دہشت گرد‘ وزیٹنگ کارڈ نہیں چھوڑتے!

پاکستان کو آج جن مسائل کا سامنا ہے ان کے پیدا کرنے میں بھارت‘ امریکہ اور چین کا نام آتا ہے‘ اس لئے اگلے روز جب ملک کے ریٹائرڈ خارجہ سیکرٹری ریاض حسین کھوکھر واشنگٹن آئے تو مقامی پاکستانی صحافیوں نے غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں رات کے کھانے پر مدعوکیا ۔ وہ مذکورہ تینوں ملکوں میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔ میز بانوں میں منظور اعجاز‘ انور اقبال‘ شاہین صہبائی‘ کوثر جاوید‘ محمد عاطف‘ عمران شاہد‘ واجد علی سید اور دوسرے اخبار نویس شامل تھے۔ ریاض کھوکھر نے مجموعی طور پر حالات کا ایک فی البدیہہ جائزہ پیش کیا اور صحافیوں نے بھارتی جاسوسی ادارے ''را‘‘ کے پاکستان کے اندرونی معاملات میں ملوث ہو نے‘ گوادر راہ داری کے پاک چین عہدنامے اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت وغیرہ کے بارے میں ان کی رائے معلوم کی۔
ریاض کھوکھر نے پاکستان بالخصوص کراچی‘ فاٹا اور سندھ کے حالات کو مرکی (المنا ک) کہا اور واضح کیا کہ مجموعی طور پر تصویر ہول سم (خالص) نہیں ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان کے وزیر اعظم مختلف وفاقی یونٹوں میں کس قدر اتھارٹی کمانڈ کرتے ہیں۔ ریگو لیٹری ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں اور روپے کی قیمت حد سے زیادہ گر رہی ہے۔ یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان کو تنہا کر دیا گیا ہے۔ سارک میں علاقے کے ملک پاکستان کی جانب تکتے تھے‘ اب نہیں۔ بیشتر ہمسایہ قوموں کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں۔ پی پی پی اور متحدہ قومی تحریک فوج سے خوش نہیں۔آرمی اور سول حکومت متوازی چل رہے ہیں۔ وزیر اعظم کراچی ‘ کوئٹہ یا پشاور جاتے ہیں تو آرمی چیف کو ساتھ لے کر سفر کرتے ہیں۔ بعض اوقات آرمی چیف‘ وزیر اعظم سے پہلے قدم اٹھاتے ہیں جیسا کہ انہوں نے سانحہ صفورا گوٹھ کا سن کر سری لنکا کا دورہ منسوخ کرکے کیا اور کراچی جا پہنچے۔سکیورٹی کی صورت حال دگر گوں ہے۔'' اللہ خیر کرے۔‘‘
سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سابق خارجہ سیکرٹری نے کہا: '' اگر ''را‘‘ موجودہ پاکستان میں ملوث نہ ہو تو میں اسے بیوقوف کہوں گا۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کے پاس ''را‘‘ کے ملوث ہونے کا ثبوت کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ دہشتگرد جائے وقوعہ پر اپنا '' وزیٹنگ کارڈ ‘‘ نہیں چھوڑا کرتے۔ (اس دن ''را‘‘ کے سربراہ امریکہ میں تھے)۔ جب پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں چینی‘ پاکستان میں سول اور ملٹری میں سے کس کے ساتھ ڈیل کرنا چاہیں گے ؟ تو وہ خاموش رہے؛ تاہم بعد میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری کے معا ملے میں چینی سنجیدہ ہیں اور مخالف آوازوں کے باوجود چھیالیس بلین ڈالر کا یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔ کالا باغ ڈیم سے اس کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔چینی منصوبے کی تکمیل کے لئے ''قومی اتحاد‘‘ بہت ضروری ہے۔اس کام میں پندرہ سال لگ سکتے ہیں۔اس سے پورے خطے کو فائدہ پہنچے گا۔
کالا باغ ہو یا اقتصادی راہ داری‘ قومی اتحاد لازم ہے۔ پاکستان آرمی کو گلہ ہے کہ دہشت گردی سے نبٹنے میں سول کی جانب سے اسے خاطر خواہ حمایت حاصل نہیں ہو رہی۔واشنگٹن میں کھو کھر صاحب کی گفتگو سے اگلے دن کراچی کے کور کمانڈر جنرل نوید مختار نے ایک مذاکرے میں حصہ لیتے ہوئے تقریباً ایسی ہی باتیں کیں۔ان کی تقریر سندھ حکومت کے خلاف ایک فرد جرم کے مترادف تھی۔اسماعیلی کمیونٹی کی بس پر حملے کے پس منظر میں‘ جس میں 46لوگ کام آئے‘ جنرل صاحب نے کہا: تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو کراچی میں نظم و نسق کی حالت بہتر بنانے میں حصہ لینا چاہیے۔ ہیئت حاکمہ اور پولیس سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہونی چاہیے اور ترقی کو یقینی بنانے کے لئے اہلیت اور محاسبے کو سب سے بڑی ترجیح ملنی چاہیے۔کراچی کی مختلف بستیاں ‘ مافیا گروہوں کا گڑھ ہیں جنہیں سیاسی جماعتوں کی حمایت حا صل ہے‘ جو انہیں تحفظ دینے کی سعی کرتی ہیں؛ تاہم ہماری کارروائی ''اکراس دی بورڈ‘‘ ہوگی اور اس میں ناکامی قابل قبول نہ ہو گی۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ بس پر حملے کے چار ملزم پکڑے گئے اور ان پر '' را‘‘ کے گماشتے ہونے کا شک ہے۔
پاکستانی سیاست کی بحث ہو اور کشمیر کا ذکر نہ آئے‘ ہونہیں سکتا۔ پرانی بات ہے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ‘ لاہور آئے تو ایئرپورٹ پر ایک نامہ نگار نے پوچھا: کشمیر کے حل کے لئے کیا ہو رہا ہے؟ فیلڈ مارشل نے غصہ کھا کر شیخ حفیظ الرحمن کی طرف دیکھا جو ڈائریکٹر تعلقات عامہ تھے اور بولے: ''اس کو کون لے آتا ہے ؟‘‘ ہم سمجھے کہ آج کراچی کے اس اخبار کا کارڈ منسوخ ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ نامہ نگار مبینہ طور پر صدر سے بھی بالا تر ایک ایجنسی کے لئے کام کرتا تھا۔کشمیر کا سوال اٹھا تو کھوکھر صاحب نے صدر یحییٰ خان سے لے کر نواز شریف تک سب کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا اور بولے: سن ساٹھ کے عشرے کے بعد کشمیر پر کوئی ٹھوس گفتگو نہیں ہوئی۔اس موضوع پر ماضی میں جو سنجیدہ مذاکرات ہوئے ان میں سردار سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو نے حصہ لیا تھا۔
پاکستان کی آدھی سے زیادہ تاریخ فوجی حکمرانوں نے بنائی ہے۔جب وہ بر سر اقتدار نہیں ہوتے تو انہیں بُرا بھلا کہا جاتا ہے اور جب سول حکومت اقتدار سنبھالتی ہے تو رفتہ رفتہ وہ زوال پزیر ہوجاتی ہے جیسا کہ اب ہو رہا ہے۔ اگرچہ چین سے اقتصادی راہداری کا سمجھوتہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیا تھا مگر اس کی تکمیل مسلم لیگ (ن) کی حکومت کر رہی ہے اور باقی زیادہ تر پارٹیاں اس کی مخالف ہیں۔ ایک جماعت کے لیڈر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ اقتصادی راستہ تبدیل کرنے کے خلاف بھی کالا باغ طرز کی عوامی مہم چلائیں گے۔ کھوکھر صاحب کا کہنا ہے کہ چینی کوئی دباؤ قبول نہیں کریں گے۔پاکستان میں ان کا '' سٹیک‘‘ ہے۔وزیر خارجہ کی ''خالی آسامی‘‘ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: دنیا کے صدر مقامات پر مشیر پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی‘ اگر سرتاج عزیز کو مشیر کہنے کی بجائے خارجہ امور کے وزیر کہا جائے تو سب کو اطمینان ہو گا اور وزیر اعظم کی سکیم بھی متاثر نہیں ہوگی۔کھوکھر صاحب پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر کر رہے تھے۔ایک سوال یہ آیا کہ عافیہ صدیقی کے معاملے میں اس آزادی کا احترام کیوں نہ کیا جائے ؟ کھوکھر صاحب تو خاموش رہے مگر سوال پر اخباری نمائندوں میں ایک چھوٹی سی بحث چھڑ گئی۔ایک نے کہا: وہ تو امریکی شہری ہے۔سوال کرنے والے نے پوچھا: عافیہ کی اپیل کی پیروی کے لئے ایک خطیر رقم اسلام آباد سے بھیجی گئی تھی اس کا کیا بنا؟ جواب تھا: سفارت خانے کا موقف یہ ہے کہ فیس ایک امریکی وکیل کو منتقل کی گئی تھی مگر عافیہ کے رشتے داروں نے کہا‘ وہ اپیل کی پیروی نہیں چاہتے‘ اس لئے کھیل ختم اور پیسہ ہضم ہو گیا۔اس محفل میں سفارت خانے کے ڈپٹی چیف ڈی مشن (نائب سفیر) بھی موجود تھے‘ جو چپ رہے۔
کھوکھر صاحب نے مائی لائی سے ابو غریب تک بے شمار واقعات کے تحقیقی رپورٹر سیمور ہرش کے حالیہ مضمون کی مخالفت میں اپنی آواز شامل کی اور اہل پاکستان کو مشورہ دیا کہ '' امریکہ سے جان چھڑائیں ‘‘۔ہم اپنے اندرونی مسائل حل کر لیں گے۔'' باہر کے مسئلے اتنے زیادہ سیریس نہیں ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے بھی فوج کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ سول حکومت کا پْرعزم ہونا لازم ہے۔سرکاری ملازم ریٹائرڈ ہوں یا حاضر سروس‘ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ بر سر اقتدار سیاسی پارٹیوں کے عہدے دار اپنی سیاسی مجبوریوں اور مصلحتوں کے تحت ان سے غیر سرکاری کام لیتے ہیں اور ان کی نظروں سے اپنے آپ کو گراتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں