری نہ کر لے حالانکہ بم کو نشانے پر گرانے کا عمل نہایت پیچیدہ ہے اور ہر ایٹمی طاقت اس کے لئے تجربات کئے جا رہی ہے۔
جولائی 1963ء میں جب کینیڈی کو معلوم ہوا کہ اسرائیل ‘ ڈیمونا تک امریکی سائنسدانوں کی ر سائی کے سمجھوتے کی دھجیاں اڑا رہا ہے تو انہوں نے نئے وزیر اعظم لیوی ایشکول کو ایک خط لکھا جو وقت گزرنے پر صیغہ راز میں نہ رہا۔ انہوں نے لکھا: اسرائیل (کے دفاع کا ) امریکی وعدہ ''معرضِ خطر میں پڑ سکتا ہے اگر یہ تاثر عام ہوا کہ ہم امن کے ایک ایسے سوال پر نازک اہمیت کی معلومات حاصل کرنے سے قاصر ہیں جو جوہری میدان میں اسرائیلی کوشش سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘ خطے میں یہ سوال پیدا ہو چکا ہے۔ عراق اور شام میں ایران کا اثرورسوخ ہے۔کویت اور دوسرے خلیجی ملکوں میں ہمدرد آبادی موجود ہے۔یمن کی حکومت مسمار ہو چکی اور وہ لبیا اورصوما لیہ کی راہ پر چل رہی ہے۔اردن اور مصر میں مغربی نسخے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔مغربی ا یشیا کے عوام بھی اسرائیل کی خارجہ پالیسی کے باعث مغرب سے بیزار ہیں۔
1965ء میں بھارت اور پاکستان کی لڑائی سے چند روز پہلے جب پورے خطے میں کسی کے پاس ایٹم بم نہیں تھا ایشکول نے یہ پیریز فارمولا لکھ کر صدر لنڈن بی جانسن کی حکومت کے حوالے کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جوہری اسلحہ متعارف کرانے میں پہل نہیں کرے گا۔ اس میمو میں کہا گیا تھا: '' اسرائیلی حکومت غالباً جوہری راستہ کھلا رکھنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔‘‘ خود مختار ایران بھی یہی چاہتا ہے اور اوباما انتظامیہ غالباً اسی اصول کے تحت ایران کو دس سال تک بم نہ بنانے کی پابندی قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
امریکی جاسوسی سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسرائیل ‘ زمین سے زمین پر مار کرنے والے ایسے بلسٹک سسٹم بنا رہا ہے جو ایٹم بم لے کر پرواز کریں گے۔آج ان معلومات تک رسائی کے لئے کوئی جاسوسی درکار نہیں ہے۔پا کستان نے شاہین تھری کا جو تجربہ کیا ہے اور جس کے تحت اس کا راکٹ سترہ سو میل تک مار کر سکتا ہے‘ اس کا اعلان مسلح افواج کے محکمہ تعلقات عامہ نے کیا ہے۔ بھارت نے پہلی بار 2012ء میں اپنے بلسٹک میزائیل کا تجربہ کیا تھا جو تین ہزار میل سے زیادہ دائرے میں مار کر سکتا تھا مگر ان تجربات پر چین ‘ روس‘ اسرائیل اور ترکی سمیت کسی بھی ملک نے احتجاج نہیں کیا۔اسرائیل کے ایٹمی ذخائر کا سوال اس وقت اٹھا جب صدر نکسن نے فروری 1969ء میں عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے پر دستخط ثبت کرنے کا فیصلہ کیا۔اس سال وائٹ ہاؤس میں صدر نکسن اور وزیر اعظم گولڈامیئر کی میٹنگ میں طے پایا کہ اسرائیل اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا تجربہ نہیں کرے گا ‘ ان کی ملکیت کا اعلان نہیں کرے گا اور ان کو کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی دھمکی نہیں دے گا۔
اس کے بدلے امریکہ نے قول دیا کہ وہ اسرائیل کو عدم پھیلاؤ کے عہد نامے میں شمولیت پر مجبور نہیں کرے گا ڈیمونا کے دورے ختم کر دے گا اور اسرائیلی جوہری پروگرام کو برداشت کرے گا مگر اس کے وجود کا اعتراف نہیں کرے گا۔بھارت اور پاکستان کو بھی یہ مراعات دی گئیں۔اسرائیل کے اپنے جوہری ذخائر ‘ ایسے اسلحے سے پاک مشرق وسطیٰ کے بارے میں صدر اوباما کی تجویز پر سنجیدہ غور وفکر میں مانع ہیں۔ ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کا معا ہدہ‘ ایٹمی طاقتوں کا ا قبال جرم تھا: البتہ ایٹمی اسلحے کی ایجاد کے بعد کوئی عالمگیر جنگ نہیں ہوئی اور بھارت اور پاکستان کی مثال بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔اگر دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے تباہ ہونا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں