بلھے شاہ کا ہندی اور عربی کلام

خوش ذوق آبادکار‘ نجی کاروباروں اور سرکاری ملازمتوں سے ریٹائر ہونے لگے ہیں اور امریکی شہروں میں ادبی انجمنوں کی رونق بڑھ رہی ہے۔ ایسے کم سے کم دو علمی اور ادبی ادارے تو صدر مقام پر کام کر رہے ہیں۔ ایک حلقہ ارباب ذوق‘ شمالی امریکہ‘ کہلاتا ہے اور دوسرا‘ انجمن ادب اردو SOUL‘ وہ دونوں پاکستان کے ادبی حلقوں کی طرح (ہفتے میں نہیں) مہینے میں ایک اجلاس کرتے ہیں‘ جن میں بنیادی طور پر ایک مقالہ‘ ایک افسانہ اور ایک غزل یا ایک نظم پڑھی جاتی ہے اور اس پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں‘ تنقید نہیں ہوتی‘ ہر چند کہ بعض شرکاء پاکستان اور ہندوستان سے تنقیدی روایت ساتھ لائے ہیں۔ ان محفلوں میں شرکت کا بڑا مقصد معاشرتی میل جول کو فروغ دینا ہے۔ آخر میں منتظمین کی جانب سے تمام شرکاء کی تواضع چائے پانی سے کی جاتی ہے۔ چائے کے کپ پر گفتگو کے دوران انہیں ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرنے اور سماجی تعلقات بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔
حلقے کے بانی‘ کفایت رحمانی تھے‘ جو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے‘ لاہور میں انجینئرنگ کی تعلیم پائی اور ملازمت کے سلسلے میں امریکہ نازل ہونے سے پہلے برطانوی افریقہ میں خدمات سرانجام دیں۔ وہ انجمن سازی کے مشتاق تھے۔ دونوں براعظموں میں کئی مساجد کی بنیادیں استوار کیں۔ واشنگٹن کے علاقے میں ''دارالنور‘‘ بھی ان کی اختراع ہے۔ پُرہجوم مسجد کے باہر ایک پارکنگ سپیس اب تک ان کے لئے محفوظ ہے‘ گو انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے ایک سال ہونے کو ہے۔ علی گڑھ اور کراچی یونیورسٹی کی طرح پنجاب یونیورسٹی کے طلبائے قدیم کی ایسوسی ایشن بنائی اور آخر میں جامع مسجد میں سینئر سٹیزن سنٹر قائم کر دیا‘ جس کے ارکان نماز جمعہ کے بعد دوپہر کے کھانے پر گفتگو کرتے ہیں۔
اس مرتبہ حلقے کے اجلاس میں گفتگو کا موضوع تصوف تھا۔ جب سے مذہبی اساس پرستی کے نام پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کا قتل‘ عام ہوا ہے‘ صوفیوں کے طرزِ زندگی اور ان کے کلام کی جانب لوگوں کی رغبت بڑھ گئی ہے۔ ڈاکٹر معظم صدیقی نے تصوف کے فروغ میں خواتین کے حصے کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے اپنے لیکچر میں بتایا کہ مشرق و مغرب کے ہر مذہب میں تصوف کارفرما رہا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مثنوی مولانا روم میں درج حضرت موسیٰ علیہ السلام اور چرواہے کی کہانی سنائی اور کہا کہ ایک انسان‘ کتنا ہی عالم فاضل کیوں نہ ہو ایک صوفی کے مقابلے میں عام لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتا کیونکہ عملاً ایک عالم دین ''فصل‘‘ اور ایک صوفی ''وصل‘‘ کی تلقین کرتا ہے۔
ڈاکٹر صدیقی نے تین مذاہب اور تین زبانوں کا ذکر کیا۔ بودھ مت‘ ہندوازم اور اسلام‘ یہ تذکرہ دراصل پالی‘ سنسکرت اور عربی کا تھا۔ صوفی‘ کم سوتا ہے‘ مبادا خدا کی رحمت نازل ہو اور وہ پڑا سویا رہے۔ خانقاہ اور لنگر صوفی کے ڈیرے کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔ سید علی ہجویریؒ‘ خواجہ فرید گنج شکرؒ، معین الدین چشتی ؒ، نظام الدین اولیاؒ‘ شاہ عبداللطیفؒ اور دوسرے صوفی برصغیر تشریف لائے تو انہوں نے حملہ آور بادشاہ کو راہ راست پر رکھنے کے علاوہ عام لوگوں کو بڑی تعداد میں متاثر کیا۔ ان کی مقبولیت دیکھ کر جعلی پیر بھی بکثرت پیدا ہوئے اور انہوں نے شیطان الرجیم کا کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال‘ جو خود صوفی منش تھے‘ کے کلام میں جلال الدین رومی اور منصور حلاج کی تعریف کے علاوہ ان کے نقالوں پر تنقیص کی فراوانی ہے۔ مثلاً ''خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو‘‘ اور ''گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن‘‘۔
معظم صدیقی نے رابعہ بصری کی ''دعا‘‘ کے اقتباسات پیش کئے جن میں خدا کی عبادت کو بے لاگ قرار دیا گیا ہے اور شاہ فضل عباس نے انیسویں صدی کے ایک ''مواحد‘‘ غالب کے کلام سے اس کا ترجمہ سنایا۔ ''طاعت میں تار ہے نہ مے و انگبیں کی لاگ‘ دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو‘‘۔ ڈاکٹر صدیقی ایک کیسٹ ساتھ لائے تھے جس میں رابعہ بصری کی دعا کا ایک ہندی ترجمہ بھرا تھا۔ انہوں نے بھارت کی نامور صوفی گائیک شوبھا مْدگل کی آواز فضا میں بکھیری تو حاضرین جھوم اٹھے۔ ''سائیں بس تو ہی مورے سائیں۔‘‘
ڈاکٹر صدیقی کوئی نصف صدی پہلے حیدر آباد دکن سے اعلیٰ تعلیم کی خاطر امریکہ منتقل ہوئے تھے اور آج جنوبی ایشیا کی ادبیات پر سند سمجھے جاتے ہیں۔ پچھلے موقع پر انہوں نے ''ہولی‘‘ پر بلھے شاہ کی ایک نظم پیش کی تھی‘ جو ظاہر کرتی ہے کہ صوفی صلح کل لوگ تھے اور دوسرے مذاہب کا بھی احترام کرتے تھے۔ نظم‘ اردو‘ عربی‘ ہندی اور پنجابی میں لکھی گئی ہے‘ چونکہ اردو میں اس کی اشاعت کا یقین نہیں ہے اس لیے سب کی سب یہاں نقل کی جاتی ہے:
ہوری کھیلوں گی کہہ بسم اللہ
نام نبی کی رتن چڑھی‘ بوند پڑی اللہ اللہ
رنگ رنگیلی اوہی کھلاوے جو سکھی ہووے فنا فی اللہ
الست بربکم پریتم بولے سب سکھیوں نے گھونگٹ کھولے
قالو بلیٰ ہی یوں کر بولے لا الٰہ الا اللہ
'نحن اقرب‘ کی بنسی بجائی... 'من عرف نفسہ‘ کی کوک سنائی
'فثم وجہ اللہ کی دھوم مچائی‘ وچ دربار رسول اللہ
ہاتھ جوڑ کر پاؤں پڑوں گی‘ عاجز ہو کے بنتی کروں گی
جھگڑاکر بھر جھولی لوں گی نور محمد صلی اللہ
'فاذ کرونی‘ کی ہوری بناؤں 'واشکرنی‘ پیا کو رجھاؤں
ایسے پیا کے میں بل بل جاؤں کیسا پیا سبحان اللہ
'صبغت اللہ کی بھر پچکاری 'اللہ الصمد‘ پیا منہ پر ماری
نور نبی دا حق سے جاری نور محمد صلی اللہ
بلھے شاہ دی دھوم مچی ہے لا الٰہ الا اللہ
لاہور‘ کراچی‘ ملتان اور پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح بھارت میں بھی صوفی موسیقی پر کام ہو رہا ہے۔ اگرچہ بھارت میں دہشت گردی اور انتہا پسندی پاکستان کی طرح عام نہیں مگر اسلامی تصوف کے ساتھ ساتھ بھگتی تحریک بھی چل رہی ہے۔ بھارتی فلمساز مظفر علی نے ایک ادارہ قائم کیا ہے جو پاکستان کی عابدہ پروین کو سب سے بڑی صوفی گائیک کہتا ہے۔ گو تصوف کی طرح شعر و ادب میں عورت کا تشخص‘ بقول ڈاکٹر صدیقی‘ صیغۂ راز میں رکھا جاتا رہا مگر کچھ عرصے سے ادا جعفری کو اردو شاعری کی خاتون اول کہا اور لکھا جانے لگا ہے۔
کراچی کی ادا جعفری امریکہ‘ ہندوستان اور پاکستان کے ان چار اہل قلم میں شامل تھیں جن کی رحلت پر انجمن اردو ادب کے اجلاس میں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ نیو جرسی کے افسانہ نویس آصف الرحمن طارق، دہلی کے شاعر کلیم عاجز اور لاہورکے صحافی علی سفیان آفاقی ان کے علاوہ تھے۔ ڈاکٹر عبداللہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ انہوں نے بھولی بسری یادیں تازہ کرتے ہوئے سید ہاشم رضا کا ذکر تو کیا مگر وہ اس مشاعرے پر توجہ دینا بھول گئے جس کا اہتمام ان کی علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبائے قدیم نے کیا تھا اور جس میں کنور مہندر سنگھ بیدی سحراور قتیل شفائی بھی شامل ہوئے تھے۔ ادا نے مشاعرے میں ایک غزل پڑھی جس کا ایک مصرع اب تک یاد ہے: ''جہاں میں کچھ لوگ ایسے گزرے جو گھر سے آئے نہ گھر گئے ہیں۔‘‘ اس غزل کا آغاز ہی دھنک کے رنگوں سے ہوتا ہے۔
سول (SOUL) کی دیکھا دیکھی حلقے نے بھی وقت کی پابندی شروع کر دی ہے۔ انجمن دراصل حلقے ہی کا شاخسانہ ہے جو ابوالحسن نغمی اور بیگم یاسمین نغمی نے قائم کی تھی اور جو اب تک جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی (سکائپ) کے ذریعے اور ڈپٹی پوسٹ ماسٹر جنرل شعیب جعفری کے توسط سے کئی اہل قلم کو‘ جن میں ڈاکٹر جاوید اقبال‘ انتظار حسین‘ افتخار عارف اور سعادت حسن منٹو کی تینوں بیٹیاں شامل تھیں‘ واشنگٹن کے لوگوں سے ملا چکے ہیں۔ سول کے اجلاس ایک بج کر انتیس منٹ پر منعقد ہوتے ہیں اور اس کی یہ شہرت پاکستان تک جا پہنچی ہے مگر انجمن کا آدرش متنا زع ہو رہا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ اردو بولنے والے تارکین وطن کے بچے‘ اردو بولنا اور لکھنا سیکھیں۔ اس تنظیم کو معرض وجود میں آئے سات سال ہونے کو ہیں مگر اب تک دو تین بچے ہی اس معیار پر پورے اترے ہیں۔ وہ پانچ دن امریکی سکولوں میں جاتے ہیں اور اواخر ہفتہ ہوم ورک مکمل کرتے اور اپنے کنبے کے ہمراہ معاشرتی تقریبات میں حصہ لیتے ہیں۔ اردو سے خاندانی محبت کے باوصف وہ زبان سیکھنے کے لئے کافی وقت نہیں نکال سکتے۔ اکثر شرکا مہینے کے شروع اور آخر میں ان دونوں جماعتوں کے اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس میل جول کے لئے کافی وقت ہے یا اردو ادب سے ان کا بے پایاں لگاؤ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں