اب توجہ پائپ لائن پر دی جائے!

امریکہ اور ایران میں جوہری اسلحہ نہ بنانے کا ایک فریم ورک طے پا گیا ہے جس کے تحت جون تک ایک معا ہدے کو حتمی شکل دی جائے گی۔اس وقت تک وہ اقتصادی اور معاشی تعزیریں اٹھا لی جائیں گی جو یورپی یونین اور واشنگٹن نے تہران پر عائد کر رکھی ہیں اور جن سے ایران‘ پاکستان اور بھارت کے مابین گیس کی ایک پائپ لائن کی تعمیر بھی متاثر ہوئی ہے ۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ سوئٹزرلینڈ میں مکمل ہوا جہاں اقوام متحدہ کے چار دوسرے ارکان بھی موجود تھے جن میں روس اور چین بھی شامل ہیں ۔ان عالمی طاقتوں اور جرمنی کو تو اس سمجھوتے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا مگرری پبلکن کانگرس اور اسرائیل کو اس کا قائل کرنا مشکل ہو جائے گا۔صدر اوباما نے اسرائیلی لیڈر بنجمن نیتن یاہو کو فون کر کے فریم ورک کی تفصیلات سے آگاہ کیا جو یہ کہہ کر اسے رد کر چکے تھے کہ اس سے ایران کو ایٹم بم بنانے میں سہولت ہوگی۔ بلی اب تھیلے سے باہر آئی ہے اور ایک اسرائیلی عہدیدار کا بیان ہے کہ اگر اسرائیل کو تسلیم کرنا ایجنڈے میں شامل کر لیا جاتا تو اسے ایران کے ساتھ امریکی مذاکرات پر اعتراض نہ ہوتا اور صدر اوباما‘ جو معاہدے کو جنگ کا نعم البدل کہتے ہیں‘ اس دلیل کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہیں ۔پاکستان اور خلیج کے عرب ملکوں اور ایران نے یہود کی ریاست کو تسلیم نہیں کیا۔وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے تسلیم کئے جانے کے منتظر ہیں۔
ایرانی سنٹری فیوج کی تعداد انیس ہزار سے گھٹا کر 6,104 کر دی جائے گی ۔ان میں سے بھی صرف 5,060 اگلے تیس سال تک یورینیئم افزودہ کر سکیں گے ۔ باقی سب اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کے معائنے اور دیکھ بھال کی زد میں ہوں گے۔ ایران کم تر درجے کے یورینیئم کے ذخائر کو دس ہزار سے گھٹا کر تین سو کلو گرام کرے گا۔گویا وہ اپنے یورینیئم میں ستانوے فیصد کمی پر رضا مند ہو گا۔پندرہ سال تک وہ یورینیئم کو تین اعشاریہ ستاسٹھ فیصد سے زیادہ افزودہ نہیں کرے گا‘ جس سے ایرانی بجلی گھر کی ضروریات پوری ہو سکیں گی ۔بم سازی میں کام آنے والے یورینیئم کو نوے فیصد تک افزودہ کرنا پڑتا ہے ۔انسپکٹروں کو تمام جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل ہوگی ۔وہ کسی بھی مشتبہ جگہ کا معائنہ کر سکیں گے جن میں ایرانی کانیں‘ سنٹری فیوج رکھنے کی جگہیں اور نیوکلیائی لین دین شامل ہوں گے ۔سمجھوتے کا امریکی مقصد ''بریک آؤٹ‘‘ یعنی بم سازی کی ایرانی صلاحیت کو کم کرنا ہے۔ موجودہ حالات میں ایران تین چار ماہ میں بم بنا سکتاہے‘ سمجھوتے پر عملدرآمد کی صورت میں یہ مدت بڑھ کر ایک سال ہو سکتی ہے ۔امریکہ یا کوئی اور طاقت ہمیشہ کے لئے ایران کو بم سازی سے باز نہیں رکھ سکتی۔ان حالات میں بین الاقوامی برادری کو ایران کے خلاف کارروائی مربوط کرنے کا زیادہ موقع ملے گا۔
یہ فریم ورک ان دنوں طے پایا جب سعودی عرب دو ہفتوں سے اپنے ہمسائے یمن پر بم باری کر رہا تھا اور ایران پر یمن کے حوثی باغیوں کی پشت پناہی کا الزام تھا ۔ امریکہ نے سعودی عرب کو جدید ہتھیار بھیجے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ سعودیہ کی قیادت میں نام نہادعرب اتحاد کی جنگ کا حامی ہے۔ پاکستان نے یہ معاملہ قومی اسمبلی کی صوابدید پر چھوڑ دیا اور وزیر اعظم نے ایوان کو یقین دلایا کہ وہ جو کچھ کہے گا اس پر ''من و عن‘‘ عمل کیا جائے گا۔سعودیہ کو یمن میں زمینی حملے کے لئے پاکستان کی فوجی نفری درکار ہے ۔ دقت یہ ہے کہ ایران ہمارا مشرقی ہمسایہ اور سعودی عرب دیرینہ دوست ہے ۔گزشتہ ایک عشرے سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف تن تنہا ایک لڑائی لڑ رہا ہے اور اس میں ہزاروں سویلین اور فوجی کام آ چکے ہیں۔ جنگ و جدل سے تنگ بیشتر قانون ساز کہتے ہیں کہ یمن میں پاکستان کو فریق نہیں ثالث ہونا چاہیے اور اتحاد بین المسلمین کے لئے کام کرنا چاہیے ۔تہران میں ترکی کے مہمان صدرطیب اردوان اور ایرانی لیڈر حسن روحانی کی مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی یہی نتیجہ نکلا کہ یہ سنی شیعہ نزاع نہیں بلکہ اقتدار کی جنگ ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ ترکی کے بعد ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا‘ جو ہفتہ رفتہ تک سوئٹزرلینڈ میں مصروف رہے‘ 22عہدیداروں کا ایک وفد لے کراسلام آباد آنا بھی اسی سمت اشارہ کرتا ہے ۔انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ یمن کی جنگ میںغیر جانبدار رہے اور جنگ بندی کے لئے کام کرے ۔ انہوں نے جنرل راحیل شریف سے الگ ملاقات کی‘ شاید وہ پاکستان کی پانچ لاکھ پچاس ہزار فوج کو حکومت سے آزاد ایک ادارہ خیال کرتے ہیں ۔مذہبی امور کے سعودی وزیر بھی پاکستان آئے ہیں ۔ امن کے لئے اسلامی ملکوں کی سفارت کاری متحرک ہو گئی ہے ۔ ایران میں‘ جہاں شیعہ اکثریت میں ہیں‘ فریم ورک پر جشن منانے کی وجوہ دوسری تھیں ۔وہ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہونے کے با وصف بین الاقوامی اقتصادی تعزیروں سے زچ تھا اور ایران پاکستان پائپ لائن کا کام بھی رکا ہوا تھا ۔
منصوبے کے مطابق ایرانی گیس کو عسلوت بندر ( صوبہ بو شہر) سے خلیج فارس میں ڈالنا اور پھر بلوچستان سے ہوتے ہوئے کراچی اور ملتان کے راستے نئی دہلی تک پہنچایا جانا تھا اور اس پر سات بلین ڈالر خرچ آنا تھا۔ دو ہزار سات سو کلومیٹر (1,620میل) پائپ لائن‘ گیارہ سو کلو میٹر ایران اور ایک ہزار کلومیٹر پاکستان سے گزرے گی اور بھارت سے معاہدہ ہونے کی صورت میں باقی ماندہ چھ سو کلومیٹر بھارتی علاقے سے گزاری جائے گی ۔چونکہ پائپ لائن کا زیادہ فائدہ ایران کو ہوگا اس لئے وہ تعمیر کے ساٹھ فیصد اخراجات خود برداشت کرنے پر آمادہ تھا ۔زمین پر بچھی پائپ لائن کسی اور طریقے کی نسبت چار گنا سستی ہوگی‘ خواہ اس میں ٹرانزٹ فیس کی وہ رقوم شامل کر لی جائیں جو پاکستان کو ادا کی جائیں گی۔ پاکستان ٹرانزٹ فیس کی صورت دو سو تا پانچ سو ملین ڈالر سالانہ کمائے گا اور پائپ لائن سے قدرتی گیس خرید بھی سکے گا ۔پائپ لائن روزانہ ایک سو دس ملین کیو بک میٹر گیس لے جائے گی۔ پچاس ملین کیوبک میٹر سے ایران اپنی ضروریات پوری کرے گا۔شروع میں وہ پاکستان کو تیس ملین کیوبک میٹر یومیہ دے گا اور بتدریج ساٹھ ملین کیوبک میٹر مہیا کرنے لگے گا۔ ایران اور پاکستان نے 2009ء میں استنبول کے مقام پر باضابطہ طور پر پائپ لائن کے عہدنامے پر دستخط کئے تھے ۔روس اور چین اپنی اپنی وجوہ کی بنا پر اس منصوبے کی تکمیل میں مالی امداد دینے پر آمادہ رہے ہیں ۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں بار بار یہ اعلان کرتی آئی ہیں کہ ایران پر اقتصادی تعزیروں کے باوجود وہ اس معاہدے سے منحرف نہیں ہوں گی۔ ایران اپنے حصے کی پائپ لائن بنا بھی چکا ہے ۔اس نے پاکستان میں پائپ بچھانے کے لئے پانچ سو ملین ادھار دیے اور ایک ایسی پرائیویٹ کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا جو امریکی تعزیروں کی لپیٹ میں نہیں تھی۔ پاکستان نے اپنے حصے کی پائپ لائن بچھانے کے لئے ایران کی تدبیر انرجی کمپنی کو براہ راست کانٹریکٹ دیا۔جب پاکستان میں حکومت تبدیل ہو رہی تھی تو صدر آصف علی زرداری اور ان کے ایرانی ہم منصب احمدی نژاد نے پاک ایران پائپ لائن کی تعمیرکے آخری مرحلے کا افتتاح کر دیا‘ لیکن امریکہ نے اسلام آباد کو انتباہ کیا کہ اسے اقتصادی تعزیروں کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ پاکستان کے سر سے یہ خطرہ تو ٹل گیا ہے مگر ایرانی دباؤ باقی ہے ۔ وزیر تیل بیجان نامدار زنگہ نے ایسے دعووں کی تردید کی ہے کہ ایران پائپ لائن کے معاہدے کی اس شق سے دست بردار ہوگیا ہے کہ اگر پاکستان نے پائپ لائن بچھانے میں تاخیر کی تو ایران اس سے لاکھوں ڈالر یومیہ ہرجانہ وصول کرنے کا حقدار ہو گا۔ گزشتہ مہینے 18فروری کو پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ اس نے ایران سے گیس خریدنے کا منصوبہ ترک نہیں کیا اور یہ کہ بین الاقوامی تعزیریں ہٹتے ہی وہ اسے آگے بڑھائے گا ۔پاکستان میں توانائی کا بحران سنگین ہے اور اب ہوا اور دھوپ سے بجلی لینے کے ساتھ ساتھ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں