اشرف غنی کی خبر پر فرخندہ کا سایہ

امریکہ اور افغانستان میں فوجوں کی واپسی پر سمجھوتہ ہو گیا ہے اور بقول صدر اوباما اس سمجھوتے میں پاکستان کے متعلق نئے افغان صدر کے مثبت رویے کو بھی دخل ہے۔مسٹر اوباما نے وائٹ ہاؤس میں صدر محمد اشرف غنی احمد زئی اور چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے سمجھوتے کی تفصیلات بتائیں۔ اس معاہدے کی رو سے افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد 9,800 پر منجمد کر دی جائے گی‘ جو اوباما کی مدتِ صدارت ختم ہونے تک برقرار رہے گی۔ امریکی فوجوں کی سست رفتار واپسی کی درخواست صدر غنی نے کی تھی جو دونوں ملکوں کے لئے بڑی خبر تھی مگر یہ کابل سے آنے والی ایک اور خبر کے مقابلے میں دب کر رہ گئی۔اس خبر کے مطابق ایک ستائیس سالہ افغان خاتون کو زندہ جلایا گیا اور دو گھنٹے کی کارروائی کے بعد فرخندہ کی لاش دریائے کابل میں پھینک دی گئی۔ لاش کی باقیات بہہ کر پاکستان پہنچ گئی ہوں گی‘ جہاں اٹک کے مقام پر یہ دریا‘ دریائے سندھ میں گرتا ہے۔مقامی اخبار نے افغان خاتون کے درد ناک انجام کی خبر صفحہ اول اور اوباما کے ساتھ افغان صدر کی خبر بارھویں صفحے پر شائع کی۔'' میرا کیا جرم تھا؟ شہید فرخندہ‘‘ دری پلے کارڈ کے ساتھ ملحقہ تصویر میں پو چھا گیا ہے۔ فر خندہ سر سے پاؤں تک سیاہ برقع میں رہتی تھی۔ ایک دینی مدرسے میں زیر تعلیم تھی اور اس کے والد محمد نادر ملک زئی کے بقول شوہر کے گھر جاکر اپنے بچوں کی بہتر پرورش پر یقین رکھتی تھی۔ اس نے ایک قریبی مسجد کے امام کے ضمنی کاروبار پر اعتراض کیا‘ جو تعویذ گنڈے کے ذریعے غریبوں سے پیسے بٹورتا تھا۔ امام نے اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر سادہ لوح عوام کو اشتعال دلایا اور ایک ہجوم نے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا۔یہ پیغام پاکستان کے لئے بھی ہے جہاں ذاتی دشمنی میں مذہب کے نام پر لوگوں کو مار دیا جاتا ہے۔
صدر اوباما کا فیصلہ‘ جسے افغان لیڈر نے '' لچک‘‘ قرار دیا اور جو امریکی فوجوں کو پاکستان کی سرحد پر تعمیر کردہ اُن اڈوں میں رہنے کا موقع دے گا‘ جو انٹیلی جنس فراہم کرنے اور طالبان کے خلاف جوابی کارروائی کے لئے نازک اہمیت کے حامل ہیں۔اس سے افغان فوجیوں کو اس فضا سے امداد ملے گی‘ جو اس بہار اور آنے والی گرمیوں میں شدید لڑائی میں مصروف ہو ں گے اور طالبان لیڈروں کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کی کوشش کریں گے۔ معاہدے کی دوسری شق میں پاکستان کے بارے میں نئی افغان حکومت کی ''اپروچ‘‘ میں تبدیلی کی تعریف کی گئی ہے۔ یہ تبدیلی تو صدر غنی اور ان کے وفد کی مصروفیات کے بیان سے ظاہر تھی جو ایک دن پہلے واشنگٹن پہنچے تھے اور آٹھ دن مشترکہ کمیٹیوں میں شرکت کرنے اور ملک کی سیرو سیاحت کا ارادہ رکھتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے نئے سپہ سالار راحیل شریف نے بھی‘ جنہوں نے بار بار کابل جا کر افغانستان سے ٹوٹے ہوئے رابطے بحال کرائے تھے‘ ایک ہفتے تک امریکہ میں قیام کیا تھا۔استقبالیے میں صدر اوباما نے کولمبیایونیورسٹی ( نیو یارک) میں اشرف غنی کی تعلیم کا ذکر کیا تو وہ بولے۔آ پ بھی تو اسی ادارے کے فارغ التحصیل ہیں اور مسٹر اوباما نے علم الانسان میں مسٹر غنی کی ڈگری کو سراہا تو انہوں نے جواب دیا: آپ کی والدہ ماجدہ بھی تو اینتھروپولوجسٹ رہی ہیں۔اگرچہ چیف ایگزیکٹو عبداللہ اور ان کے بیشتر ساتھی پہلی بار واشنگٹن آئے تھے مگر مسٹر غنی‘ جو عالمی بنک کے نائب صدر رہے‘ اس چھوٹے سے شہر سے بخوبی واقف ہیں۔وہ جگہ جگہ شکریہ ادا کرتے دکھائی دیے۔کیمپ ڈیوڈ ( میری لینڈ) میں وزیر خارجہ جان کیری اور وزیر دفاع ایشٹن کارٹر سے مذاکرات شروع کرنے سے پہلے اشرف غنی نے اپنی مختصر تقریر میں امریکی عہدیداروں اور ٹیکس گزاروں کا آٹھ بار شکریہ ادا کیا جو افغانستان کی تیرہ سالہ لڑائی کے اخراجات برداشت کرتے رہے اور ایک سابق بینکر ہونے کے ناتے وہ وائٹ ہاؤس میں بھی امریکی ٹیکس دہندگان کو نہیں بھولے۔صبح وہ اور ان کے ہمراہی آرلنگٹن گئے اور قومی قبرستان میں ان دو ہزار دو سو پندرہ سپاہیوں کا شکریہ ادا کیا‘ جو افغانستان میں طالبان سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔
آج واشنگٹن اور کابل کے معاندانہ رشتے کی یادیں ماند پڑ رہی تھیں ۔صدر حامد کرزئی اپنی دس سالہ حکمرانی کے آخری ایا م میں کھل کر امریکہ کے خلاف ہو گئے تھے اور جو ں جوں نیٹو فوجوں کی تعداد میں‘ جو صرف ایک سال پہلے ایک لاکھ بیس ہزار تھی‘ کمی ہوتی گئی‘ وہ واشنگٹن پر الزام لگانے لگے کہ وہ بڑھتی ہوئی خونریزی میں اپنا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔وہ پاکستان کو بھی افغان لڑاکوں کو پناہ دینے کا الزام دیتے تھے ہر چند کہ خود ان کی حکومت نے ملا فضل اللہ اور ضرب عضب سے بھاگنے والے تحریک طالبان پاکستان کے دوسرے انتہا پسندوں کو اپنی حفاظت میں رکھا ہوا تھا۔ صدر اوباما نے کہا: اب افغانستان سے ہماری سٹریٹیجک پارٹنر شپ بحال ہو چکی ہے۔صدر غنی نے طالبان اور ابو بکر بغدادی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دری میں کہا: وہ نہیں‘ ہم اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں۔صدر کر زئی نے قراقلی ٹوپی کے ساتھ سبز دھاری دار گاؤن پہن کر ایک افغان تشخص اجاگر کیا تھا۔صدر غنی اور ان کے نائب عبداللہ مغربی لباس پہن کر دنیا کے سامنے آتے ہیں اورا مریکی صدر کی پیہم یاد دہانی کے مطابق ایک ''قومی حکومت‘‘ کا پتہ دیتے ہیں۔بیگم غنی لبنانی نژاد ہیں‘ ترقی ٔ نسواں کے کام کرتی ہیں‘ امریکہ میں پرورش پائی ہے اور اس شہر کے کوچہ و بازار سے واقف ہیں۔
گو اوباما انتظامیہ نے افغانستان میں فوجی ترقی کی تعریف کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ غنی حکومت تا دیر غیر ملکی معاونت پر انحصار کرے گی۔ اب افغان فوج اور پولیس کی نفری تین لاکھ باون ہزار ہے جس کے سالانہ اخراجات چار بلین ڈالر ہیں جب کہ اس کے محاصل صرف ایک بلین ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ کیری نے ایک نئے ترقیاتی پروگرام کا بھی اعلان کیا جس میں آٹھ سو ملین ڈالر ‘ حکومتی اصلاحات سے مشروط کر دیے جائیں گے۔ غنی نے ایک بار پھر اپنا آموختہ دہرایا اور بولے: ''چھتیس فیصد افغان ‘ خط مفلسی سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں مگر ''ہم کسی پر بوجھ نہیں بنیں گے‘‘۔کانگرسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ دو سال کے لئے تو افغان سکیورٹی فورسز کی امداد جاری رہنے کا امکان پاتے ہیں لیکن اگر امریکی فوجیں وہاں سے ہٹ جاتی ہیں تو اس کے بعد قانون سازوں کا بدستور مہربان ہونا غیر یقینی ہو جائے گا۔ ۱وباما اور غنی میں طے پانے والے سمجھوتے کی رو سے اس سال نو ہزار آٹھ سو امریکی فوجیوں کو آدھا کرنے کا منصوبہ ایک طرف رکھ دیا جائے گاتاہم اس منصوبے کے مطابق سال 2017ء کے آخر میں کوئی امریکی فوجی وہاں نہیں ہو گا۔امریکی اور افغان ذرائع ابلاغ کے چار نمائندوں کو سوال پو چھنے کی اجازت تھی۔جب ایک امریکی نے پو چھا کہ افغان آرمی‘ امریکی فوج کی امداد کے بغیر طالبان سے کیونکر لڑے گی تو مسٹر اوباما نے جواب دیا کہ ان کی جگہ افغان نیشنل آرمی لے گی اور وہ طالبان اور حقانی گروپ سے بہتر کار گزاری پیش کرے گی۔
اوباما اور غنی کی یہ رجائیت امریکی تجزیہ نگاروں اور سابق سرکاری عہدیداروں کے اندیشے سے لگا نہیں کھاتی۔دونوں لیڈروں کی ملاقات سے ذرا پہلے بش اور اوباما حکومتوں کے کئی سابق عہدیداروں نے ایک بیان جاری کیا جس میں افغانستان کی جنگ کو '' مسدود‘‘ ظاہر کیا گیا ہے۔اس پر رائن کراکر کے دستخط بھی ہیں جنہیں صدر اوباما نے امریکہ کا سفیر بنا کر کابل بھیجا تھا۔ کھلے خط میں کہا گیا ہے کہ طالبان‘ افغان شہریوں کا صفایا کر رہے ہیں۔دریں اثنا سیاسی اور اقتصادی صورت حال دگر گوں ہے۔افغان امور کے تیئس ماہرین نے اپنے بیان میں کہا کہ 2016ء میں مکمل امریکی انخلا‘ غیر ضروری طور پر گزشتہ تیرہ سال کی کامیابیوں کو معرض خطر میں ڈال دے گا۔وہ در اصل عراق کی صورت حال سے مایوس ہیں‘ جہاں امریکیوں کے جاتے ہی فرقہ وارانہ بد امنی شروع ہو گئی اور خلافت نے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق اور شام کی سرحد کو منسوخ کرکے دونوں ملکوں کے کئی شہروں پر قبضہ کر لیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں